ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب

ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب ( مارچ 2021ء رجب المرجب1442 ھ )

ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب

مارچ 2021ء رجب المرجب1442 ھ

ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب
ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
معاصر مذاہب اور منحرف نظریات کے تقابلی مطالعہ سے اسلام کی صداقت واضح ہوتی ہے،ڈاکٹر علامہ خالد محمود
مذاہب عالم میں اسلام کا ترجمان
ماہنامہ مکالمہ بین المذاہب لاہور
(جلد نمبر14) مارچ 2021ء رجب المرجب1442 ھ (شمارہ1)
یہ مجلہ…… مذاہب کے درمیان مکالمہ میں
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ
اور ترجمانِ اسلام حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ
کے انداز کا امین اور ان کے کردار کی روشنی میں امت کی فکری تربیت کا علمبردار ہے
چیف ایڈیٹر:
مبلغِ اسلام،مولانا عبدالرؤف فاروقی
فون:0300-4731347
ایڈیٹر: حافظ محمد اسامہ
0300-7400678
قیمت فی شمارہ
40روپے
پتہ برائے خط و کتابت
جامع مسجد خضراء، سمن آباد، لاہور

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(فہرست)
نمبر شمار عنوانات صفحہ نمبر
(1) اداریہ 5
(2) درس قرآن 8
(3) موجودہ انجیل میں رحمۃ للعٰلمینﷺ کی بشارات 13
(3) موجودہ دور میں یہودی ریاست کا قیام 24
(4) ایسٹر……حقائق کیا ہیں؟ 47
(5) سیرت سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام(قسط نمبر2) 55

٭……٭……٭
(……ناشر……)
مرکز تحقیق اسلامی…… جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ(رجسٹرڈ)
کامونکے،ضلع گوجرانوالہ،پاکستان
ویب سائیٹ:
Web:www.Jamia-islamia.com
Email: almazahib@yahoo.com
فون:0300-9405178 — 055-6665121
27-2-2020

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قول فیصل
اداریہ

اسرائیل! ریاست یا دہشت گرد قوت؟

اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے اوراس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے مسئلہ پر بحث بھی جاری ہے اور روابط کے لیے خفیہ یا علانیہ دوڑ بھی…………
عالم اسلام کے دو مسائل ستر برس سے عالمی برادری کے فورم پر حل طلب چلے آرہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر…… ان گنت اور انتہائی مشکل مسائل اس عرصہ میں حل ہوئے۔ یہ دونوں مسائل چونکہ خالصتاً اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے مسائل تھے اس لیے عالمی برادری نہ انہیں حل کرنے میں سنجیدہ ہوئی اور نہ یہ حل ہوئے۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر عسکری کے ساتھ آئینی جارحیت کا ارتکاب کیا، ہم قراردادوں اور عالمی برادری کو توجہ دلانے کی حد تک رہے۔مسئلہ فلسطین کا حل۔ اسلامی جہاد تھا نہ ہم اس کے لیے میدان میں اُترئے نہ فلسطینی جہادی مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ محض اخلاقی تائید، وہ بھی لفظوں کی حد تک۔ وریہ بھی مصلحت اندیشی۔ عالمی طاقتوں کی ناراضگی اور اسرائیلی دہشت گردی سے بچنے کے لیے برائے نام۔
نام نہاد عالمی برادری نے بطور خاص۔ جرمنی، روس، امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ نے یہودیوں کے شر سے اپنی ریاستوں اور اپنی رعایا کو بچانے کے لیے انہیں ارض مقدس کی طرف ڈھکیل دیا یا اُن کے وہاں منتقل ہونے کی راہ ہموار کی اور عالم اسلام کے قلب میں ایک زہر آلود خنجر کے طور پر پیوست کر دیا۔ پھر اُسے مسلح کیا، مالی امداد دی۔ طاقتور بنایا اس حد تک کہ وہ جب چاہتے ہیں فلسطینی مسلمانوں کی خون سے ہولی کھیلتے، جان، مال اور آبرو پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ہمسایہ مسلم ریاست پر حملہ کر کے انہیں مارپیٹ اور زخمی کر کے عالمی برادری اور اس کی قراردادوں کے دامن میں پناہ لے لیتے ہیں۔
اِدھر مسلم ریاستوں نے اپنی عسکری اورمالی قوت کے باوجود اس ناجائز ریاست کا پنجہ مروڑنے کے لیے کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ باہم کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔
اور ستم بالائے ستم یہ کہ اب اس یہودی ریاست اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے اور اس کے ساتھ ہر قسم کے روابط قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ چند ریاستوں نے عملی قدم اٹھا لیا ہے اور باقی ریاستوں میں فضاء سازگار بنائی جا رہی ہے ذہن سازی ہو رہی ہے اور ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔
نام نہاد دانشور۔ سیاستدان۔ صحافی اور مذہبی رہنما شوشے چھوڑتے ہیں۔ حکومتیں ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ یہودی ایجنٹ ان پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اسرائیل اور اس کی سہولت کار ریاستیں ان کی پیٹھ ٹھونکتی ہیں اور عوام میں بحث چل نکلتی ہے۔ یہ ہی اس کے لیے ماحول سازگار بنانے کے طریقے ہیں۔ جب میڈیا پر اس سلسلے میں گفتگو کے پروگرام نشر ہوتے ہیں اور یہودی ایجنٹ تجزیہ کار اس پر مکالمہ کرتے ہیں تو ہر سطح پر ایک بیج بویا جا تا ہے کہ جب ساری دنیا کے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تو اسرائیل کے ساتھ کیوں نہ ہوں کہ وہاں ہمارے مقدس مقامات ہیں۔ حضور سروردوعالمﷺ کے سفر معراج کی پہلی منزل ہے۔ انبیاء کی سرزمین ہے۔ بیت المقدس قبلہ اول ہے اور نہ جانے کیاکیا ہے؟ کیوں نہ وہاں تک آمد ورفت کا راستہ کھول لیا جائے۔ اس میں حرج ہی کیا ہے۔
ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ سب کچھ جلد یا بدیر ہو سکے کا یا نہیں! تاہم…… قارئین مکالمہ تک تاریخی، فکری اور تحقیقی انداز میں فلسطین، اسرائیلی ریاست اور یہودی مذہب سے متعلق حقائق منتقل کرنا ایک اہم کام ہے اور اس شمارے میں فکر انگیز مضامین کے ذریعہ ہم یہ فرض ادا کرنے جارہے ہیں۔اس کے ساتھ ماہ اپریل کی مناسبت سے پیشگی۔ مسیحی مذہبی تہوار ”ایسٹر“ سے متعلق اور سید دوعالمﷺ کی نبوت ورسالت پر کتب سابقہ سے بشارات پرمضامین شامل اشاعت ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں۔ قارئین مکالمہ سے ہم اس سلسلہ میں امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنا اپنا فرض ادا کریں گے اور بذریعہ ڈاک ہمیں بھی اس سلسلہ میں اپنے جذبات اور تجاویز سے نوازیں گے۔
اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے ظلم کا ہاتھ روکنے کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا اپنی اکردار ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں۔
نیز…… مکالمہ کئی ماہ کے تعطل کے بعد شائع ہو رہا ہے۔ اس کی مسلسل اشاعت کے لیے بھی دعاوؤں اور تعاون کی درخواست ہے۔
عبدالرؤف فاروقی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

روشنی ترجمہ:شیخ الہندمولانا محمود حسنؒ

درس قرآن مجید تفسیر فوائد: شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی

درس قرآن مجید

ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب ( مارچ 2021ء رجب المرجب1442 ھ ) 1

ترجمہ آیات: اور وہ جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں۔ف1
اُن سے بھی لیا تھا ہم نے عہد اُن کا، پھر بھول گئے نفع اٹھانا اس نصیحت سے جو ان کو کی گئی تھی۔ف2
پھر ہم نے اُن کے آپس میں دشمنی اور بغض لگا دیا۔ف3
قیامت کے دن تک ف4
اور آخر جتلائے گا اُن کو اللہ جو کچھ کرتے تھے۔ف5
اے اہل کتاب۔ آیا ہے تمہارے پاس رسول ہمارا۔ ظاہر کرتا ہے تم پر بہت سی ایسی چیزیں جن کو تم چھپاتے تھے کتاب میں سے اور درگذر کرتا ہے بہت سی چیزوں سے۔ف6
بے شک تمہارے پاس آئی ہے اللہ کی طرف سے روشنی اور کتاب ظاہر کرنے والی
جس سے اللہ ہدایت دیتا ہے اس کو جو تابع ہوا اس کی رضا کا …… سلامتی کے راستوں کی…… اور اُن کو نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی کی طرف اپنے حکم سے اور اُن کو چلاتا ہے سیدھی راہ پر۔ف7
تفسیری فوائد
فائدہ نمبر1:۔نصاری کا واضح ترین مفہوم: نصاریٰ کا ماخذ یا تو ”نصر“ ہے جس کے معنی مدد کرنے کے ہیں اور یا ”ناصرہ“ کی طرف نسبت ہے جو ملک شام میں اس بستی کا نام ہے جہاں حضرت مسیح علیہ السلام رہے تھے۔ اس لیے ان کو ”مسیح ناصری“ کہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے کو ”نصاری“ کہتے ہیں وہ گویا اس بات کے مدعی تھے کہ ہم خدا کے سچے دین اور پیغمبر کے حامی و ناصر اور حضرت مسیح ناصری کے متبع ہیں …… اس زبانی دعویٰ اور لقبی تفاخر کے باوجود دین کے معاملہ میں جو رویہ تھا وہ آگے ذکر کیا گیا ہے۔
فائدہ نمبر2:۔یعنی یہود کی طرح اُن سے بھی عہد لیا گیا تھا لیکن یہ بھی عہد شکنی اور بے وفائی میں اپنے پیش رو یہودیوں سے کچھ کم نہیں رہے انہوں نے بھی ان بیش بہا نصائح سے جن پر نجات و فلاح ابدی کا دارومدار تھا کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ ”بائیبل“ میں نصیحتوں کا وہ حصہ باقی ہی نہ چھوڑا جو حقیقتاً مذہب کا مغز تھا۔

فائدہ نمبر3:۔  اہل کتاب باہم دگردست و گریبان ہیں۔ یعنی باہم نصاریٰ میں یا ”یہود“ اور ”نصاری“ دونوں میں عدواتیں اور جھگڑے ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئے۔ آسمانی سبق کو ضائع کرنے اور بھلا دینے کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا۔ یعنی وحی الٰہی کی اصلی روشنی ان کے پاس نہ رہی تو اوھام واہواء کی اندھریوں میں ایک دوسرے سے الجھنے لگے۔مذھب تو نہ رہا لیکن مذہب کے جھگڑے رہ گئے۔ بیسیوں فرقے پیدا ہو کر اندھرے میں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ یہ ہی فرقہ وار تصادم آخر کا ر آپس کی شدید ترین عداوت اور بغض پر منتہی ہوا۔ کوئی شبہہ نہیں کہ آج مسلمانوں میں بھی بے حد تفرق و تشتت اور مذہبی تصادم موجود ہے لیکن ہمارے پاس وحی الٰہی اور قانون سماوی بحمد اللہ بلاکم و کاست محفوظ ہے اس لیے اختلافات کی موجودگی میں بھی مسلمانوں کی بہت بڑی جماعت برابر مرکز حق و صداقت پر قائم رہی ہے اور رہے گی اس کے برخلاف ”یہود و نصاریٰ“ کے اختلافات یاتومثلاً ”پروٹسنٹ“ اور ”رومن کیتھولک“ وغیرہ فرقوں کی باہم مخالفت میں کوئی ایک فریق بھی نہ آج شاہراہ حق و صداقت پر قائم ہے اور نہ قیامت تک ہو سکتا ہے کیونکہ وہ وحی الٰہی کی روشنی کو جس کے بدون کوئی انسان خدا تعالیٰ اور اس کے قوانین کی صحیح معرفت حاصل نہیں کر سکتا اپنی بے اعتدالیوں اور غلط کاریوں سے ضائع کر چکے ہیں۔ اب جب تک وہ ”بائبیل“ کے دامن سے وابستہ رہیں گے محال ہے کہ قیامت تک ان کو رانہ اور محض بے اصول اختلافات اور فرقہ وار بغض و عناد کی ظلمت سے نکل کر حق کا راستہ دیکھ سکیں اور نجات ابدی کی شاہراہ پر چل سکیں۔ باقی جو لوگ آج محض مذہب خصوصاً عیسائیت کا مذاق اڑاتے ہیں اور جنہوں نے لفظ ”مسیحیت“ یا موجودہ بائبل“ کو محض چند سیاسی ضرورتوں کے لیے رکھ چھوڑا ہے اس آیت میں اُن نصاریٰ کا ذکر نہیں۔ اور اگر مان لیا جائے کہ وہ بھی اس آیت کے ضمن داخل ہیں تو اُن کی باہمی عداوتیں اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ ریشہ دوانیاں اور علانیہ محاربات بھی باخبر اصحاب سے پوشیدہ نہیں۔
فائدہ نمبر4: ۔یعنی جب تک وہ رہیں گے یہ اختلاف اور بغض و عناد بھی ہمیشہ رہتے گا۔ یہاں ”قیامت تک“ کا لفظ ایسا ہے جیسے ہمارے محاورات میں کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص تو قیامت تک بھی فلاں حرکت سے بار نہیں آئے گا۔ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ شخص قیامت تک زندہ رہے گا اور یہ حرکت کرتا رہے گا۔ مراد یہ ہے کہ اگر قیامت تک بھی زندہ رہے تو اس بات کو نہیں چھوڑئے گا اسی طرح اس آیت میں ”الی یوم القیمۃ“ کا لفظ آنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ”یہود و نصاری“ کا وجود قیامت تک رہے گا جیسا کہ ہمارے زمانے کے بعض مبطلین نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے۔

فائدہ نمبر5: ۔یعنی آخرت میں پوری طرح اور دنیا میں بھی بعض واقعات کے ذریعہ سے اُن کو اپنی کرتوت کا نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔

