(ویب ڈیسک): امریکی خلائی تحقیقی ادارے ’’ناسا‘‘ اور اشیائے صرف بنانے والی مشہور بین الاقوامی کمپنی ’’پراکٹر اینڈ گیمبل‘‘ (پی اینڈ جی) نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے مطابق دنیا کے پہلے ’’خلائی واشنگ پاؤڈر‘‘ کی آزمائش اگلے سال سے عالمی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں شروع کی جائے گی۔
واضح رہے کہ خلائی اسٹیشن کے بے وزن (weightless) ماحول میں بیشتر ایسے کام انتہائی مشکل بن جاتے ہیں جو زمین پر ہمارے لیے روزمرہ کا معمول ہیں، جیسے کہ کھانا پینا، غذا ہضم کرنا اور نہانا دھونا وغیرہ۔
ایسا ہی ایک ’’عام کام‘‘ کپڑوں کی دھلائی ہے جو کئی باتوں کی وجہ سے آج تک خلائی اسٹیشن میں ممکن نہیں ہوسکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ خلائی اسٹیشن میں رہنے والے خلانورد (خلاباز) آج بھی اپنے استعمال شدہ، بدبودار کپڑے دھونے کے بجائے انہیں خاص کمرے میں بند کرنے پر مجبور ہیں۔
سال میں دو سے تین بار ایک خصوصی ’’کارگو کیپسول‘‘ خلائی اسٹیشن تک پہنچ کر اس سے جڑ جاتا ہے۔ اس میں موجود تازہ سامانِ رسد خلائی اسٹیشن میں منتقل کردیا جاتا ہے جبکہ، گندے کپڑوں سمیت، خلائی اسٹیشن کا تمام کچرا اس کارگو کیپسول میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
واپسی پر یہ کارگو کیپسول زمینی فضا میں داخل ہوتا ہے اور ہوا کی رگڑ سے، اپنے اندر رکھے گئے سامان سمیت، جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔
بہرکیف، اگر صرف چند ہفتوں تک خلائی اسٹیشن میں رہنے کا معاملہ ہو تو کم کپڑوں سے کام چل جاتا ہے لیکن اگر خلانوردوں کو مسلسل کئی مہینوں تک (اور بعض اوقات ایک سال سے بھی زیادہ) وہاں قیام کرنا پڑ جائے تو انہیں بہت زیادہ کپڑے درکار ہوتے ہیں۔
بے وزن خلائی ماحول میں ہڈیاں بہت تیزی سے کمزور اور بھربھری ہونے لگتی ہیں۔ اس کیفیت سے بچنے کےلیے خلانوردوں کو روزانہ پابندی سے کچھ مخصوص ورزشیں کرنی پڑتی ہیں۔
خلائی اسٹیشن کا اندرونی ماحول بہت صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے خلانوردوں کے کپڑے بھی بہت کم میلے ہوتے ہیں۔
البتہ روزانہ خاصی دیر تک ورزش کرنے سے بہت پسینہ نکلتا ہے جو کپڑوں کو بدبودار بنا دیتا ہے اور انہیں ہر تین سے چار دن میں لازماً بدلنا پڑ جاتا ہے۔
ناسا کے مطابق، خلائی اسٹیشن میں رہنے والے ایک خلانورد کے کپڑوں پر آنے والا مجموعی سالانہ خرچہ 16 لاکھ ڈالر (25 کروڑ پاکستانی روپے) کے لگ بھگ ہوتا ہے۔
یہ تو صرف خلائی اسٹیشن میں طویل انسانی قیام کی بات ہے لیکن اگر معاملہ چاند یا مریخ پر انسانی بستیوں کا ہوا تو سوچیے کہ صرف کپڑوں کی مد میں کتنا خرچہ آئے گا۔
یہ اور ان جیسے دوسرے کئی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ناسا اور پی اینڈ جی نے ’’پی جی ٹائیڈ‘‘ نامی مشترکہ منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو ’’پی اینڈ جی ٹیلی سائنس انویسٹی گیشن آف ڈٹرجنٹس ایکسپیریمنٹس‘‘ کا مخفف ہے۔
اس منصوبے کے تحت ایسے ڈٹرجنٹس تیار کیے جائیں گے جو خلا کے بے وزن ماحول میں بھی کپڑے دھونے کا کام مؤثر طور پر کرسکیں گے۔ آسانی کےلیے آپ انہیں ’’خلائی واشنگ پاؤڈر‘‘ کا عمومی نام دے سکتے ہیں۔
زمین کے مقابلے میں خلائی اسٹیشن کے اندر کپڑے دھونا کس قدر مشکل کام ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کےلیے کچھ موٹی موٹی باتیں بتائے دیتے ہیں۔
سب سے پہلے تو خلائی اسٹیشن میں پانی کا ’’کوٹہ‘‘ بہت محدود ہوتا ہے جسے کھانے پینے سے لے کر رفع حاجت تک، تمام کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
استعمال شدہ پانی کو بازیافت (ری سائیکل) کرکے دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کےلیے خلائی اسٹیشن میں ایک خصوصی نظام نصب ہے، جس کی بدولت کم پانی بھی لمبے عرصے تک (بار بار ری سائیکل کرکے) استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس ’’شدید آبی قلت‘‘ کے پیشِ نظر، خلائی واشنگ پاؤڈر کو لازماً اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ کم سے کم پانی استعمال کرتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ کپڑوں کی مؤثر دھلائی کرتے ہوئے انہیں داغ دھبوں، میل کچیل اور بدبو پیدا کرنے والے جراثیم سے پاک کرسکے۔
یہی نہیں، بلکہ خلائی واشنگ پاؤڈر کے اجزاء ایسے ہونے چاہئیں کہ جو بے ضرر اور محفوظ ہوں۔ علاوہ ازیں، خلائی واشنگ پاؤڈر کے یہ اجزاء ایسے ہوں کہ جو استعمال کے بعد خود بخود ایسے مادّوں میں تحلیل ہوجائیں جنہیں خلائی اسٹیشن کا ’’واٹر ری سائیکلنگ سسٹم‘‘ بہ آسانی فلٹر کرکے پانی سے مکمل طور پر الگ بھی کرسکے۔
خبروں کے مطابق، پی جی ٹائیڈ منصوبے کے تحت ایسی واشنگ مشین بھی تیار کی جائے گی جو انتہائی کفایت شعاری سے پانی استعمال کرتے ہوئے کپڑے دھونے کے قابل ہو؛ جبکہ وہ خلائی اسٹیشن میں بے وزنی کے علاوہ چاند اور مریخ کی کمزور/ بدلتی ہوئی کششِ ثقل والے ماحول میں بھی کام کرسکے۔
اس بارے میں پی اینڈ جی کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ واشنگ پاؤڈر کے علاوہ ایسے خاص ٹشو پیپرز اور وائپس بھی بنائے جائیں گے جو خلائی اسٹیشن کے اندر کسی سطح پر لگے ہوئے داغ دھبے صاف کرسکیں گے۔
پی اینڈ جی نارتھ امریکا فیبرک کیئر کی سینئر نائب صدر، ایگنیزکا اورلک کہتی ہیں کہ ناسا اور آئی ایس ایس نیشنل لیب کے ساتھ اشتراک سے ’’ہمیں موقع ملا ہے کہ ہم اپنے وسائل کے انتہائی حد تک استعمال کی حد سے متعلق جان سکیں اور عملی میدان میں کچھ ایسا نیا سیکھ سکیں کہ جو زمین پر اور خلا میں دھلائی کا مستقبل ثابت ہو۔‘‘
Load/Hide Comments