موت سے رزق پاتی زندگی
بعد ازمرگ رسوم سے وابستہ پیشوں کے احوال پرمشتمل ایک دلچسپ تحریر ۔۔
تحریر : عابد حسین
ڈرائیور، کتب فروش، اسٹیشنری، یونی فارم، جوتے اور کھانے پینے کی چیزیں فروخت والوں نے اپنا حقِ خدمت وصول کیا۔ غرض کہ بچپن سے جوانی او ر پھر بْڑھاپے تک نعیم احمد کو زندہ رہنے اور معاشرتی تقاضے پورے کرنے کے لیے لاتعداد چیزوں اور سہولتوں کی ضرورت پڑی اور ان کے حصول کے لیے وہ کسی نہ کسی کی روزی روٹی کا ذریعہ بنتا رہا۔ 75 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے پر اْسے اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اسپتال سے اسپتال تک کا سفر اتنی جلدی ختم ہوجائے گا، یہ کبھی سوچا نہ تھا۔ کچھ دیر بعد ہڈیوں کے پنجرے سے روح کا پنچھی پرواز کر گیا۔ نعیم احمد کا دانا پانی اْٹھ چکا تھا، لیکن اس کے بے جان لاشے میں ابھی اتنی سکت باقی تھی کہ وہ جاتے جاتے کچھ لوگوں کے چولھے جَلا جاتا۔ ان میں ایک اسپتال کے مرکزی گیٹ پر پہنچ چکا تھا۔ نعیم احمد کے بیٹے نے میت گھر پہنچانے کے لیے ایک ایمبولینس منگوا ئی تھی۔ ہسپتال کے بستر پر جان دینے والے سب سے پہلے ایمبولینس چلانے والوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر ایمبولینس سروس کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ کمی نجی ادارے پوری کرتے ہیں۔ ان میں بعض سماجی خدمات فراہم کرنے والے ادارے بھی ہیں، جوتیمارداروں اورمیت کے لواحقین سے تھوڑے معاوضے پر خدمات پیش کرتے ہیں، لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں،جن کا مقصد صرف پیسا کمانا ہے۔ ایمبولینس کا عملہ عموماً دو افراد پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں ایک ڈرائیور اور دوسرا دورانِ سفرمریض کو ضروری طبی امداد فراہم کرتا ہے۔ مریض یا نعش کو ایمبولینس میں رکھنے اور اْتارنے کا کام دونوں افراد مل کر کرتے ہیں۔ ایسے افراد جو روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رْخ کرتے ہیں اور یہی اْن کی وفات ہوجاتی ہے، اْن کا جسد خاکی اْن کے آبائی علاقے تک پہنچانے کے لیے ایمبولینس استعمال کی جاتی ہے۔ بڑے شہروں میں ایمبولینس سروس نفع بخش کاروبار بن گیا ہے، اسی لیے یہاں کے اسپتالوں کے باہر لاتعداد اداروں کی ایمبولینسیں کھڑی ہوتی ہیں، لیکن دْور افتادہ اور پس ماندہ علاقوں میں یہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر ایمولینس سروسز سماجی خدمت فراہم کرنے کے بجائے کاروباری مقاصد کے تحت چلائی جاتی ہیں۔ نعیم احمد کے بیٹے اور قریبی عزیز اْس کی نعش کے ساتھ گھر پہنچ چکے تھے۔ مرد حضرات کفن دفن کے انتظامات میں لگ گئے۔ غسال اور میت بس کے ڈرائیور کوفون کیے گئے،محلے کے پکوان ہاؤس سے 150 افراد کے کھانے کا آرڈر دیا گیا۔ ایک قریبی عزیز پہلے ہی قبرستان روانہ ہوچکا تھا، تا کہ گورکن سے مل کر نعیم احمد کی قبر تیار کروائی جاسکے۔ تعزیت کے لیے آنے والوں کے لیے دریوں کا انتظام کیا جانے لگا۔ اس طرح میت قبرستان پہنچنے سے پہلے چند مزید افراد کے رزق کا بندوبست ہوچکا تھا۔ لیاقت آباد قبرستان کے باہر 42 سالہ غسال سجاد احمدکی دْکان ہے۔
معروف قبرستانوں میں خالی جگہ تلاش کرنا کافی مشکل ہوچکا ہے۔ دو گز زمین کے لیے گورکن کی منت سماجت کے ساتھ ساتھ بھاری رقم خرچ کی جاتی ہے، تب کہیں جا کر بات بنتی ہے۔ جس قبر میں نعیم احمد کو اْتارا جا رہا تھا، اْس کے لیے 25 ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔ گورکنی بہت قدیم پیشہ ہے۔ مذہبی روایات کے مطابق میت دفنانے کا طریقہ حضرتِ انسان نے کوؤں سے سیکھا تھا۔ میوہ شاہ قبرستان کراچی کا سب سے بڑا قبرستان ہے، جہاں 200 کے قریب گورکن کام کرتے ہیں۔ گورکن کو کام کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے۔نہ جانے دن یا رات کے کس پہر کوئی جنازہ آجائے۔ گورکنی چوبیس گھنٹے کا کام ہے، اس لیے میوہ شاہ کے بیش تر گورکن قبرستان کے اطراف ہی میں رہتے ہیں۔