فائدہ نمبر6:۔اہل کتاب کو دعوت اسلام۔ یہ سب یہود و نصاریٰ کوخطاب ہے کہ وہ نبی آخر الزمانﷺ جن کی آمد کی بشارات تمہاری کتابوں میں اس قدر تحریف کے باوجود بھی کسی نہ کسی عنوان سے موجود ہیں، تشریف لے آئے۔ جن کے منہ میں خدا نے اپنا کلام ڈالا ہے اور جنہوں نے اُن حقائق کی تکمیل کی جو حضرت مسیح ناتمام چھوڑ گئے تھے۔ ”تورات و انجیل“ کی جن باتوں کو تم چھپاتے تھے اور بدل سدل کر بیان کرتے تھے ان کی سب ضروری باتیں اس نبی آخر الزمان نے ظاہر فرما دیں۔ اور جن باتوں کی اب چنداں ضرورت نہ تھی ان سے در گذر گیا۔

فائدہ نمبر7: شاید ”نور“ سے خود نبی کریمﷺ اور ”کتاب مبین“ سے قرآن مجید مراد ہے یعنی یہود و نصاریٰ جو وحی الٰہی کی روشنی ضائع کر کے اہواء و آراء کی تاریکیوں اور باہمی خلاف و شقاق کے گڑھوں میں پڑے دھکے کھا رہے ہیں جس سے نکلنے کا بحالت موجودہ قیامت تک امکان نہیں۔ ان سے کہہ دو کہ خدا کی سب سے بڑی روشنی آگئی اگر نجات ابدی کے راستے پر چلنا چاہتے ہو تو اس روشنی میں حق تعالیٰ کی رضا کے پیچھے چل پڑو، سلامتی کی رائیں کھلی پاؤ گے اور اندھیرے سے نکل کر اُجالے میں بے کھٹکے چل سکو گے اور جس کی رضا کے تابع ہو کر چل رہے ہو اسی کی دستگیری سے صراط مستقیم کو بے تکلف طے کر لو گے۔
اللہ تعالیٰ یہودو نصاری کو بھی ہدایت سے نوازیں اور امت مسلمہ کو بھی قرآن مجید اور نبی آخرالزماں ﷺ کی پیروی میں زندگی گزارنے کی توفیق سے نوازیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

موجودہ انجیل میں
رحمۃ للعٰلمینﷺ کی بشارات

جناب عطا محمد جنجوعہ صاحب

اہل مغرب! مسلمان آپ کے خیر خواہ ہیں ہم آپ کو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں۔
جس طرح ہر انسان کا باپ ایک ہی ہے اسی طرح کائنات کا خالق بھی ایک ہی ہے۔ جس طرح کسی فیکٹر ی کارخانہ کے نظم کا اختیار ایک سے زائد ہاتھوں میں ہو تو فیکٹری ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور رہاست کے حتمی فیصلوں کا اختیار ایک سے زیادہ افراد کے پاس ہو تو ریاستی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اس بنا پر ہمارا موقف ہے کہ ئنات کا نظام چلانے والا اکیلا اللہ ہی ہے اُس کا کوئی شریک نہیں۔
اللہ سبحانہ ازل سے ہے ابد تک رہے گا اس کو بقا ہے اور ہر چیز کو فنا ہے۔ اس کی ذات لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ہے اللہ نے نہ کسی سے جنم لیا اور نہ ہی کسی نے اللہ سے جنم لیا۔ ایک طرف آپ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں جبکہ انجیل میں مذکور ہے کہ سیدناعیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہوئی۔
”یسوع نے پھر بڑی آواز سے چلا کر جان دے دی“ (متی 49:27)
سوچنے کا مقام ہے اگر سیدناعیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ذات سے نکلے ہوتے تو اُن پر موت طاری نہ ہوتی آپ کے بقول موت طاری ہوئی توثابت ہوا کہ وہ اللہ کی ذات سے نہیں نکلے۔
اہل مغرب درحقیقت وہ اللہ کے حکم ”کن“ سے پیدا ہوئے جو ”کن“ سے پیدا ہوا ہو اس پر موت یقینی اور فنا لازمی ہے اللّٰہ احد سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کائنات کا نظام چلانے میں یکتا تھا اُن کی پیدائش کے بعد بھی اکیلا ہی چلارہا ہے۔ اللہ کا ساتھ دینے والا اور سہارا بننے والا اور کوئی نہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا بیٹا نہیں بلکہ وہ اللہ سبحانہ کے معصوم نبی ہیں۔
کلمہ طیبہ کا دوسرا جزو مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ہے کائنات کے امام محمد ﷺ دعائے خلیل اور نوید مسیحا ہیں۔ سیدنا ابراہیم و سیدنا اسمٰعیل علیہم السلام نے مکہ مکرمہ میں کعبہ کی از سر نو تعمیر کے وقت دعا کی۔
o
”اے ہمارے رب ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقینا تو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔“

اللہ سبحانہ نے ان کی دُعاکو شرف قبولیت بخشا۔ مکہ مکرمہ میں اُن کی اولاد میں سے حضرت محمدﷺ کومبعوث فرمایا بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت سنائی۔
”اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے (میری قوم) بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جس کا نام احمد ہے“(الصف۔۶)
نبی کریمﷺ نے اس بارے واضع فرمایا:
”میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا مصداق ہوں۔“ (أیسرالتفاسیر)
احمد یہ فاعل سے اگر مبالغہ کا صیغہ ہو تو معنی ہوں گے دوسرے تمام لوگوں سے اللہ کی زیادہ حمد کرنے والا اور اگر یہ مفعول سے ہو تومعنی ہوں گے کہ آپﷺ کی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے جتنی تعریف آپﷺ کے کی گئی اتنی کسی کی بھی نہیں کی گئی۔ (احسن البیان)
تورات و انجیل میں نبی کریمﷺ سے متعلق پیش گوئیاں موجود تھیں یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب شام سے دور دراز کا سفر کر کے کھجوروں والے شہر کی تلاش میں یثرب (مدینہ منورہ) آئے یہودی عالم عبداللہ بن سلام کا اسلام قبول کرنا اسی پیش گوئی کا نتیجہ تھا۔
”حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے اپنے دو چچازاد بھائیوں مسلمہ اور مہاجر سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ تورات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں ایک نبی پیدا کروں گا جس کا نام احمد ہو گا پس جو شخص اس پر ایمان لائے گا تو وہ ہدایت پر ہوگا اور مراد کو پہنچے گا اور جو منکر ہو گا تو اس پر لعنت ہو گی اس بات کو سن کر مسلمہ ایمان لایا اور مہاجر نے انکار کیا اس پر آیت (البقرہ۰۳۱) نازل ہوئی۔ توضیح القرآن۔
مولانا عبدالرشید نے سورۃ الصف کی آیت 6مذکورہ کے حاشیہ میں تحریر کیا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود اسرائیلی تھے اور ان کے مخاطب بھی تمام تر اسرائیلی ہی تھے اس لئے تصریح کے ساتھ صرف تورات کا ہی ذکر مناسب تھا ”انی رسول اللہ الیکم“ اسی چھوٹے فقرہ میں بہت سی گمراہیوں کی تردید آگئی چنانچہ (1) اس کااثبات ہوا کہ آپ کی بعثت بنی اسرائیل کی جانب تھی کل دنیا کی جانب نہ تھی۔ جس سے موجودہ مسیحت کی تردید ہوتی ہے (2)اس کا اثبات ہواکہ آپ حق تعالیٰ کی طرف سے رسول حق ہیں نعوذ باللہ کوئی مفتری نہ تھے اس سے یہود کی تردید ہوتی ہے۔(3)آپ حق تعالیٰ کے ایک ممتاز ترین و مقرب ترین بندہ تھے نعوذ باللہ خود الوہیت کے مدعی کسی معنی میں بھی نہ تھے انجیل،احکام و مسائل شریعت یاقانون الٰہی کی وفعات سے یکسر خالی ہے اسی لئے حضرت مسیح نے فرمایا کہ میرے بعد ایک اور رسول آئے گا۔
انجیل حواری برنباس کی موجود ہے اس میں یہ پیشگوئیاں بہت صاف اور بالکل کھلے لفظوں میں ہیں اور جو چار انجیلیں مسلّم ہیں ان میں سے بھی ایک میں یہ عبارتیں آج تک مل رہی ہیں اس میں انکاریانا ویل کی قطعاً گنجائش نہیں ہے انجیل یوحنا میں تو فارقلیط (Periclutos) والی بشارت اتنی صاف ہے کہ اس کا بے تکلف مطلب سوائے احمد (معنی محمود دستودہ)کے کچھ ہو ہی نہیں سکتا یہ خاتم النبین کا معجزہ ہے کہ حق تعالیٰ ے ان تحریف کرنے والوں کو اتنی قدرت نہیں دی کہ وہ اس آخری نبی کے متعلق پیشنگوئیوں کو بالکل محوکر دیں اور ان کا کچھ نشان ہی باقی نہ رہے۔ (توضیح القرآن)
اللہ تعالیٰ نے خاتم النبین ﷺ اور صحابہ کرام کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا:

”محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں کبھی سجدے میں (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں اُن کی علامتیں سجدہ کے اثر سے اُن کے چہروں پر نمایاں ہیں یہ ہیں اُن کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں اور ان کی مثال انجیل میں ہے۔“ ۔ (الفتح۔29)
ہمارا پختہ یقین ہے کہ نبی کریم ﷺ اور اصحاب رسول کے متعلق پیشن گوئیاں تورات و انجیل میں موجود تھیں جن کو دیکھ کر پادریوں نے بغیر جنگ کے بیت المقدس کی چابی خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے حوالے کر دی۔
تورات اور انجیل کو نازل ہوئے دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا۔ مفاد پرست طبقہ نے ان میں تحریف کی اس کے باوجود مَثَلُہُمْ فِیْ التَّورٰۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ۔ کی تصدیق کے لیے خاتم النبینﷺ کی رسالت کے اشارات اب بھی موجود ہیں۔
”خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور وہ دس ہزار قدسیوں میں سے آیا۔ اس کے داہنے ہاتھ پر اُن کے لئے آتشین شریعت تھی۔ اس کے سب مقدس لوگ تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں میں بیٹھے ایک ایک تیری باتوں سے مستفیض ہو گا“(استثناء: 3-2:33)
کوہ سینا پر اُتری سے مراد تورات اور کوہ شعیرپر آشکار سے مراد انجیل ہے جبکہ کوہ فاران پر جلوہ گر سے مراد قرآن مجید ہے۔ تورات کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کوہ فاران کی غارمیں نبی کریمﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ اور فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمﷺ کے ہمراہ دس ہزار صحابہ کرامؓ تھے۔
عیسائیوں کے نزدیک انجیل مقدس (نیا عہد نامہ) میں شامل متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کو صحیح تصور کیا جاتا ہے۔ اُن میں سے نبی کریمﷺ سے متعلق پیش گوئی کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ ”ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور اُن کو حکم دے کر کہا غیرقوموں کی طرف نہ جانا سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بارشاہی نزدیک آگئی ہے“۔(متی:7-5:10)

آسمان کی بادشاہی سے مراد رب ذوالجلال کی ذات نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی ازل سے ابد تک ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود خبر دے رہے ہیں اس بنا پر اُن کی اپنی ذات بھی نہیں ہو سکتی البتہ یقینا ان سے مراد نبی کریمﷺ ہی ہیں جنہوں نے اسی کی شریعت کو کائنات میں ناخذ کیا اور قیامت تک اسی کی شریعت کے فیصلے عدل و انصاف اور امن و سکون کی ضمانت فراہم کرتے رہیں گے۔
2۔ ”اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لادی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے؟ تو اُس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں“ انہوں نے اُس سے پوچھا پھر کون ہو؟ کیا تو ایلیاہ ہو؟ اُس نے کہا میں نہیں ہوں۔ (انہوں نے پوچھا)کیا تو وہ نبی ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔ پس انہوں نے اُس سے کہا پھر تو ہے کون؟ تاکہ ہم بھیجنے والوں کو جواب دیں۔ تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے؟ اُس نے کہا میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا ہے ”بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو“، یہ فریسیوں کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے نہ ایلیاہ نہ وہ نبی تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے؟ یوحنا نے جواب میں اُن سے کہا کہ میں پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں تمہارے درمیان ایک شخص کھڑا ہے جسے تم نہیں جانتے۔ یعنی میرے بعد کا آنے والا جس کی جوتی کا تسمہ میں کھولنے کے لائق نہیں۔(یوحنا باب28-19:1)
یہودی قاصدوں کے پوچھنے پر یوحنا (یحییٰ علیہ السلام) نے کہا میں ایلیاہ ہوں نہ میں مسیح اور نہ وہ نبی بلکہ جو میرے بعد (نبی) آنے والا ہے جس کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے لائق بھی نہیں۔
اس سے مراد یقینا نبی کریمﷺ ہیں۔ وہ کون ہے؟ ”وہ نبی“ کا ترجمہ فارسی میں آنحضرت بنتا ہے۔ جب ہم آنحضرت کہتے ہیں تو اس سے نبی کریمﷺ کا تصور فورا ًذہن میں آجاتا ہے۔
3۔ اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اُس کا کچھ نہیں“۔(یوحنا30:14)
4۔ لیکن جب وہ مدد گار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کا روح“ (یوحنا26:15)
5۔ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مدد گار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی سچائی کا روح۔ (یوحنا16:14)
6۔ ”لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا وہ میرا جلال ظاہر کرے گا۔“(یوحنا:14-13:16)
سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے بعد فارقلیط آنے کی بشارت وی جس کے معنی محمد، محمود ہیں لیکن موجودہ دور کی اناجیل میں ”سچائی کا روح“، سچائی کی راہ“، مددگار اور سردار لکھا ہوا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس پیشن گوئی کا مصداق کون ہو سکتا ہے؟ روح القدس اس لیے نہیں کیونکہ وہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام سے قبل بھی انبیاء کرام کے پاس وحی لے کر تشریف لاتے رہے چنانچہ اُن کے بارے بشارت دینے کا کیا مقصد؟ بلاشبہ حضرت مسیح علیہ السلام نے قیامت کے قریب آسمان سے نزول فرمانا ہے لیکن یہ شہادت اُن کے اپنے بارے اس لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ فرمارہے ہیں
”اور میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا۔“(یوحنا16:14)
نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے انجیل کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
سچائی کا روح
نبی کریمﷺ نے لڑکپن، نوجوانی کی زندگی مکہ معظمہ میں گزاری آپ کی زبان اطہر سے جھوٹ نہیں نکلا قریش مکہ آپ کو صادق و امین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
”سچائی کی راہ دکھائے گا“: اللہ کی آخری الہامی کتاب قرآن مجید گواہی دے رہی ہے۔
(اے پیارے حبیب) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تم لوگوں کو وہ سیدھا راستہ دکھارہے ہو۔ جو اللہ کا راستہ ہے وہ اللہ جس کی ملکیت میں وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ جو زمین میں ہے۔ (الشورٰی53-52)
سرورکائنات محمدﷺ پتھر کھا کر لہو لہان ہو گئے غزوہ احد میں دندان مبارک شہید ہو گیئے تاہم زبان اقدس سے دوسروں کو سچائی کی راہ پر گامزن کرنے کی نصیحت کرتے رہے۔
”وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا“: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مطلقاً فرما دیا کہ میرا حبیب محمدﷺ اپنی مرضی سے نہیں بولتے۔
اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔ یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ (النجم:4-3)

