ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب اپریل 2021

وقف پراپرٹیزآرڈیننس1979میں ترامیم – مزارات، مساجد اور دینی مدارس وغیرہ پر حکومتی شب خون

وقف پراپرٹیز آرڈیننس1979میں ترامیم
مزارات، مساجد اور دینی مدارس وغیرہ پر حکومتی شب خون

تحریر: میاں خالد حیب الٰہی
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان

دور حاضر میں حکومتیں سرکاری سطح پر عوام کے لیے سہولیات پیدا کرنے کے لیے قانون سازی اور انتظامی اقدامات کے ذریعہ مختلف محکموں اور اداروں میں ون ونڈو سسٹم قائم کر رہیں ہیں تاکہ عوام کو اپنے کاموں کے لیے مختلف دفاتر کے چکر نہ لگانے پڑیں اور لوگوں کے مسائل ایک چھت تلے حل ہوں۔ اسی تصور کو نجی کاروبار میں بھی اختیار کرتے ہوئے ڈیپارٹمنٹل سٹور قائم کئے گئے ہیں تاکہ کسٹمر کو ایک ہی چھت تلے روز مرہ ضرویات کی اشیاء حاصل ہو سکیں۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہماری حکومت مذہبی اور فلاح عامہ کا رجحان رکھنے والے حضرات کے لیے دن بدن مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ ستمبر2020 ء میں حکومت پنجاب نے پنجاب وقف پراپرٹیز آرڈیننس 1979ء میں غیر ضروری ترامیم کے لیے پنجاب وقف پراپرٹیز (ترمیمی)ایکٹ 2020ء پنجاب اسمبلی سے پاس کروا کر گورنر پنجاب کی منظوری سے نافذ کیا ہے۔ حکومتی ترجمان کے مطابق ترامیمFATF(فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کی ہدایت اور ضروریات کے پیش نظر کی گئیں ہیں۔ FATF کے مقاصد میں دہشت گردی کے سدباب کے لیے منی لاڈرنگ کو روکنا ہے۔ اگر ہم پنجاب وقف پراپرٹیز آرڈیننس 1979ء اور اس کے تحت قائم محکمہ اوقاف کے دائرہ کار کا جائزہ لیں تو محکمہ اوقاف کا مقصد مساجد اور مزارات کو اپنی تحویل میں لے کر انتظامی معاملات چلانا ہے تاکہ نمازیوں اور زائرین کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں۔ بہت سی مساجد اور مزارات اب بھی اوقاف کی تحویل میں نہ ہیں کیونکہ چند مزارات اور مساجد کو چھوڑ کر دیگر مساجد اور مزارات سے معقول آمدن نہ ہے۔ محکمہ اوقاف کی پالیسی کے مطابق ایسی مساجد اور مزارات جہاں سے آمدن نہ ہو وہ تحویل میں نہ لئے جاتے ہیں۔ دراصل محکمہ اوقاف قانون میں متعین مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ محکمہ اوقاف ایک سفید ہاتھی کی طرح پل رہا ہے جو نہ صرف مزارات اور خانقاہوں کی آمدن ہڑپ کر رہا ہے بلکہ مزارات اور خانقاہوں کی قیمتی اراضی قبضہ گروپوں سے بچانے کے بہانے اوقاف کے ملازمین میں بندربانٹ کے طور پر تقسیم کر رہا ہے۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مزارات اور مساجد کا دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سے کبھی تعلق نہ رہا ہے بلکہ الزام بھی نہ ہے۔ جبکہ مزارات اور مساجد خود دہشت گردی کا شکار اور نشانہ رہے ہیں۔ البتہ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کا الزام مخصوص مکتبہ فکر کے دینی مدارس اور تنظیموں پر رہا ہے۔ ایسی تنظیموں کو حکومت نے کالعدم قرار دے دیا جبکہ دینی مدارس محکمہ اوقاف نے کبھی اپنی تحویل میں نہ لئے۔