وہ بنیادی طور پر درزی ہیں، لیکن 18 سال سے میتوں کو غسل دے رہے ہیں۔ سجاد احمد کہتے ہیں کہ پہلے دن میں ایک دو میتوں کے آرڈر آتے تھے، اب مہینے میں ایک دو ہی ملتے ہیں۔ گھرپر غسل دینے کے لیے چونکہ زیادہ انتظامات کرنے پڑتے ہیں، اس لیے زیادہ تر لوگ اس زحمت سے بچنے کے لیے میت ایدھی سینٹر لے جاتے ہیں، جہاں میت کو غسل دینے کے بعد کفن بھی دیا جاتا ہے۔ سجاد کہتے ہیں کہ غسل دینے کی فیس مقرر نہیں ہے، کوئی 200 روپے دیتا ہے تو کوئی ہزار بھی دے دیتا ہے۔لوگ جو دیتے ہیں وہ خوشی سے رکھ لیتے ہیں۔بعض اوقات انھیں مفت میں غسل دینا پڑا، لیکن انھوں نے بْرا نہیں منایا۔ سجاد کی دْکان پر کفن بھی ملتا ہے۔ بڑوں کا کفن 1200 روپے اور بچوں کے کفن کی قیمت 500 روپے ہے۔ راول پنڈی کے اکثرخاندانوں میں غسال کو چہلم تک کھانا دینے کا رواج ہے، اس طرح غسال کی 40 دن تک روٹی چلتی رہتی ہے۔ سجاداحمد کی دْکان کے تھوڑا آگے گْل فروش محمد فیاض کی دْکان ہے، جو یہاں 10 سال سے گلاب بیچ رہے ہیں۔ قبرستان کی وجہ سے اْن کی دْکان اچھی چلتی ہے۔ لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول اور مروا (خوش بْو دار پودا) رکھ کر اْن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان پھولوں سے صاحبِ قبر کو فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے لیکن گْل فروشوں کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ شہر کے ہر چھوٹے بڑے قبرستان کے آس پاس پھول بیچنے والوں کی متعدد دْکانیں اور ٹھیے نظر آتے ہیں۔عام دنوں میں بہت کم لوگ قبرستانوں کا رْخ کرتے ہیں، لیکن اتوار او رخاص تہواروں مثلاً عید، محرم اور شب برات کے دن گلاب اور مروابیچنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ جنازے کے شرکاء بھی موقع سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے اپنے عزیز رشتے داروں کی قبروں کے لیے پھول خریدتے ہیں، اس طرح پھول بیچنے والوں کی دال روٹی چلتی رہتی ہے۔ فیاض کہتے ہیں کہ یوں تو روزانہ کچھ نہ کچھ لوگ فاتحہ پڑھنے آتے ہیں لیکن جمعرات، جمعہ اور اتوار کے روز یہ تعداد بڑھ جاتی ہے۔ اتوار کی چھٹی ہوتی ہے اورجمعرات اور جمعہ کو قبرستانوں اور مزارات پر جانا مذہبی اعتبار سے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ قبروں پر زیادہ تر گلاب، گیندا اور مرواچڑھایا جاتا ہے، لیکن سب سے زیادہ استعمال گلاب کا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ قبر وں پر عطربھی لگاتے ہیں اورعرقِ گلاب چھڑکتے ہیں۔ خاص تہواروں پر پھولوں کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ فیاض کہتے ہیں کہ جس گلاب کی قیمت آج 30 روپے کلو ہے، وہی گلاب خاص دنوں میں 100 روپے کلو فروخت ہوتا ہے۔ گاہک کم قیمت پر زیادہ گلاب لینے کی ضد کرتے ہیں یا پھر بہت کم مقدار میں خریدتے ہیں۔ گلاب دس، بارہ گھنٹے بعد مرجھا جاتا ہے، اس لیے گل فروشوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مرجھانے سے پہلے اْن کے سارے پھول فروخت ہوجائے۔ موت سے وابستہ پیشوں میں تابوت سازی بھی اہم پیشہ ہے۔ اگرچہ تابوت کا زیادہ تر استعمال مسیحی کرتے ہیں، جو میت کو تابوت سمیت دفن کرتے ہیں، لیکن مخصوص حالات یا حادثاتی اموات میں یہی تابوت مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے متوفین کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے شہروں اور گاؤں میں رہنے والے روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رْخ کرتے ہیں، لیکن اْن کے عزیز رشتے دار اور بعض اوقات بیوی بچے اْن کے ساتھ نہیں ہوتے۔ ایسے میں اگر اْنھیں موت کا بْلاوا آجائے تو اْن کی نعش تابوت میں رکھ کر اْن کے آبائی شہر یا گاؤں پہنچائی جاتی ہے۔ حادثات یا قدرتی آفات کے نتیجے میں مرنے والوں کی نعشیں محفوظ رکھنے کے لیے بھی تابوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اقبال ایم بھٹی 1986 سے تابوت فروخت کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ سماجی کارکن بھی ہیں، اس لیے وہ تابوت اور کفن سستی قیمت پر دیتے ہیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ضرورت مند ہو تو وہ مفت بھی دے دیتے ہیں۔ اقبال بھٹی کہتے ہیں کہ عیسائی اور مسلمان کے تابوتوں میں سوائے ’کراس‘ کے اور کوئی فرق نہیں ہوتا۔ عیسائی تابوت پر کراس لگوانا پسند کرتے ہیں اور اْن کے تابوت عموماً کالے کپڑے میں لپٹے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تابوت پہلے پرتر اور دیار کی لکڑی سے بنتے تھے، لیکن مہنگائی کے باعث یہ لکڑیاں نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ مہنگی لکڑیوں کا تابوت 8 سے 10 ہزار روپے میں تیار ہوتا ہے، جو غریب شخص نہیں خرید سکتا۔آج کل تابوت میں پلائی اور کمرشل بورڈ استعمال ہوتا ہے، جس سے تابوت پر 2100 روپے لاگت آتی ہے اور یہ 2500 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ تابوت کے اندر المونیم کی چادر لگتی ہے تا کہ حادثات میں مرنے والوں کے جسم سے نکلنے والے خون سے تابوت خراب نہ ہو۔ تابوت کے علاوہ اقبال بھٹی کے پاس کفن کا بھی بندوبست ہے۔ کفن کا کپڑا 10 سے 11 میٹر ہوتاہے، جس کی قیمت 550 روپے ہے۔ نعیم احمد کا جنازہ اپنی آخری آرام گاہ کی طرف جانے کے لیے تیار تھا۔دو میت بسیں کچھ دیر پہلے وہاں پہنچ چکی تھیں۔ نماز جنازہ کے بعد میت کو بس میں رکھ کر لوگ قبرستان کے لیے روانہ ہوگئے۔ بہت سے نجی ادارے میت بسیں کرائے پر دیتے ہیں۔ بعض برادریوں کی اپنی میت بسیں ہوتی ہیں،جو کرائے پر بھی دی جاتی ہیں۔ گاؤں اور قصبات میں لوگ جنازے کو چارپائی پر رکھ کر پیدل ہی دفنانے جاتے ہیں، گنجان آبادی والے بڑے شہروں میں ٹریفک کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے شہروں میں یہ رواج قریباً ختم ہوچکا ہے۔ قبرستان پہنچ کر نعیم احمد کا جنازہ بس سے اْتارا گیا۔ اْس کے بیٹے نے قبرستان کے مرکزی پھاٹک کے قریب ایک گْل فروش سے گلاب اور مروا خریدا۔ نعیم احمد کی قبر پہلے سے تیار کر لی گئی تھی، لیکن قبر کی جگہ کے حصول کے لیے کافی پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ معروف قبرستانوں میں خالی جگہ تلاش کرنا کافی مشکل ہوچکا ہے۔ دو گز زمین کے لیے گورکن کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے اوربھاری رقم خرچ کی جاتی ہے، تب کہیں جا کر بات بنتی ہے۔ جس قبر میں نعیم احمد کو اْتارا جا رہا تھا، اْس کے لیے 25 ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔ گورکنی بہت قدیم پیشہ ہے۔ مذہبی روایات کے مطابق میت دفنانے کا طریقہ حضرتِ انسان نے کوؤں سے سیکھا تھا۔ میوہ شاہ قبرستان کراچی کا سب سے بڑا قبرستان ہے، جہاں 200 کے قریب گورکن کام کرتے ہیں۔ گورکن کو کام کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے۔نہ جانے دن یا رات کے کس پہر کوئی جنازہ آجائے۔ گورکنی چوبیس گھنٹے کا کام ہے، اس لیے میوہ شاہ کے بیش تر گورکن قبرستان کے اطراف ہی میں رہتے ہیں۔