مددگار: نبی کریمﷺ ضعیف العمر مردوں عورتوں کے مددگار بن کر بوجھ خود اٹھا لیتے انہیں منزل مقصود تک پہنچا آتے۔ کوئی سائل آپﷺ کے دروازہ سے خالی نہ گیا۔
”آئندہ کی خبریں دے گا“ نبی کریمﷺ نے جنت،دوزخ اور قیامت کی خبروں سے آگاہ فرمایا، روز محشر کے حساب و کتاب سے مطلع فرمایا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد آنے والا میرا جلال ظاہر کرے گا۔“
مخبر صادق نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے قریب حضرت مسیح دمشق کی مسجد کے مشرقی مینارپر نزول فرمائیں گے۔ اور جلال میں آکر دجال کو قتل کریں گے۔
انجیل میں مذکور ہے کہ ”ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا۔“
سیدنا مسیح علیہ السلام کی یہ پیشن گوئی بھی پوری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو رحمۃ للعلمین اور خاتم النبین کے القاب سے سرفرازفرمایا
اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ۔(انبیاء 107)
محمد(ﷺ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اورا للہ ہر چیز سے بخوبی واقف ہے۔ (الاحزاب:40)سرور کائناتﷺ پر نازل شدہ دین۔جامع،عام فہم اور ہر قسم کے ردوبدل سے محفوظ ہے اللہ کے مذکررہ آیتوں میں لطیف نکتہ بیان کیا ہے کہ قیامت تک کے لیے وحی کی جتنی ضرورت تھی اس کا بیان ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کر دیا۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے سورۃ الصف آیت کے حاشیہ میں وضاحت فرمائی۔
احمد حضور اقدسﷺ کا نام ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسی نام سے آپ کی بشارت دی تھی اس قسم کی ایک بشارت آج بھی انجیل یوحنا میں تحریف شدہ حالت ہے موجود میں انجیل یوحنا کی عبارت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا
”اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔“(یوحنا 16:14)
یہاں جس لفظ کا ترجمہ مدد گار لیا گیا ہے وہ اصل یونانی میں ”فارقلیط“(Periclytos) تھا جس کے معنی ہیں قابل تعریف شخص اور یہ احمد کا لفظی ترجمہ ہے۔ لیکن اس لفظ کو (Paracletus) سے بدل دیا گیا ہے جس کا ترجمہ مددگار اور بعض تراجم میں وکیل یا شفیع کیا گیا ہے اگر ”فارقلیط“ کا لفظ مدنظر رکھا جائے تو صحیح ترجمہ یہ ہو گا۔
”وہ تمہارے پاس اس قابل تعریف شخص (احمد) کو بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا۔“
اس میں واضح فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر آخر زماں ﷺ کسی خاص علاقے یا کسی خاص زمانے کے لیے نہیں ہوں گے بلکہ آپ کی نبوت قیامت تک آنے والے ہر زمانہ کے لیے ہو گی۔
(آسان ترجمہ قرآن،ص1986)
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام قابل احترام ہیں اُن کی نبوت کی تصدیق کرنا ایمان کا جزو ہے تاہم ان کی نبوت مخصوص قوم اور علاقہ تک محدود تھی، لیکن خاتم النبین محمدﷺ کی رسالت قیامت تک سرخ و سفید عربی و عجمی سب انسانوں کے لیے ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
”ہم نے آپ کو تمام انسانیت کے لئے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ۔(سبا:28)
اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر نبی مکرمﷺ کو ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجئے کہ ائے لوگومیں تم سب کے لیے اللہ کا رسول ہوں“۔ (الاعراف:158)
صاف ظاہر ہے کہ آپﷺ اہل عرب کی طرف نہیں مشرق و مغرب کی پوری انسانیت کی طرف مبعوث ہوئے۔ رحمۃ للعلمینﷺ پر نازل ہونے والے ضابطے بھی قیامت تک معاشرہ میں امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں اسلامی حدود و قیود کا تعین حکیمانہ ہے جن پر عمل کرنے سے شہریوں کی عزت اورجان و مال کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
خالق کائنات نے عورت کی فطری خوبیوں و خامیوں کو مدنظر رکھ کر ذمہ داریوں کا تعین کیا ہے۔ جن پر عمل کرنے سے خاندانی ماحول پر سکون رہتاہے۔
سود قوموں کی تباہی کا موجب ہے اللہ تعالیٰ نے اس لئے حرام ٹھرایا ہے چونکہ تجارت میں برکت ہے اس کو حلال ٹھہرایا ہے۔
جس طرح رحمت کائنات محمدﷺ کی ذات جامع واعلیٰ صفات سے لبریز ہے اسی طرح آپ پر نازل شدہ ضابطے بھی قیامت تک انسانیت کی فلاح اور معاشرہ میں امن و سلامتی کا سرچشمہ ہیں۔ چنانچہ انجیل میں حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی بشارت کے مصداق محمدﷺ ہیں۔
اہل مغرب! آپ پادریوں سے تحقیق کریں کہ فارقلیط لفظ کی بجائے آسمان کی بادشاہی، وہ نبی، روح حق، مددگار اور سچائی کی راہ دکھانے والے فقرہ کا مصداق کون ہے؟ اور یوحنا حواری کے مطابق حضرت مسیح علیہ اسلام نے جس شخصیت کے آنے کی خبر دی ہے وہ محمد ﷺ اگر نہیں ہیں تو پھر کون ہے؟ آپ حق کے متلاشی بن کر تحقیق کریں، یقینا اللہ تعالیٰ آپ کا سینہ ہدایت کے نور سے منور کر دے گا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

موجودہ دور میں یہودی ریاست کا قیام
اور اُس کی مسلم دُشمن کاروائیاں

محترم سید ابوالاعلیٰ مودودی

فصل:1

یہودی ریاست کے قیام کا پس منظر

یہودی عزائم کی تاریخ
بیت المقدس اور فلسطین کے متعلق آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح میں بنی اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے تھے اور دو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخر اس پر قابض ہو گئے تھے۔ وہ اس سر زمین کے اصل باشندے نہیں تھے۔ قدیم باشندے دوسرے لوگ تھے جن کے قبائل اور اقوام کے نام خود بائیبل میں تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئی ہیں اور بائیبل ہی کی تصریحات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے ان قوموں کا قتل عام کر کے اس سر زمین پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح فرنگیوں نے سُرخ ہندیوں (RED INDIANS)کو فنا کر کے امریکہ پر قبضہ کیا۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کی میراث میں دے دیا ہے، اس لیے انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس کے اصل باشندوں کو بے دخل کر کے بلکہ ان کی نسل کو مٹا کر اس پر قابض ہو جائیں۔
اس کے بعد آٹھویں صدی قبل مسیح میں اسیریانے شمالی فلطین پر قبضہ کر کے اسرائیلیوں کا بالکل قلع قمع کر دیا او ران کی جگہ دوسری قوموں کو لابسایا جو زیادہ تر عربی النسل تھیں۔ پھر چھٹی صدی قبل میسح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کر کے تمام یہودیوں کو جلاوطن کر دیا۔ بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہیکل سلیمانی (TEMPLE OF SOLOMON) کو جسے دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کرایا تھا، اس طرح پیوند خاک کر دیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ قائم نہ رہی۔ ایک طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد ایرانیوں کے دور حکومت میں یہودیوں کو بھی پھرسے جنوبی فلسطین میں آکر آباد ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی۔ لیکن یہ دوسرا وقفہ بھی تین چار سو برس سے زیادہ دراز نہ ہوا۔ 70ء میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی جس کی پاداش میں بیت المقدس کے شہر اور ہیکل سلیمانی کو بالکل مسمار کر دیاگیا، اور پھر ایک دوسری بغاوت کو کچل کر 135ء میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کو نکال باہر کیا۔ اس دوسرے اخراج کے بعد جنوبی فلسطین میں بھی اُسی طرح عربی النسل قبائل آباد ہو گئے جس طرح شمالی فلسطین میں وہ آٹھ سو برس پہلے آباد ہوئے تھے۔ اسلام کی آمد سے پہلے یہ پورا علاقہ عربی قوموں سے آباد تھا۔ بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک رومیوں نے ممنوع کر رکھا تھا اور فلسطین میں بھی یہودی آبادی قریب قریب بالکل ناپید تھی۔
اس تاریخ سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ:
1۔ یہودی ابتدامیں نسل کشی (GENOCIDE)کے مرتکب ہو کر فلسطین پر زبردستی قابض ہوئے تھے۔
2۔ شمالی فلسطین میں صرف چار پانچ سو برس تک آباد رہے۔
3۔ جنوبی فلسطین میں ان کے قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ آٹھ نوسوبرس رہی۔
4۔ اور عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے جنوبی فلسطین میں تقریباً دو ہزار سال سے آباد چلے آ رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہودیوں کا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے جوخدا نے اُنہیں عطا فرمائی ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس میراث کو بزور حاصل کر کے اس علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ بس جائیں جس طرح سو برس قبل مسیح میں انہوں نے کیا تھا۔
دو ہزار برس سے دنیا بھر کے یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں کہ بیت المقدس پھر ہمارے ہاتھ آئے اور ہم ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کریں۔ ہر یہودی گھر میں مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کا پورا ڈرامہ کھیلا جاتا رہا ہے کہ ہم مصر سے کس طرح نکلے اور فلسطین میں کس طرح سے آباد ہوئے اور کیسے بابل والے ہم کو لے گئے اور ہم کس طرح سے فلسطین سے نکالے گئے اور تتر بتر ہوئے۔ اس طرح یہودیوں کے بچے بچے کے دماغ میں یہ بات 20صدیوں سے بٹھائی جارہی ہے کہ فلسطین تمہارا ہے اور تمہیں واپس ملنا ہے اور تمہارا مقصد زندگی یہ ہے کہ تم بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کرو۔ بارھویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (MAIMONIDES) نے اپنی کتاب قانونِ یہود (THE CODE OF JEWISH LAW) میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو از سرنو تعمیر کرے۔ مشہور فری میسن تحریک (FREE MASON MOVEMENT) بھی جس کے متعلق ہمارے ملک کے اخبارات میں قریب قریب سارے ہی حقائق اب شائع ہو چکے ہیں، اصلاً ایک یہودی تحریک ہے اور اس میں بھی ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کو مقصود قرار دیا گیا ہے بلکہ پوری فری میسن تحریک کا مرکزی تصور یہی ہے اور تمام فری میسن لاجوں میں اس کا باقاعدہ ڈراما ہوتا ہے کہ کس طرح سے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کرنا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ صدیوں سے یہودی قوم کی زندگی کا نصب العین یہی رہا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرے۔ اور اب بیت المقدس پر ان کا قبضہ ہو جانے کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے اس نصب العین کو پورا کرنے سے بازرہ جائیں۔
یہودیوں کی احسان فراموشی
آگے بڑھنے سے پہلے میں ایک بات کی اور وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہیکل سلیمانی کے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اسے 70ء میں بالکل مسمار کر دیا گیا تھا اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب بیت المقدس فتح ہوا اس وقت یہاں یہودیوں کا کوئی معبدنہ تھا بلکہ کھنڈر پڑے ہوئے تھے۔ اس لیے مسجد اقصیٰ اور قبہ صخرہ کی تعمیر کے بارے میں کوئی یہودی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ ان کے کسی معبد کو توڑ کر مسلمانوں نے یہ مساجد بنائی تھیں۔ یہ بات بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ رومیوں کے زمانے میں فلسطین یہودیوں سے خالی کرالیا گیا تھا اور بیت المقدس میں تو ان کا داخلہ بھی ممنوع تھا۔ یہ مسلمانوں کی شرافت تھی کہ اُنہوں نے پھر انہیں وہاں رہنے اور بسنے کی اجازت دی۔ تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ پچھلی تیرہ چودہ صدیوں میں یہودیوں کو اگر کہیں امن نصیب ہوا ہے تو وہ صرف مسلمان ملک تھے، ورنہ دنیا کے ہر حصے میں جہاں بھی عیسائیوں کی حکومت رہی وہاں وہ ظلم و ستم کا نشانہ ہی بنتے رہے۔ یہودیوں کے اپنے مورخین اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی تاریخ کاسب سے زیادہ شاندار دور وہ تھا جب وہ اندلس میں مسلمانوں کی رعایاکی حیثیت سے آباد تھے۔ یہ دیوار گریہ جس کو آج یہودی اپنی سب سے بڑی مقدس یاد گار سمجھتے ہیں، یہ بھی مسلمانوں ہی کی عنایت سے انہیں ملی تھی۔ بمبئی سے اسرائیلی حکومت کا ایک سرکاری بلیٹن NEWS FROM ISRAEL شائع ہوتا ہے۔ اس کی یکم جولائی 1967کی اشاعت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ دیوار گریہ پہلے ملبے اور کوڑے کرکٹ میں دبی ہوئی تھی اور اس کا کوئی نشان تک لوگوں کو معلوم نہ تھا۔ سولہویں صدی عیسوی میں سلطان سلیم عثمانی کو اتفاقاً اس کے وجود کا علم ہوا اور اس نے اس جگہ کو صاف کرا کے یہودیوں کو اس کی زیارت عطا کی۔ لیکن یہودی ایک ایسی احسان فراموش قوم ہے کہ وہ مسلمانوں کی شرافت اور فیاضی اور حسن سلوک کا بدلہ آج اس شکل میں ان کو دے رہی ہے۔
یہودیوں کی منصوبہ بندی
اب میں مختصر طور پر آپ کو بتاؤں گا کہ ان ظالموں نے کس طرح باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ سب سے پہلے ان کے ہاں ایک تحریک شروع ہوئی کہ مختلف علاقوں سے یہودی ہجرت کر کے فلسطین میں جا کر آباد ہوں اور وہاں زمینیں خریدنی شروع کریں۔ چنانچہ1880ء سے اس مہاجرت کا سلسلہ شروع ہوا اورزیادہ تر مشرقی یورپ سے یہودی خاندان وہاں منتقل ہونے لگے۔ اس کے بعد مشہور یہودی لیڈر تھیوڈور ہر تزل (HARTZL) نے1897ء میں صہیونی تحریک(ZIONIST MOVEMENT) کا باقاعدہ آغاز کیا اور اس میں اس بات کو مقصود قرار دیا گیا کہ فلسطین پردوبارہ قبضہ حاصل کیا جائے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔ یہودی سرمایہ داروں نے اس غرض کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی کہ فلطین منتقل ہونے والے یہودی خاندان وہاں زمینیں خریدیں اور منظم طریقے سے اپنی بستیاں بسائیں۔ پھر 1901ء میں ہر تزل نے سلطان عبدالحمید خاں (سلطان ترکی) کو باقاعدہ یہ پیغام بھجوایا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں، آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں۔ مگر سلطان عبدالحمید خاں نے اس پیغام پر تھوک دیا اور صاف کہہ دیا کہ ”جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک ترکی سلطنت موجود ہے اس وقت تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ فلسطین یہودیوں کے حوالے کیا جائے۔ تمہاری ساری دولت پر میں تھوکتا ہوں“۔ جس شخص کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا گیا تھا اس کا نام حاخام قرہ صوآفندی تھا۔ یہ سولونیکا کا یہودی باشندہ تھا اور ان یہودی خاندانوں میں سے تھا جو اسپین سے نکالے جانے کے بعد ترکی میں آباد ہوئے تھے۔ ترکی رعایا ہونے کے باوجود اس نے یہ جرأت کی کہ سلطان ترکی کے دربار میں پہنچ کر فلسطین کو یہودیوں کے حوالہ کرنے کا مطالبہ پیش کردے۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ سلطان عبدالحمید خاں کا جواب سُن کر ہر تزل کی طرف سے ان کو صاف صاف یہ دھمکی دے دی گئی کہ تم اس کا برُا نتیجہ دیکھو گے۔ چنانچہ اس کے بعد فوراً ہی سلطان عبدالحمید کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازشیں شروع ہو گئیں جن میں فری میسن، دونمہ،۱؎ اور وہ مسلمان نوجوان شریک تھے جو مغربی تعلیم کے زیر اثر آکرترکی قوم پرستی کے علمبردار بن گئے تھے۔ ان لوگوں
_________________________________________________