قانونی طور پر پراپرٹی وقف کرنے کے لیے سب سے پہلے پراپرٹی کا مالک وقف نامہ تحریر و تکمیل کر کے سب رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ کراتا ہے اور محکمہ مال میں تحصیلدار سے وقف شدہ پراپرٹی کا انتقال درج کراتا ہے۔ مساجد دینی مدارس اور فلاحی ادارے پہلے سے موجود سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860ء کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ جبکہ کچھ سماجی فلاحی ادارے، ادارہ بائے معاشرتی بہبود
(رجسٹریشن و کنٹرول) آرڈیننس(Volontary Social Welfar 1961 Agencies (Registration and Control) Ordinance 1961) کے تحت سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں مذکورہ دونوں محکموں میں حسابات کی سالانہ آوٹ رپورٹ جمع کرانا لازمی ہے۔ 2018ء میں پنجاب چیرٹیز ایکٹ کے تحت پنجاب چیریٹی کمیشن قائم کیا گیا اور تمام خیراتی اور فلاحی تنظیموں اور اداروں کے لیے پنجاب چیئریٹی کمیشن سے رجسٹریشن کروانا لازم قرار دیا گیا۔ اس کمیشن کے ذریعہ خیراتی اور فلاحی اداروں کی کی رجسٹریشن صدقات، عطیات جمع کرنے کی نگرانی اور فنڈز کی ترسیل میں شفافیت کو یقینی بنانا قرار دیا گیا ہے۔
دینی مدارس پہلے سے ہی سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ1860ء کے تحت رجسٹرڈ ہیں اور وہاں اپنی سالانہ آمدوخرچ کی آؤٹ رپورٹ کارکردگی رپورٹ اور ہر سال عہدیداران کی فہرست جمع کرانے کے پابند ہیں۔ علاوہ ازیں دینی مدارس اپنے اپنے مسلک کے وفاق المدارس عربیہ، وفاق المدارس شیعہ، وفاق المدارس سلفیہ اور تنظیم المدارس اہلسنت کے ساتھ بھی رجسٹرڈ اور الحاق شدہ میں۔وفاق المدارس اور تنظیم المدارس اہلسنت اپنے اپنے مسلک کے دینی مدارس کے طلبا اور طالبات کے امتحانی بورڈ ہیں جن کی جاری کردہ اسناد کو حکومت تسلیم کرتی ہے۔ اب وفاقی حکومت کی سطح پر اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ بورڈ قائم کر دیا گیا ہے۔ وہاں بھی رجسٹریشن ضروری ہے۔ پنجاب وقف پراپرٹیز(تیرمیمی) ایکٹ 2020ء کے ذریعہ پہلی دفعہ6 کو حذف کر کے نئی دفعہ6شامل کی گئی ہے دفعہ(1)6 کے تحت وقف قائم کرنے کے 90دن کے اندر محکمہ اوقاف کے پاس وقف کو رجسٹرڈ کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
بصورت دیگر دفعہ (2)6 کے تحت مقررہ معیاد کے اندر رجسٹریشن نہ کروانے کی صورت میں پہلے 90دنوں میں ہر روز پچاس ہزار اور 90 دنوں کے بعد ہر روز ایک لاکھ روپیہ یومیہ جرمانہ ہو گا۔ وقف پراپرٹیز آرڈیننس1979ء کی دفعہ 24 میں ترمیم کر کے ذیلی دفعہ(2) کو تبدیل کر کے قرار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص وقف پراپرٹیز آرڈیننس1979ء کی دفعہ20 کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے 5سال قید جو کسی بھی صورت ایک سال سے کم نہیں ہو گی دی جائے گی اور جرمانہ کیا جائے گا جو وقف پراپرٹی سے حاصل کردہ آمدن کا 3گناہو گا اور دفعہ 24میں ذیلی دفعات4,3 اور 5کااضافہ کر دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص دفعہ6پر عمل نہیں کرتا اور اراداتاً معلومات کو مخفی رکھتا ہے یا نامکمل اور غلط معلومات دیتا ہے تو ایسے شخص کو بھی 5سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ جرمانہ کا تعین متعلقہ کلکٹر یا کوئی دیگر اتھارٹی جیسے چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف مقرر کرے گا۔ وقف پراپرٹی کے دورانیہ کے لحاظ سے کرے گا۔ مذکورہ دفعہ کے تحت جرم کے مقدمہ کی سماعت سیشن جج کرے گا۔ ذیلی دفعہ(5) کے تحت آرڈیننس 1979ء کی کسی دفعہ کی خلاف ورزی جس کے جرمانہ کا پہلے تعین نہ کیاگیا ہو تو متعلقہ شخص کو ڈھائی کروڑ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ وقف آرڈیننس 1979ء کی دفعہ20کیا کہتی ہے۔ دفعہ (2)20 کے تحت چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف کسی بھی ایسے شخص جو ایسی وقف پراپرٹی کا انچارج ہو یا ایسی وقف پراپرٹی کے انتظامی امور کو کنٹرول کر رہا ہو جس کو چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف نے دفعہ7 کے تحت اپنی تحویل میں نہ لیا ہو تو جو ضروری سمجھے ہدایت جاری کر سکتا ہے کہ وقف تصور کی جانے والی پراپرٹی میں تقریر، خطبہ اور لیکچر دینے سے بازوممنوع رہا جائے۔ محکمہ اوقاف نے ترمیمی ایکٹ 2020ء کی روشنی میں وقف پراپرٹیز کی رجسٹریشن کے لیے جوفارم بنایا ہے اس کے کالم(C)6 میں پراپرٹی وقف کرنے والے واقف کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی تفصیل پوچھی گئی۔ کالم نمبر(D)6 میں وقف کرنے والے کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیل مانگی گئی ہے۔ مذکورہ دونوں کالم ترمیم شدہ دفعہ کے منافی ہیں۔ قانون میں واقف کی پراپرٹیز اور بینک اکاؤنٹس کی انفارمیشن دینے کا کوئی ذکر نہ ہے۔ مذکور کالموں سے بھی حکومت کی بدنیتی جھلکتی ہے۔ ایسی انفارمیشن دینے کی واقف کو کیا ضرورت ہے۔ وہ تو کہے گا کہ میں فلاحی کاموں سے باز آیا۔

Leave a Reply