٭٭٭۱؎ یہ وہ یہودی تھے جنہوں نے ریاکارانہ اسلام قبول کر رکھا تھا۔ ترک ان کو دونمہ کہتے ہیں۔

_________________________________________________

نے ترکی فوج میں اپنے اثرات پھیلائے اور سات سال کے اندران کی سازشیں پختہ ہو کر اس منزل پر پہنچ گئیں کہ سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیں۔ اس موقع پر جو انتہائی عبرتناک واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ 1908ء میں جو تین آدمی سلطان کی معزولی کا پروانہ لے کر اُن کے پاس گئے تھے ان میں دو ترک تھے اور تیسرا وہی حاخام قرہ صوآفندی تھا جس کے ہاتھ ہر تزل نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ سلطان کے پاس بھیجا تھا۔ مسلمانوں کی بے غیرتی کا اس سے اندازہ کیجیے کہ اپنے سلطان کی معزولی کا پروانہ بھیجتے بھی ہیں توایک ایسے یہودی کے ہاتھ جو سات ہی برس پہلے اس سلطان کے پاس فلسطین کی حوالگی کا مطالبہ لے کر گیا تھا اور اس سے سخت جواب سُن کر آیا تھا۔ ذرا تصور کیجیے کہ سلطان کے دل پر کیا گزری ہو گی جب وہی یہودی ان کی معزولی کا پروانہ لیے ہوئے ان کے سامنے کھڑا تھا۔

فصل:2

بین الاقوامی صورت حال
ترکی اور عربی قوم پرستی کا تصادم

اسی زمانے میں ایک دوسری سازش بھی زور شور سے چل رہی تھی جس کا مقصد ترکی سلطنت کے ٹکڑے اڑانا تھا اور اس سازش میں بھی مغربی سیاست کاروں کے ساتھ ساتھ یہودی دماغ ابتداء سے کارفرما رہا۔ ایک طرف ترکوں میں یہ تحریک اٹھائی گئی کہ وہ سلطنت کی بنا اسلامی اخوت کے بجائے ترکی قوم پرستی پر رکھیں، حالانکہ ترکی سلطنت میں صرف ترک ہی آباد نہیں تھے بلکہ عرب اور کرد اور دوسری نسلوں کے مسلمان بھی تھے۔ ایسی سلطنت کو صرف ترکی قوم کی سلطنت قرار دینے کے صاف معنی یہ تھے کہ تمام غیر ترک مسلمانوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ختم ہو جائیں۔ دوسری طرف عربوں کو عربی قومیت کا سبق پڑھایا گیا اور ان کے دماغ میں یہ بات بٹھائی گئی کہ وہ ترکوں کی غلامی سے آزاد ہونے کی جدوجہد کریں۔ عربوں میں اس عرب قوم پرستی کا فتنہ اُٹھانے والے عیسائی عرب تھے، بیروت اس کا مرکز تھا، اور بیروت کی امریکن یونیورسٹی اس کو فروغ دینے کا ذریعہ بنی ہوئی تھی۔ اس طرح ترکوں اور عربوں میں بیک وقت دو متضاد قسم کی قوم پرستیاں اُبھاری گئیں اور ان کو یہاں تک بھڑکایا گیا کہ 1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی تو ترک اور عرب ایک دوسرے کے رفیق ہونے کے بجائے دشمن اور خون کے پیاسے بن کر آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔
جنگ عظیم اوّل اور اعلان بالفور
پہلی جنگ عظیم میں ابتداء یہودیوں نے حکومت جرمنی سے معاملہ کرنا چاہا تھا، کیونکہ جرمنی میں اس وقت یہودیوں کا اتنا ہی زور تھا جتنا آج امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے قیصر ولیم سے یہ وعدہ لینے کی کوشش کی کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنوادے گا۔ لیکن جس وجہ سے یہودی اس پر یہ اعتماد نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ایسا کرے گا وہ یہ تھی کہ ترکی حکومت اس وقت جنگ میں جرمنی کی حلیف تھی۔ یہودیوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ قیصر ولیم ہم سے یہ وعدہ پورا کر سکے گا۔ اس موقع پر ڈاکٹر وائزمین آگے بڑھا اور اس نے انگلستان کی حکومت کو یہ یقین دلایا کہ جنگ میں تمام دنیا کے یہودیوں کا سرمایہ اور تمام دنیا کے یہودیوں کا دماغ اور ان کی ساری قوت و قابلیت انگلستان اور فرانس کے ساتھ آسکتی ہے اگر آپ ہم کو یہ یقین دلادیں کہ آپ فتح یاب ہو کر فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنادیں گے۔ ڈاکٹر وائزمین ہی اس وقت یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علمبردار تھا۔ آخر کار اس نے 1917ء میں انگریزی حکومت سے وہ مشہور پروانہ حاصل کیا جواعلان بالفور کے نام سے مشہور ہے۔ یہ انگریزوں کی بددیانتی کا شاہکار ہے کہ ایک طرف وہ عربوں کویقین دلا رہے تھے کہ ہم عربوں کی ایک خود مختار ریاست بنائیں گے اور اس غرض کے لیے انہوں نے شریف حسین کو تحریری وعدہ دے دیا تھا اور اسی وعدے کی بنیاد پر عربوں نے ترکوں سے بغاوت کر کے فلسطین اور عراق اور شام پر انگلستان کا قبضہ کرادیا تھا۔ دوسری طرف وہی انگریز یہودیوں کو باقاعدہ یہ تحریر دے رہے تھے کہ ہم فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنائیں گے۔ یہ اتنی بڑی بے ایمانی تھی کہ جب تک انگریزی قوم دنیا میں موجود ہے وہ اپنی تاریخ پر سے اس کلنک کے ٹیکے کو نہ مٹاسکے گی۔ پھر ذراغور کیجیے کہ فلسطین کو یہود کا قومی وطن بنانے کے آخر معنی کیا تھے؟ کیا فلسطین کوئی خالی پڑی ہوئی زمین تھی جس پر کسی قوم کو آباد کر دینے کا وعدہ کیا جا رہا تھا؟ وہاں دوڈھائی ہزار برس سے ایک قوم آباد چلی آرہی تھی۔ اعلان بالفور کے وقت وہاں یہودیوں کی آبادی پوری5فیصد بھی نہ تھی۔ ایسے ملک کے متعلق سلطنت برطانیہ کا وزیر خارجہ یہ تحریری وعدہ دے رہا تھا کہ ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن بنایا جائے گا جو دنیا بھر میں 19سو برس سے بکھری ہوئی تھی۔ اس کا صاف مطلب گویا یہ وعدہ کرنا تھا کہ ہم تمہیں موقع دیں گے کہ عربوں کے جس وطن پر ہم نے خود عربوں کی مدد سے قبضہ کیا ہے اس سے تم انہی عربوں کو نکال باہر کرو اور ان کی جگہ دنیا کے گوشے گوشے سے اپنے افراد کو لا کر بسادو۔ یہ ایک ایسا ظلم تھا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس زخم پر نمک پاشی یہ ہے کہ لارڈبالفور نے اپنے اس خط کے متعلق اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے تھے:
”ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صیہونیت ہمارے لیے اُن سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اُس قدیم سرزمین میں اس وقت آباد ہیں۔“
بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ آج بھی برطانوی پالیسی کی دستاویزت (DOCUMENT OF BRITISH POLICY) کی کی جلد سوم میں ثبت ہیں۔

مجلس اقوام کی کارگزاری

فلسطین پر انگریزوں کے قبضے اور لارڈ بالفور کے اعلان سے یہودیوں کے طویل المیعاد منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔1880ء سے شروع ہوکر1917ء تک اس مرحلے کی تکمیل میں 37سال صرف ہوئے۔ اس کے بعد منصوبے کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں مجلس اقوام (LEAGUE OF NATION)اور اس کی اصل کارفرمادو بڑی طاقتوں، برطانیہ اور فرانس نے بالکل اس طرح کام کیا گویا وہ آزاد سلطنتیں نہیں ہیں بلکہ محض صہیونی تحریک کی ایجنٹ ہیں۔1922ء میں مجلس اقوام نے فیصلہ کیا کہ فسلطین کو انگریزوں کے انتداب۱؎ (MONDATE) میں دے دیا جائے۔اس موقع پر فلسطین میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اس میں میں مسلمان عرب660641، عیسائی عرب71464، اور یہودی 82790تھے اور یہودیوں کی اتنی آبادی بھی اس وجہ سے تھی کہ وہ دھڑا دھڑوہاں جاکر آباد ہورہے تھے۔۲؎ اس پر بھی مجلس اقوام نے برطانیہ کو انتداب کا پروانہ دیتے ہوئے پوری بے شرمی کے ساتھ یہ ہدایت کی کہ اس کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کرے، صہیونی تنظیم کو سرکاری طور پر باقاعدہ تسلیم کرکے اسے نظم ونسق میں شریک کرے اور اس کے مشورے اور تعاون سے یہودی قومی وطن کی تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔اس کے ساتھ وہاں کے قدیم اور اصل باشندوں کے لیے صرف اتنی ہدایت پر اکتفا کیا گیا کہ ان کے مذہبی اور مدنی(CIVIL)حقوق کا تحفظ کیا جائے، سیاسی حقوق کا اس میں سرے سے کوئی ذکرنہ تھا۔ یہ تھا اس مجلس اقوام کا انصاف جسے دنیا میں امن قائم کرنے کا نام لے کر وجود میں لایا گیا تھا۔ اس نے یہودیوں کو باہر سے لاکر بسائے جانے والوں کو تو سیاسی اقتدار میں شریک کردیا، اور ملک کے اصل باشندوں کو اس کا مستحق بھی نہ سمجھا کہ ان کے سیاسی حقوق کا برائے نام
_________________________________________________
٭٭٭۱۱؎ انتداب کا مطلب ہے کہ ایک حکومت بطور خود کسی ملک کی فرمانروائی نہیں کر رہی ہے بلکہ مجلس اقوام کی طرف سے اس کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ وہ وہاں خاص شرائط کے تحت فرمانروائی کرے۔
۲؎ 1917ء میں یہودی آبادی صرف56ہزار تھی۔ پانچ سال کے اندروہ بڑھ کر 83 ہزار کے قریب پہنچ گئی۔
بھی تذکرہ کردیا جاتا۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس وقت دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں اور مجلس اقوام میں یہودیوں نے کتنے اثرات پیدا کرلیے تھے جن کی بدولت فلسطین کو انگریزوں کے انتداب میں دیتے ہوئے یہ ہدایت جاری کی گئی تھیں۔

_________________________________________________

انگریزی انتداب کا کارنامہ
یہ انتداب حاصل کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں لاکر بسانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کردیا گیا۔ فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سرہربرٹ سیمویل خود ایک یہودی تھا۔ صہیونی تنظیم کو عملاً حکومت کے نظم ونسق میں شریک کیا گیا اور اس کے سپرد نہ صرف تعلیم اور زراعت کے محکمے کیے گئے بلکہ بیرونی ممالک سے لوگوں کے داخلے، سفر اور قومیت کے معاملات بھی اس کے حوالے کردیے گئے۔ ایسے قوانین بنائے گئے جن کے ذریعہ سے باہر کے یہودیوں کو فلسطین میں آکر زمینیں حاصل کرنے کی پوری سہولتیں دی گئیں۔ مزید برآں ان کو زمینیں کاشت کرنے کے لیے قرضوں اور تقاوی اور دوسری سہولتوں سے بھی نوازا گیا۔ عربوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے اور ٹیکسوں کے بقایا پر ہر بہانے عدالتوں نے زمینیں ضبط کرنے کی ڈگریاں دینی شروع کر دیں۔ ضبط شدہ زمینیں یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی گئیں اور سرکاری زمینوں کے بھی بڑے بڑے رقبے یہودی نو آبادکاروں کو کہیں مفت اور کہیں برائے نام پٹے پر دے دیے گئے۔ بعض مقامات پر کسی نہ کسی بہانے پورے پورے گاؤں صاف کردیے گئے اور وہاں یہودی بستیاں بسائی گئیں۔ ایک علاقے میں تو8ہزار عرب کاشتکاروں اور زراعتی کارکنوں کو50ہزار ایکڑ زمین سے حکماً بے دخل کردیا گیا اور ان کوفی کس 3پونڈ دس شلنگ دے کر چلتا کردیا گیا۔ ان تدبیروں سے 17سال کے اندر یہودی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ 1922ء میں وہ 82ہزار سے کچھ زائد تھے۔1939ء میں ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انگریز فلسطین میں صرف صہیونیت کی خدمت سرانجام دیتے رہے اور ان کے ضمیر نے ایک دن بھی ان کو یہ احساس نہ دلایا کہ کسی ملک کی حکومت پر اس کے اصل باشندوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہداشت کرنا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
جنگ عظیم دوم کے زمانے میں معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا۔ ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشا فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صہیونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ملک کے اندر گھسانا شروع کیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں جھنوں نے ہر طرف ماردھاڑ کرکے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حدکردی۔ انگریزی انتداب کی ناک کے نیچے یہودیوں کو ہر طرح کے ہتھیار پہنچ رہے تھے اور وہ عربوں پر چھاپے ماررہے تھے مگر قانون صرف عربوں کے لیے تھا جو انہیں ہتھیار رکھنے اور ظلم کے جواب میں مدافعت کرنے سے روک رہا تھا۔ البتہ برطانوی حکومت جان بچا کر بھاگنے والے عربوں کو نقل مکانی کی سہولتیں فراہم کرنے میں بڑی فراخ دل تھی۔ اس طرح1917ء؁ سے1947؁ء تک30سال کے اندر یہودی منصوبے کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا جس میں وہ اس قابل ہوگئے کہ فلسطین کو یہودیوں کا ”قومی وطن“ بنانے کے بجائے ان کی”قومی ریاست“ قائم کردیں۔ف

فصل3

یہودیوں کا آئندہ لائحہ عمل

”قومی وطن“ سے”قومی ریاست“ تک:

1947ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کردیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مجلس اقوام(لیگ آف نیشنز) نے صہیونیت کی جو خدمت ہمارے سپرد کی تھی وہ ہم انجام دے چکے ہیں۔ اب آگے کا کام اس آنجہانی مجلس کی نئی جانشین اقوام متحدہ انجام دے۔ اب ملاحظہ کیجیے کہ یہ دوسری مجلس جو دنیا میں امن و انصاف کے قیام کی علمبردار بن کر اٹھی تھی، اس نے فلسطین میں کیا انصاف قائم کیا۔
نومبر1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا۔ یہ فیصلہ ہوا کس طرح؟ اس کے حق میں 33ووٹ اور اس کے خلاف 13ووٹ تھے۔ دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔ یہ کم سے کم اکثریت تھی جس سے جنرل اسمبلی میں کوئی ریزولیوشن پاس ہوسکتا تھا۔ چند روز پہلے تک اس تجویز کے حق میں اتنی اکثریت بھی نہ تھی۔ صرف30ملک اس کے حق میں تھے۔آخر کا رامریکہ نے غیر معمولی دباؤ ڈال کر ہائیٹی، فلپائن اور لائبیریا کو مجبور کرکے اس کی تائید کرائی۔ یہ بات خود امریکن کانگریس کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ تین ووٹ زبردستی حاصل کیے گئے تھے، اور جیمزفوریسٹائل (FORRESTAL)اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ”اس معاملہ میں دوسری قوموں پر دباؤ ڈالنے اور ان کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے وہ شرمناک کارروائی(SCANDAL)۔ کی حد تک پہنچے ہوئے تھے۔“
تقسیم کی جو تجویزان ہتھکنڈوں سے پاس کرائی گئی اس کی روسے فلسطین کا 55فی صد رقبہ،33فی صد یہودی آبادی کو،اور45فی صد رقبہ67فی صد عرب آبادی کودیا گیا۔ حالانکہ اس وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف 6فی صد یہودیوں کے قبضے میں آیاتھا۔ یہ تھا اقوام متحدہ کا انصاف:
لیکن یہودی اس بندر بانٹ سے بھی راضی نہ ہوئے اور انھوں نے ماردھاڑ کرکے عربوں کو نکالنا اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ اس سلسلے میں جو مظالم عربوں پر کیے گئے، آرنلڈ ٹائن بی ان کے متعلق اپنی کتاب(A STUDY OF HISTORY)میں کہتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے۔ دیر یاسین میں 9اپریل1948ء کے قتل عام کا خاص طور پر اس نے ذکر کیا ہے جس میں عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتاراگیا، عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس سڑکوں پر نکالا گیا اور یہودی موٹروں پر لاؤڈسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھرے کہ”ہم نے دیریا سین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتو یہا ں سے نکل جاؤ۔“ ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ کیا یہ کسی ایسی قوم کاکارنامہ ہوسکتا ہے جس میں رمق برابر بھی شرافت وانسانیت موجود ہو؟
ان حالات کے دوران میں 14مئی1948ء کو عین اس وقت جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلے پر بحث کررہی تھی، یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیا، اور سب سے پہلے امریکہ اور روس نے آگے بڑھ کر اس کو تسلیم کیا، حالانکہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔ اس اعلان کے وقت تک6لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جاچکے تھے، اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یروشلم (بیت المقدس) کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کرچکا تھا۔
ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونے کے بعد گردوپیش کی عرب ریاستوں نے بے سہارا عرب آبادی کو ماردھاڑ اور لوٹ مار سے بچانے کے لیے مداخلت کی اور ان کی فوجیں فلسطین میں داخل ہوگئیں لیکن یہودی اس وقت تک اتنے طاقت ور ہوچکے تھے کہ یہ سب ریاستیں مل کر بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ بلکہ جب نومبر1948ء میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا اس وقت فلسطین کے رقبے کا 77فیصدی سے بھی کچھ زیادہ حصہ یہودیوں کے قبضے میں جاچکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہودیوں کو اتنی جنگی طاقت کس نے فراہم کرکے دی تھی کہ پانچ عرب ریاستوں کی متحدہ طاقت بھی ان کا مقابلہ نہ کرسکی؟ اس طاقت کے فراہم کرنے میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکی نظام دونوں شریک تھے، اور سب سے زیادہ ہتھیار اس جنگ کے لیے چیکوسلواد کیا سے آئے تھے جو آج خود ظلم وستم کاشکار ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی جوبحثیں اس زمانے میں ہوئیں ان کا ریکارڈ شاہد ہے کہ یہودیوں کی حمایت اور عربوں کی مخالفت میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور اشترا کی نظام، دونوں کے علمبردار ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے تھے، اور یہ کہنا مشکل تھا کہ ان میں کون یہودیوں کا زیادہ حامی ہے۔
یہودی منصوبے کا تیسرا مرحلہ
اس کے بعد یہودی منصوبے کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا جو19سال کے اندر جون1967ء کی جنگ میں بیت المقدس اور پورے باقی ماندہ فلسطین اور پورے جزیرہ نمائے سینا اور سرحدِ شام کی بالائی پہاڑیوں پراسرائیل کے قبضے سے تکمیل کو پہنچا۔ نومبر1948ء میں اسرائیلی ریاست کا رقبہ7993 مربع میل تھا۔ جون1967ء کی جنگ میں اس کے اندر 27ہزار مربع میل کا اضافہ ہوگیا اور 15-14لاکھ عرب یہودیوں کے غلام بن گئے۔ اس مرحلے میں اسرائیل کے منصوبے کی کامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر امریکہ اس کا حامی ومددگار اور پشت پناہ بنا رہا…… برطانیہ اور فرانس اور دوسرے مغربی ممالک بھی اپنی اپنی حد تک اس کی تائید وحمایت کا پورا حق ادا کرتے رہے۔ روس اور اس کا مشرقی بلاک بھی کم ازکم1955ء تک علانیہ اس کا حامی رہا اور بعد میں اس نے اگر اپنی پالیسی بدلی بھی تو وہ عرب ممالک اس سے بالکل مایوس ہوگئے کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں سے ان کو اسرائیل کے مقابلے اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار مل سکیں گے تو انہیں مجبوراً اشتراکی بلاک کی طرف رجوع کرنا پڑا اور اس بلاک کے ملکوں نے اس لالچ میں ان کو ہتھیار دینے شروع کیے کہ اس طرح انھیں عرب ممالک میں اشتراکیت پھیلانے اور ان کو اپنے دائرہ اثر میں لانے کا موقع مل جائے گا۔اس کے نتیجے میں یہ تو نہ ہوسکا کہ عرب ممالک اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتے، البتہ یہ ضرور ہوا کہ روس کو مصرو شام سے یمن تک اور عراق سے الجزائر تک اپنے اثرات پھیلانے کا موقع حاصل ہوگیا اور عرب ملکوں میں رجعت پسندی اور ترقی پسندی کی کشمکش اتنی بڑھی کہ اسرائیل سے نمٹنے کے بجائے وہ آپس ہی میں ایک دوسرے سے الجھ کر رہ گئے۔
19 برس کی اس مدت میں امریکہ نے اسرائیل کو ایک ارب 60کروڑ ڈالر کی مالی امداد دی۔ مغربی جرمنی سے اس کو82کروڑ 20لاکھ ڈالر کا تاوان دلوایا گیا۔ اور دنیا بھر کے یہودیوں نے دو ارب ڈالر سے زیادہ چندے دے کر اس کی مالی پوزیشن مضبوط کی۔ جنگی حیثیت سے اس کو زفرق تابقدم اس قدر مسلح کردیا گیا کر جون1967ء کی جنگ سے پہلے ہی امریکی ماہرین کا یہ اندازہ تھا کہ وہ صرف چار پانچ دن کے اندر اپنے گردو پیش کی تمام عرب ریاستوں کو پیٹ لے گا۔ سیاسی حیثیت سے ہر موقع پر امریکہ اور اس کے ساتھی اس کی پشت پناہی کرتے رہے اور انہی کی حمایت کی وجہ سے اقوام متحدہ اس کے پے درپے زیادتیوں کا کوئی تدارک نہ کرسکی۔ نومبر1947ء سے1957ء تک اقوام متحدہ کے28ریزولیوشن وہ اس کے منہ پر مار چکا تھا۔ ستمبر1948ء سے نومبر1966ء تک 7مرتبہ اقوام متحدہ نے اس کے خلاف مذمت کی قراردادیں پاس کیں مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس کی بے باکی کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ جون 1967ء کی جنگ کے بعد جب جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا تھا اس وقت اسرائیل کے وزیراعظم لیوی اشکول نے علی الاعلان یہ کہا کہ ”اگر اقوام متحدہ کے122ممبروں میں سے121بھی فیصلہ دے دیں اور تنہا اسرائیل کا اپنا ووٹ ہی ہمارے حق میں رہ جائے، تب بھی ہم اپنے مفتوحہ علاقوں سے نہ نکلیں گے“۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی حمایت کے بل پر اسرائیل تمام دنیا کی رائے کو ٹھوکر پر مارتا ہے اور اقوام متحدہ اس کے مقابلے میں قطعی بے بس ہے۔
امریکہ کی دلچسپی اسرائیل کے ساتھ کتنی بڑھی ہوئی ہے، اس کو جاننے کے لیے آپ ذرا اس رویے پر ایک نگاہ ڈال لیں جو جون1967ء کے موقع پر اس نے اختیار کیا تھا۔ جنگ سے ایک ہفتہ پہلے امریکی فوج کے جائنٹ چیفس آف اسٹاف کے صدر جنرل دہیلر نے صدر جانسن کو اطمینان دلایا تھا کہ اگر اسرائیل بڑھ کر پہلے ایک کامیاب ہوائی حملہ کردے تو پھر زیادہ سے زیادہ تین چار دن کے اندر وہ عربوں کو مار لے گا۔ لیکن اس رپورٹ پر بھی جانس صاحب پوری طرح مطمئن نہ ہوسکے اور انھوں نے سی آئی اے کے چیف رچرڈ ہیلمس(HELMS)سے رپورٹ طلب کی۔ جب اس نے بھی وہیلر کے اندازوں کی توثیق کردی تو جانسن صاحب نے روس سے رجوع کرکے یہ اطمینان حاصل کیا کہ وہ عربوں کی مدد کے لیے عملاً کوئی مداخلت نہ کرے گا۔ اس کے بعد کہیں جاکر اسرائیل پر ”وحی“۱؎ نازل ہوئی کہ اب عرب ملکوں پر حملہ کردینے کا مناسب موقع آگیا ہے۔ اس پر بھی امریکہ کا چھٹا بحری بیڑہ مصرواسرائیل کے سواحل کے قریب اپنی پوری طاقت کے ساتھ مستعدکھڑا تھا تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے۔
انگریزوں کی اسرائیل نوازی کا حال یہ تھا کہ ان کا ایک طیارہ برداربحری جہاز مالٹا میں اور دوسرا عدن میں ایک منٹ کے نوٹس پر اسرائیل کی مدد پر حرکت کرنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ جنگ کے بعد لنڈن سنڈے ٹائمز نے ایک کتاب شائع کی جس کانام تھا (THE HOLYWAR-JUNE 67)
اس کا جوباب بیت المقدس پر یہودی قبضے کے بیان میں ہے اس کا عنوان رکھا گیا ہے(BACK AFTER 896 YEARS)یعنی ”896برس کے بعد واپسی“۔ اب یہ ظاہر ہے کہ896سا ل پہلے بیت المقدس پر سے صلیبی عیسائیوں کا قبضہ اٹھا تھا نہ کہ یہودیوں کا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ انگریزوں کی ہمدردی میں صلیبی جذبہ کام کررہا تھا اور اس لڑائی کو وہ صلیبی جنگوں ہی کا ایک حصہ سمجھتے تھے۔
روس کی عرب دوستی کا حال بھی یہ تھا کہ جس صبح کو مصر کے ہوائی اڈوں پر اسرائیل کا حملہ ہونے والا تھا اسی کی رات کو روس نے صدرنا صر کو اطمینان دلایا تھا کہ کوئی حملہ ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ویسی ہی یقین دہانی تھی جیسی ستمبر1965ء میں ہم کو کرائی گئی تھی کہ ہندوستان بین الاقوامی سرحد پارنہ کرے گا! عربوں کے ساتھ روس کے رویے پر یوگو سلاویہ کے ایک ڈپلومیٹ کا یہ تبصرا بڑا سبق
_________________________________________________

*** واضح رہے کہ مسلمان اور عیسائی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیح مانتے ہیں، مگر یہودی ان کا انکار کرتے ہیں اور وہ ابھی تک مسیح موعود (PROMISED MESSIAN)کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کا یہ مسیح موعود وہی ہے جسے حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے مسیح دجال قرار دیا ہے۔

_________________________________________________

یہ ان کے قدامت پسندگروہ کا خیال ہے۔ دوسرا گروہ جو شدت پسندہے، اور جس کے ہاتھ میں دراصل اس وقت اسرائیل کے اقتدار کی باگیں ہیں، کہتا ہے کہ قدیم بیت المقدس اور دیوار گریہ پر قبضہ ہوجانے کے بعد ہم دور مسیحائیMESSIANICERAمیں داخل ہوچکے ہیں۔ یہی بات یہودی فوج کے چیف ربی نے تورات ہاتھ میں لے کر اس روز کہہ دی تھی جب بیت المقدس کی فتح کے بعد وہ دیوار گریہ کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے کہ”آج ہم ملت یہود کے لیے دور مسیحائی میں داخل ہورہے ہیں۔“ انہی دو وجوہ سے مسجد اقصیٰ کو یک لخت ڈھادینے کے بجائے تمہید کے طور پر اس کو آگ لگائی گئی ہے تاکہ ایک طرف دنیائے اسلام کا ردعمل دیکھ لیا جائے اور دوسری طرف یہودی قوم کو آخری کارروائی کے لیے بتدریج تیار کیا جائے۔۱؎
دوسرا جزاء اس منصوبے کا یہ ہے کہ ”میراث کے ملک“ پر قبضہ کیا جائے۔ یہ میراث کا ملک کیا ہے؟ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں۔
”اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔“
دنیا میں صرف ایک اسرائیل ہی ایسا ملک ہے جس نے کھلم کھلا دوسری قوموں کے ملک پر قبضہ کرنے کا ارادہ عین اپنی پارلیمنٹ کی عمارت پر ثبت کررکھا ہے۔ کسی دوسرے ملک نے اس طرح علانیہ اپنی جارحیت کے ارادوں کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے اس کی روسے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر، پورا اردن، پورا شام، پوراالبنان، عراق کا بڑا حصہ، ٹرکی کا جنوبی علاقہ، اور جگر تھام کے سنیے کہ مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ اگر دنیائے عرب اسی طرح کمزور رہی جیسی
_________________________________________________
***۱؎ جس طرح ہماری فوج کے ساتھ پیش امام ہوتے ہیں اسی طرح یہودی فوج کے ساتھ ربی ہوتے ہیں، اور ان کے چیف ربی کو اسرائیلی فوج میں بریگیڈئیر جنرل کا رینک حاصل ہے۔
آج ہے، اور خدانخواستہ دنیائے اسلام کا ردعمل بھی مسجد اقصیٰ کی آتشردگی پر کچھ زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوسکا، تو پھر خاکم بدہن، ہمیں وہ دن بھی دیکھنا پڑے گا جب یہ دشمنان اسلام اپنے ناپاک ارادوں کو پورا کرنے کے لیے پیش قدمی کر بیٹھیں۔

_________________________________________________

پس چہ باید کرد؟:

اتنی تفصیل میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ پیش نظر مسئلے کی پوری نوعیت، نزاکت اور اہمیت اچھی طرح سمجھ لی جائے، جو کچھ میں نے عرض کیا ہے، اس سے چند باتیں بخوبی واضح ہوجاتی ہیں۔
اول یہ کہ یہودی آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی ومددگار بنی رہی ہیں اور ان کی اس روش میں آئندہ بھی کسی تغیر کے امکانات نظر نہیں آتے۔ خصوصاً امریکہ کی پشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔
دوم یہ کہ اشتراکی بلاک سے کوئی امیدوابستہ کرنا بالکل غلط ہے۔ وہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کے لیے قطعاً کوئی خطرہ مول نہ لے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ اس سے ہتھیار لے سکتے ہیں، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اشتراکیت کا قلا وہ اپنی گردن میں ڈالیں اور اسلام کو دیس نکالا دے دیں۔
سوم یہ کہ اقوام متحدہ ریزولیوشن پاس کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کرسکتی۔ اس میں یہ دم خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے۔
چہارم یہ کہ عرب ممالک کی طاقتیں اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ پچھلے 22سال کے تجربات نے یہ بات پوری طرح ثابت کردی ہے۔
ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد نہ صرف مسجد اقصیٰ، بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اوراسلام کے مقامات مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک عرب مسئلہ بنائے رکھا گیا۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے رہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے مگر بعض عرب لیڈروں کو اس پر اصرار رہا کہ نہیں، یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسجد اقصیٰ کے سانحہ سے ان کی آنکھیں بھی کھل گئیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ صہیونیت کی عظیم الاقوامی سازش کا مقابلہ، جبکہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید وحمایت بھی اس کو حاصل ہے،تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دنیا میں اگر ایک کروڑ60لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو ایک ارب پچاس کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں اور ان کی32-30حکومتیں اس وقت انڈونیشیا سے مراکو اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں ان سب کے سربراہ اگر سر جوڑ کر بیٹھیں، اور روئے زمین کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پر جان ومال کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہوجائیں تو اس مسئلے کو حل کرلینا کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔
اس سلسلے میں جو عالمی کانفرنس بھی ہو اس کی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں۔ باقی جتنے یہودی1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبروظلم کے ذریعہ سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بناکر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی کھلی کھلی جارح ریاست کا وجود بجائے خود ایک جرم اور بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے اور عالم اسلام کے لیے اس سے بھی بڑھ کروہ اس بنا پر خطرہ ہے کہ اس کے ان جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں کے مقامات مقدسہ ہیں۔ اب اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس کو ختم ہونا چاہیے۔ فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بننی چاہیے۔ جس میں ملک کے پرانے یہودی باشندوں کو بھی عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں۔ اور باہر سے آئے ہوئے ان غاصبوں کو نکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن اور قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس کے سوا فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ رہا امریکہ، جو اپنا ضمیر یہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کر، اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت کررہا ہے، تو اب وقت آگیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اس کو صاف صاف خبردار کردیں کہ اس کی یہ روش اگر اسی طرح جاری رہی تو روئے زمین پر ایک مسلمان بھی وہ ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں اس کے لیے کوئی ادنیٰ درجہ کا بھی جذبہ خیر سگالی باقی رہ جائے۔ اب خود وہ فیصلہ کرلے کہ اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے۔
یہودیوں کا مسلمانوں کا ساتھ رویہ
مسلمانوں نے اپنے اخلاق کی جس بلندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی گرد کو بھی وہ لوگ کبھی نہ پہنچ سکے جو تہذیب وشائستگی کے علمبردار بنے پھرتے ہیں۔ یورپ کی قوموں نے افریقہ، امریکہ، ایشیا اور خود یورپ میں مغلوب قوموں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا ہے مسلمانوں کی تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی۔ یہ قرآن ہی کی برکت ہے جس نے مسلمانوں میں اتنی انسانیت پیدا کردی ہے کہ وہ کبھی غلبہ پاکر اتنے ظالم نہ بن سکے جتنے غیر مسلم تاریخ کے ہر دور میں ظالم پائے گئے اور آج تک پائے جارہے ہیں۔ کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو خود دیکھ لے کہ اسپین میں جب مسلمان صدیوں حکمران رہے۔ اس وقت عیسائیوں کے ساتھ ان کا کیا سلوک تھا اور جب عیسائی وہاں غالب آئے تو انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ہندوستان میں آٹھ سوبرس کے طویل زمانہ حکومت میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور اب ہندو غالب آجانے کے بعد ان سے کیا برتاؤ کررہے ہیں۔ یہودیوں کے ساتھ پچھلے تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا رویہ کیا رہا اور اب فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہے۔

فصل4

خاتمہ بحث

ترجمہ:”غرض ان یہودی بن جانے والوں کے اسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور سودلیتے ہیں جس سے انھیں منع کیا گیا تھا، اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے“۔ (النساء۔اٰیات:161-160)
یعنی وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ خود اللہ کے راستے سے منحرف ہیں، بلکہ اس قدر بیباک مجرم بن چکے ہیں کہ: دنیا میں خدا کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے جو تحریک بھی اٹھتی ہے،اکثر اس کے پیچھے یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کام کرتا نظر آتا ہے۔ اور راہ حق کی طرف بلانے کے لیے جو تحریک بھی شروع ہوتی ہے اکثر اس کے مقابلے میں یہودی ہی سب سے بڑھ کر مزاحم بنتے ہیں، درآنحالیکہ یہ کمبخت کتاب اللہ کے حامل اور انبیاء کے وارث ہیں۔ ان کا تازہ ترین جرم یہ اشتراکی تحریک ہے جسے یہودی دماغ نے اختراع کیا اور یہودی رہنمائی ہی نے اس کو پروان چڑھایا۔ ان نام نہاد اہل کتاب کے نصیب میں یہ جرم بھی مقدر تھا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جو نظام زندگی اور نظام حکومت خدا کے صریح انکار پر، خدا سے کھلم کھلادشمنی پر، خداپرستی کو مٹادینے کے علی الاعلان عزم وارادہ پر تعمیر کیا گیا۔ اس کے موجد ومخترع اور بانی وسربراہ کا رموسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا ہوں۔
اشتراکیت کے بعد زمانہ جدید میں گمراہی کا دوسرا بڑا ستون فرائڈ کا فلسفہ ہے اور لطف یہ ہے کہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مطالعہ مذاہب
مدیر اعلیٰ۔ مکالمہ

ایسٹر

مسیحؑ کامصلوب ہونا…… اور …… جی اٹھن

حقائق کیا ہیں؟
عیسائیت۔ تین خداؤں کا عقیدہ رکھتی ہے۔ چنانچہ عقیدہ کی بنیادی عبارت اس طرح ہے۔
”باپ، خدا ہے، بیٹا خدا ہے اور روح القدس، خدا ہے۔اور یہ تینوں مل کر تین خدانہیں ایک خدا ہے“۔اسے توحید فی التثلیث یا تثلیث فی التوحید کہا جاتا ہے۔
اس کی تعبیرات اور ان میں اختلاف سے قطع نظر…… بیٹا…… بھی خدائی کے تین اقانیم (اقانیم ثلثۃ) میں سے ایک ہے۔
بیٹا سے مراد
شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں:
”بیٹے“ سے مراد عیسائیوں کے نزدیک خدا کی صفت کلام ہے لیکن یہ انسانوں کی صفت کلام کی طرح نہیں۔ انسانوں کی صفت کلام اور خدا کی صفت کلام کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے…… ایکویناس لکھتا ہے۔
انسانی فطرت میں صفت کلام کوئی جوہری وجود نہیں رکھتی اسی وجہ سے اسے انسان کا بیٹا یا مولود نہیں کہ سکتے لیکن خدا کی صفت کلام ایک جوہر ہے جو خدا کی ماہیت میں اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔ اسی لیے اس کو حقیقتاً نہ کہ مجازاً بیٹا کہا جاتا ہے۔ اور اس کی اصل کا نام باپ ہے۔
عیسائی عقیدئے کے مطابق خدا کو جس قدر معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ اسی صفت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہیں اور اسی صفت کے ذریعہ تمام اشیاء پیدا ہوتی ہیں۔ یہ صفت، باپ کی طرح قدیم اور جاودانی ہے۔
خدا کی یہی صفت ”یسوع مسیح بن مریم“ کی انسانی شخصیت میں حلول کر گئی تھی جس کی وجہ سے یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا کہا جاتا ہے۔(مقدمہ اظہار الحق)
گویا۔ خدا کی اس صفت کے مسیح ابن مریم میں حلول کر جانے کی وجہ سے مسیح، خدائی کا ایک مستقل اقنوم، تین میں سے دوسرا خدا۔ اور خدا کا بیٹا کہلایا۔
مصلوبیت
عیسائی عقیدہ کے مطابق۔ مسیح بن مریم (خدائی کا اقنوم ثانی اورخدا کا بیٹا) لوگوں کے درمیان رہا۔ اور پھر یہودیوں کے پرُزور اصرار پر رومی گورنر پنطس، پیلاطس کے حکم سے اُسے صلیب پرسزائے موت دے دی گئی۔ جہاں وہ موت سے ہمکنار ہو گیا۔
گویا اس طرح تین میں سے دوسرا خدا صلیب پر موت سے ہمکنارہوا۔ اسے صلیب سے اتار کر کفن دیا گیا اور دفنا دیا گیاؒ۔
حیات ثانیہ
عیسائی عقیدہ ہے کہ مسیح ابن مریم صلیب پر مرنے اور دفن ہونے کے تین دن بعد زندہ ہو گئے اور حواریوں کو کچھ ہدایات دینے کے بعد آسمان پر تشریف لے گئے۔
یہ ہے موت پر فتحیاب ہونا اور مردوں میں سے زندہ ہو جانا۔ اسی مناسبت سے ”ایسٹر“ کا تہوار بلکہ جشن منایا جاتا ہے ہے۔
چنانچہ۔مسیحی قاموس الکتاب کے مؤلف ایف ایس خیر اللہ تحریر کرتے ہیں۔
ایسٹر
مسیحی سال کی ایک بڑی عید جو خداوند یسوع مسیح کے جی اٹھنے کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ اس کی تاریخ22مارچ اور 25اپریل کے درمیان ہوتی ہے۔ یعنی موسم بہار کے اس دن کے بعد جب دن اور رات برابر ہوتے ہیں۔(21۔مارچ) اس کی تاریخ معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے۔ 21 مارچ یا اس کے بعد جس تاریخ کو پورا چاند ہو، اس کے بعد کا پہلا اتوار ایسٹر ہو گا لیکن اگر پورا چاند اتوار کے دن ہو تو اس سے اگلا اتوار ایسٹر ہو گا۔
اور پھر مؤلف نے 1975ء سے 2000ء تک پچیس سال میں ایسٹر کی تاریخوں کی جدول دی ہے کہ اپریل کی کس تاریخ کو ایسٹر کا تہوار منایا گیا۔ (قاموس الکتاب۔ص108-9)
صلیبی کلمات
خداوند یسوع نے صلیب پر یہ سات کلمات فرمائے۔
1۔ لوقا:34:23
”اے باپ ان کو معاف کردے کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔“
2۔ لوقا:43:23
میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج ہی تو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔
3۔ یوحنا:27-26-19
”اے عورت! دیکھ، تیرا بیٹا یہ ہے…… دیکھ تیری ماں یہ ہے“۔
4۔ متیٰ:46:27…… اور مرقس34:15
”ایلی، ایلی لماشبقتنی۔ یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“
5۔ یوحنا:28:19
”میں پیاساہوں“
6۔ یوحنا:30:19
”تمام ہوا“۔
7۔ لوقا:46:23
”اے باپ! میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں“۔(قاموس ص596)
موروثی گناہ
مسیحی عقیدہ کے مطابق انسانی سرشت میں گناہ شروع سے موجود ہے۔ یہ گناہ آدم اور حوا کے باغ عدن میں گناہ کرنے کے باعث بنی نوع انسان میں داخل ہوا اور ایک پشت سے دوسری پشت تک ورثہ میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ (پیدائش۔21:8 سلاطین۔46:8۔ زبور5:51۔ ایوب۔ 14:15،4:25) بدی انسان کے دل اور دماغ کے تصورات اور خیالات میں موجود رہتی ہے۔(پیدائش 5:6۔21:8)
پولس رسول اس مسئلہ کو نجات کے انتظام سے منسلک کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جس طرح آدم کی وجہ سے گناہ دنیا میں آیا اُسی طرح خداوند یسوع مسیح کے طفیل گناہ سے نجات حاصل کرنے کا انتظام کیا گیا۔(رومیوں 21-12:15)
مقدس یعقوب گناہ کو انسان کی خواہشوں میں پنہاں دیکھتا ہے کیونکہ اس کے مطابق خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے۔(یعقوب14-13:1۔ مقابلہ کریں گلتیوں 24-16:5)
موروثی گناہ کامسئلہ کلیسیا میں اکثر بحث و نزاع کا مضمون رہاہے۔ یہ بحث خاص طورپر354۔430ء کے درمیانی عرصے میں جاری تھی۔ بزرگ اوگسطین اس مسئلے کاحامی تھا لیکن بدعتی فلاغیوس (تقریباً 383سے410ء تک رومہ میں تھا) نے اس کے خلاف یہ مؤقف اختیار کیا کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ نیکی اور بدی سے مبرا ہوتا ہے اور یہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ کون سی راہ چنے۔ وہ بدی کو انسانی سرشت میں ایک رحجان نہیں بلکہ ایک عمل تصور کرتا تھا۔ تحریک اصلاح کلیسیا کے وقت لوتھر اور دوسرے مصلح دین نے پھر سے مقدس اوگسطین کے نظریہ کی تائید کی۔
”اہل اسلام موروثی گناہ کے قائل نہیں“ (قاموس ص971-2)
علاوہ ازیں تفصیل کے طور پر قاموس الکتاب سے یہ مقامات بھی دیکھے جائیں تو ساری تفصیل سامنے آجائے گی جو ”ایسٹر“ کی بنیاد اورمسیحی مذہب کی روح ہے۔
ھبوط آدم پہلا گناہ اور اس کا نتیجہ (قاموس ص1075) یروشلم میں آخری ہفتہ1142۔ کفن، دفن، قیامت اور صعود آسمان1143
حقائق
بائیبل کے مطابق۔ یہودا اسکریوتی۔ مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا۔ مسیحی مذہب میں شاگردوں کو رسول کا درجہ حاصل ہے اور اس شاگرد پر تو مسیح کی نظر کرم دوسروں سے جدا گانہ تھی۔ لیکن اس نے مسیح کے خون کا سودا کیا اور یہودی مذہبی رہنماؤں سے تیس روپے کے بدلے مسیح کی نشاندہی کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ یہ رقم وصول کرلی اور رومی سپاہیوں سے کہا کہ اگر تمہیں معلوم نہیں کہ مسیح کہاں ہے؟ تو میرے ساتھ ساتھ آؤ، میں تمہیں اُس گھر میں لے چلتا ہوں جہاں مسیح موجود ہے اور پھر اُسی گھر میں موجود افراد میں سے میں آگے بڑھ کر جس کے ہاتھ کا بوسہ لوں اُسے گرفتار کر لینا وہی مسیح ہے۔
اس کا تجزیہ کریں، کیا ہیکل کے یہودی اور ریاست کے رومی، مسیح سے نواقف تھے انہیں اس کی پہچان نہ تھی۔ حالانکہ مسیح۔ ہیکل میں وعظ کہتے۔ یہودیوں کی رسوم و رواج پر تنقید کرتے۔ بیماروں کو شفا دیتے۔ تین برس سے منظر عام پر تھے۔ سب انہیں پہچانتے تھے۔ بائیبل کے مطابق خود مسیح نے بھی گرفتار کرنے کے لیے آنے والوں سے یہی فرمایا تھا کہ تم مجھے چوروں کی طرح پکڑنے آئے ہو۔کیا میں ہیکل میں اور لوگوں کے درمیان میں موجود نہیں ہوتا تھا۔
سوچیں۔ یہودا سکریوتی کا کردار اس پورے واقعہ میں شامل کرنا کیاحیثیت رکھتا ہے۔
صلیب
اگر مسیح علیہ السلام کو موت سے ہمکنار کرانا ضروری ہی ٹھہرا تھا تو کیا صلیب پر موت دلانا ہی ضروری تھا۔ جب کہ تورات میں ہے جو ”لکڑی پر لٹکایا جائے وہ ملعون ہے“اور صلیب لکڑی سے ہی ہے بنی ہوئی تھی…… اور پولوس رسول نے بھی یہ کہا کہ ”مسیح، جو ہمارے لیے صلیب پر لعنت کی موت قبول کر کے مرا“
مسیح کو مسیحی مذہب کے مطابق خدا کا اکلوتا بیٹا کہا جائے یا اللہ کا رسول مانا جائے۔ اس کو اذیت ناک ذلت آمیز اور لعنتی موت سے ہمکنار کرانا، سمجھ سے بالا تر ہے۔
موروثی گناہ
حضرت آدم علیہ السلام نے مسیحی مذہب کے مطابق گناہ اور خدا کی نافرمانی کاا رتکاب کیا تو انہیں جنت سے نکالا گیا۔ یہ سزا دے دی گئی لیکن اس گناہ کو صدیوں تک بنی آدم میں منتقل کرنے کا معاملہ اور مسیح کے زمانہ تک کے تمام انسانوں حتی کہ انبیاء و رسل کو بھی حضرت آدم کے گناہ پر گناہ قرار دینا۔ کیا کسی کی سمجھ آتا ہے۔ جب کہ بائیبل میں ہی ہے جو گناہ کرے گا وہ ہی مرے گا اور باپ کے گناہوں کاگناہ اولادکے ذمہ نہ ہو گا۔
پھر یہ موروثی گناہ کیا ہے؟
بائیبل کے مطابق صلیب پر مسیح کے منہ میں ڈالے کے الفاظ مختلف ہیں کیا۔ لوقا، یوحنا، متیٰ۔ کو روح القدس نے یا خدا نے الگ الفاظ، جملوں اور کلمات کا الہام کیا ہے۔ جب کہ الفاظ تو ایک ہی تھے۔ یہ تاویل بھی نہیں ہو سکتی کہ یہ سب کلمات کہے ہوں کیونکہ کوئی الفاظ کو قلمبند کرنے والا موجود نہ تھا۔
کفارہ
مسیحی عقیدہ کے مطابق ”بنی آدم کو موروثی گناہ سے چھٹکارہ دینے کے لیے خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو لوگوں کے درمیان رہنے کے بعدان گناہوں کے کفارہ کے طور پر قربان ہو گیا“ کسی کے گناہوں کا کفارہ یا سزا کسی کو بھگتنا ہو جس نے اس گناہ کا ارتکاب نہ کیا تھا یہ معمہ بھی کوئی حل کرے۔ کہ کیا خدا جو انصاف کرتا ہے ایسا کر سکتا ہے؟
موت پر فتحیابی
صلیبی موت کے تین دن (تین رات دن) بعد زندہ ہو جانا، جیسا کہ مسیح نے خود کہا تھا کہ زمانہ کے گناہ گار لوگ نشان (معجزہ، دلیل) مانگتے ہیں۔ انہیں یوناہ نبی کے نشان کے علاوہ کوئی نشان نہ دکھایا جائے گا۔ جیسے یونس نبی تین دن، تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا اسی طرح ابن آدم (مسیح) بھی تین دن رات قبر میں دفن رہ کر زندہ ہو جائے گا تین دن رات: کیسے ہوئے۔ بائیبل کے مطابق جمعہ کی شام کو صلیبی موت واقع ہوئی۔ رات کو یوسف نامی ایک بڑے آدمی نے جو مسیح کے ساتھ عقیدت رکھتا تھا۔ سرکار سے اجازت لے کر میت لی اور اُسے سفید چادروں کا کفن دے کر قبر میں دفن کرنے کا اہتمام کیا اور قبر میں رکھ کر اس کے دھانے پر بھاری پتھر رکھوا دیئے۔
اتوار کی صبح کو کچھ خواتین، قبر پر خوشبو سلگانے کے لیے حاضر ہوئیں تو مسیح قبر میں نہ تھے۔ اس حساب سے دوراتیں اور ایک دن بنتا ہے۔ تین رات دن کے قول کا کیا بنا۔ کیا تاویل کی جائے گی۔
چالیس دن
بائیبل کے مطابق مسیح موت پر فتحیاب ہو جانے اور مردوں میں سے زندہ ہو جانے کے بعد چالیس دن تک اپنے شاگردوں سے اور عقیدت مند خواتین سے ملتے رہے۔ سیدہ مریم،مسیح کی والدہ ماجدہ کا کوئی ذکر نہیں۔ اور پھر آسمان کی طرف چلے گئے۔ کیا رومی ریاست کو اور یہودی مذہبی رہنماؤں کو اس کی خبر نہ ہوئی۔
یہ سب کچھ بائیبل کی تین اناجیل متی، لوقا، یوحنا میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اس پر یہ سب اور اس سے کہیں زیادہ سوال اٹھتے ہیں جن کا جواب عالم مسیحیت کے ذمہ قرض ہے۔
جو کچھ حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ وہی ہے جو قرآن مجید نے بیان کی کہ
.مسیح نہ گرفتار ہوئے نہ صلیب پر دیئے گئے
تجزیہ کیا جائے تو گرفتاری، صلیبی موت، موت پر فتحیابی یہ سب کچھ مشکوک ہی نہیں من گھڑت معلوم ہوتا ہے اسے ثابت کرنا مسیحی مذہب کے ذمہ ہے ہمارے نزدیک نہ مسیح گرفتار ہوئے۔ نہ صلیب پر دیئے گئے۔ نہ موت سے ہمکنار ہوئے نہ دفن کیے گئے نہ موت پر فتحیاب ہوئے۔
پھر مردوں میں سے زندہ ہو جانے اور موت پر فتحیاب ہو جانے کا تہوار ”ایسٹر“ کیا معنی رکھتا ہے کہ خوشی کے طور پر عید قیامت المسیح منائی جائے۔ اور جشن منایا جائے۔
اس پر نادان مسلمان بھی اپنے دینی عقائد سے جاہل ہونے کی وجہ سے اس خوشی میں شریک ہوں اور مبارک پیش کریں۔

اس کو کیا نام دیا جائے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سیرت سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام

جناب عطا محمد جنجوعہ …. قسط نمبر2

اللہ تعالیٰ نے تجھے برگزیدہ کردیا اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہانوں کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا۔ اے مریم! تو اپنے رب کی اطاعت کر اورسجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔(آل عمران43-42)
دستور کے مطابق لڑکی بیت المقدس کی خادمہ نہیں بن سکتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بیت المقدس کی خدمت کے شرف کے لیے پسند فرمایا۔ چونکہ سیدہ مریم علیہا السلام کو عالی مرتبہ رسول کی والدہ ہونے کا شرف حاصل ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے چن کے ہر قسم کے عیوب سے پاک کر دیا۔ اور انہیں اُس وقت جہاں بھر کی عورتوں پر فضیلت و برتری عطا فرمائی۔
سیدہ عابدہ طاہرہ مریم حاجت ضروریہ کے علاوہ اپنے کمرہ سے باہر نہ نکلتی تھیں ایک روز مسجد اقصیٰ سے مشرقی جانب رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئیں۔ اُس وقت اُن کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ تھی، اچانک حضرت جبرائیل علیہ السلام بشری لباس میں سامنے آئے۔
پھر ہم نے اُس کے پاس اپنی روح (جبرائیل علیہ السلام) کو بھیجا پس وہ اس کے سامنے پورا آدمی ہو کر ظاہر ہوا۔(مریم:17)
سیدہ مریم اس کی اصلیت سے بے خبر تھیں اس بنا پر قدرتی طور پر خوفزدہ ہوئیں۔ فوراً اظہار فرمایا:
مجھ کو رحمن کی پناہ تجھ سے اگر ہے تو ڈر رکھنے والا۔ (مریم18:)
جبرائیل امین نے جواب میں کہا۔
میں تو اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں۔ (مریم19:)
قاصد جو پیغام پہنچاتا ہے اُس کا ذاتی نہیں بلکہ بھیجنے والے کا ہوتا ہے۔
اس کی دوسرے مقام پر وضاحت موجود ہے۔
جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے جو دنیا و آخرت میں ذی عزت ہے اور وہ میرے مقربین میں سے ہے۔(آل عمران45:)
پس بیٹا دینے والا اور سیدنا عیسیٰ کو مرتبہ دینے کی خوشخبری دینے والا جبرائیل امین نہیں رب جبریل ہے۔
سیدہ مریم خوشخبری سن کر حیران و پریشان ہو گئیں اور تعجب سے پوچھا۔
بھلا میرے ہاں بچہ کیسے پیدا ہو سکتاہے؟ مجھے تو کسی انسان کا ہاتھ تک نہیں لگا اور نہ میں بدکار ہوں۔(مریم:20)
قانونِ فطرت ہے کہ اولاد کے لیے نر اور مادہ کا امتزاج ضروری ہے۔ اس بنا پر سیدہ طاہرہ مریم نے کہامیری شادی بھی نہیں ہوئی اور بدچلن بھی نہیں اور مجھے آج تک کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا چنانچہ میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہو گا۔
جبریل نے مریم کی بات سن کر کہا آپ کی بات تو صحیح ہے۔
لیکن تیرے پروردگار نے کہاہے کہ وہ مجھ پر بہت ہی آسان ہے ہم تو اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دیں گے اور اپنی خاص رحمت یہ تو ایک طے شدہ بات ہے۔(مریم:21)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا اے مریم تو نر اور مادہ کے امتزاج سے آسان سمجھ رہی ہو اور اس کے بغیر مشکل میرے لئے تو دونوں آسان اور برابر ہیں۔ حضرت جبریل نے مریم علیہا السلام کو بیٹے کی خوشخبری سنا کر اللہ کے حکم سے اُن کے گریبان میں پھونک دیا۔
اس طرح اللہ کا حکم اور کلمہ مریم تک پہنچ گیا۔
”چنانچہ مریم کو اس بچے کا حمل ٹھہر گیا اور وہ اس حالت میں ایک دور کے مکان میں جا بیٹھیں“۔(مریم:22)
ولادت کا وقت قریب آیا تو سیدہ مریم علیہا السلام شرم کی وجہ سے لوگوں سے دور بیت المقدس سے مشرق کی جانب چلی گئیں جس کو آج کل بیت اللحم کہتے ہیں۔ سیدہ مریم بیت المقدس کی خادمہ خاندانی شرافت اور عصمت و عفت کا مجسمہ اس کیفیت سے دوچار ہوئیں تو انہیں مستقبل قریب کا خیال آیا کہ وہ اپنے رشتہ دار اور پڑوسیوں و سہیلیوں کے چبھتے سوالوں کا سامنا کرنا ہو گا وہ انہیں پاک دامنی کا کیاجواب دے گی۔ اس موقع پر مریم نے کہا کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی لوگ بھول گئے ہوتے اتنے میں نیچے وادی سے حضرت جبریل نے ہی آواز دی کہ آزردہ خاطر نہ ہوتیرے رب نے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور جس کھجور کے درخت تلے بیٹھی ہو اس کے تنے کو اپنی طرف حرکت دو یہ تیرے سامنے تروتازہ کھجوریں گرادے گا چین سے کھجوریں کھا، چشمہ کا پانی پی اور بچے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر اور اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمان کے نام کا روزہ رکھا ہے۔ اور کسی سے بات نہ کروں گی، جب سیدہ طاہرہ مریم اپنے بیٹے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو لے کر اپنی قوم کے پاس آئیں سب کہنے لگے مریم! تو نے بڑی بری حرکت کی ہے۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی چنانچہ سیدہ مریم علیہا السلام نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کیا سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں۔ بچہ بول اٹھا۔
”میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں،اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں،اور اُس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں کیااور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ زندہ کھڑا کیا جاؤں گا سلام ہی سلام ہے۔“(مریم30تا33)
اللہ سبحانہ نے اس نومولود بچہ کو قوت گویائی عطا فرمائی پہلی بات جو اُس نے فرمائی یہ تھی کہ ”میں اللہ کابندہ ہوں“ بالفاظ دیگر میں نہ اللہ ہوں نہ اللہ کا بیٹا ہوں آپ کے معجزانہ کلام نے مستقبل کے فتنہ کی تردید کردی مزید یہ فرمایا کہ اللہ سبحانہ نے مجھے کتاب دی ہے اور اپنا نبی بھی بنایا۔ اس کلام میں سیدہ مریم کی پاک دامنی کا اظہار مقصود تھا اگر نومولود بچہ بول سکتا ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ معجزانہ طور پر بن باپ کے پیدا ہوا ہے۔ دراصل نومولود کے کلام کرنے کے معجزہ سے معجزانہ پیدائش کی توثیق مقصود تھی اس کلام میں سیدنا عیسیٰ علیہ اسلام نے والدہ سے حسن سلوک کرنے کا ذکر فرمایا ہے والد کا ذکر نہیں کیا کیونکہ آپ کا والد تھا ہی نہیں۔
یہودی سیدہ مریم علیہا السلام پر الزام تراشی کرتے ہیں جبکہ نصاریٰ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو عین اللہ اور ابن اللہ کہتے ہیں جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ماں کی گود میں معجزانہ کلام کرکے یہودو نصاری کی تردید کر دی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا
”یہ ہے صحیح واقعہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا، یہی ہے وہ حق بات جس میں لوگ شک و شبہ میں مبتلا ہیں“۔(مریم:34)
یعنی عیسیٰ بیٹا مریم کا ابن اللہ نہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ماں کی گود میں جو خطبہ ارشاد فرمایا اسے ان الفاظ پر ختم فرمایا:
”میرا اور تم سب کا پرودگار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تم سب اسی کی عبادت کرو یہی سیدھی راہ ہے“۔(مریم:36)
سیدھی راہ یہ ہے کہ میرا اور تمہارا یعنی سب لوگوں کا خالق اور پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ جب ہر قسم کی نعمتیں عطا کرنے والا اللہ ہی ہے تو اُسی کی عبادت کرنا چاہیئے۔
بنی اسرائیل قوم نے اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف بغاوت وسرکشی کی انتہا کردی انہوں نے سرداری اور دولت کے حرص میں آکر تورات میں تحریف کر دی اہل علم طبقہ نے چند ٹکوں کی خاطر اللہ کے قوانین تک مسخ کر ڈالے۔ ان حالات میں اللہ سبحانہ نے سیدنا عیسیٰ پر نبوت و رسالت کا تاج سجایا اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے زمانہ کے حالات کے مطابق معجزہ عطا فرمائے جس کو دیکھ کر جادو گروں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت واضح ہو گئی اور وہ ایمان لائے۔ چونکہ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے دور میں علم طب و حکمت کا بہت چرچا تھا۔ اللہ نے اُن کو انجیل کے علاوہ ایسے معجزات سے نواز جن سے حکیم وطبیب دنگ رہ گئے۔
”کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں میں تمہارے لئے پرندہ کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتاہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کردیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اور جواپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایمان والے ہو۔“(آل عمران:49)
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے باذن اللہ کہہ کر حقیقت واضح کر دی کہ ان میں میرا ذاتی کمال اور کوئی اختیار نہیں بلکہ مرضی اور اختیار اللہ ہی کا ہے۔
انہوں نے انجیل اور معجزات کے ساتھ بنی اسرائیل کے سامنے، علماء کی مجلسوں میں اور امراء کے درباروں میں اللہ کی توحید کا پیغام سنایا۔

”میں تمہارے پاس حکمت لایا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ جن بعض چیزوں میں تم مختلف ہو انہیں واضح کردوں پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرا کہا مانو میرا اور تمہارا رب فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے پس تم سب اُس کی عبادت کرو راہ راست (یہی) ہے۔“(الزخرف64-63)
سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو اللہ کی واحدانیت اور اعمالِ بد سے بچنے کی تلقین کی تو راہبوں نے آپ کی مخالفت میں کمر کس لی اور سازشی جال پھیلا کر ”شام“ کے حکمران کے کان بھرے کہ عیسیٰ بن باپ کے ہے اور تورات کو بدلنا چاہتا ہے۔ یہودیوں نے مذہبی عدالت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف فیصلہ حاصل کرلیا دوسری طرف اللہ سبحانہ نے عرش پر عمدہ تدبیر فرمائی۔
سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کے سامنے صورت حال پیش فرمائی اور کہا تم میں سے اللہ کے دین کی نصرت کرنے والے کون ہیں؟ حواریوں نے جواب دیا۔
”ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں۔“ (آل عمران52:)
مخالفین نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کمرہ کا محاصرہ کر لیا۔ اللہ سبحانہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو خوشخبری سنائی۔
”میں تجھے پورا لینے والا ہوں اور تجھے اپنی جانب اُٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والاہوں۔“(آل عمران55:)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے عیسیٰ علیہ السلام تجھے یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا آسمانوں پر اٹھا لوں گا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہو گا تو اُس وقت موت سے ہم کنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔
یہودی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو سولی پر لٹکا کر قتل کرنا چاہتے تھے اللہ سبحانہ نے اُن کی تدبیر کو ناکام کر دیا۔
”یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کے لیے ان (عیسیٰ) کا شبہیہ بنا دیا گیا تھا یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں انہیں اس کا کوئی یقین نہیں کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے۔“ (النساء157:۔158)
مفسرین نے وضاحت فرمائی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کی سازس کا پتہ چلاتو انہوں نے اپنے حواریوں کو جمع کیا اور فرمایا تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کو تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل وصورت میری جیسی بنا دی جائے ایک حواری اس کے لئے تیار ہو گیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی پر چڑھا دیا جسے حضرت عیسیٰ علیہ کا ہم شکل بنادیا گیا تھا یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دی ہے درآں حالیکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھالئے جا چکے تھے۔ (ماخوذ ابن کثیر)
قیامت سے قبل سیدنا عیسیٰ بن مریم کا آسمان دنیا پر سے نزول ہو گا تو اہل کتاب سیدنا عیسیٰ کی طبعی موت سے قبل اُن پر ایمان لائیں گے۔
”اور یہ جتنے اہل کتاب ہیں عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی (طبعی) موت سے پہلے ضرور اس پر ایمان لائیں گے اور قیامت کے دن وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے۔“(النساء159:)
اس ضمن میں درج ذیل احادیث وضاحت کرتی ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا: ”دجال اسی حال میں ہوگا کہ اللہ مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا جو دمشق کے شرقی مینار کے پاس اُتریں گے اور زرد رنگ کا جوڑا پہنے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے جب اپنا سرجھکائیں گے تو قطرے ٹپکیں گے اور جب اٹھائیں گے تو بھی موتیوں کی طرح قطریں گریں گے کافر ان کے خوشبو پاتے ہی مر جائے گا اور ان کی خوشبو حد نگاہ تک پہنچے گا پھر وہ دجال کی تلاش کریں گے تو اُسے باب لد پر پائیں گے پھر اسے قتل کریں گے۔“(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الرجال)
سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب توڑڈالیں گے۔ جزیہ اٹھا دیں گے اس زمانے میں مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور ایک سجدہ ان کے نزدیک دنیا و مافیھا سے بہتر ہو گا اگر چاہو تو پڑھ لو وان من اہل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم)
امام ابن کثیر نے نزول عیسیٰ سے متعلق روایات ذکر کرنے کے بعد تحریر کیا۔
”حضرت عیسیٰ مریم علیہ السلام دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی آپ خنزیر کو قتل کریں گے۔ صلیب توڑ دیں گے جزیہ معاف کر دیں گے ان کے دور میں سب مسلمان ہو جائیں گے دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہو گا اور یاجوج ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہو گا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہو گی اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے“۔ (ماخوذ احسن البیان)
نزول عیسیٰ ابن مریم حکمت الٰہی کا مظہر ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
”جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر مرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔“(العمران81:)
حضرت ابن عباس کے حوالے سے اس آیت میں ثُمَّ جا ء کم رسول سے مراد خاتم النبیینﷺ ہیں۔ (جامع البیان)
ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اللہ کی واحدانیت کی دعوت دیتے ہوئے اپنی امت کو اس وعدہ کا پابند بنایا اور ہر امت اپنے نبی سے وعدہ کرتی رہی اگر ہم نے اس نبی کا زمانہ پایا تو ان پر ایمان بھی لائیں گے اور دین کے راستے میں ان کا تعاون بھی کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا وعدہ اس طرح پورا ہوتارہا تاہم اس میثاق کا تقاضا تھا کہ انبیاء کرام کی مقدس جماعت میں سے کوئی نبی اس عہد کا عملی مظاہرہ کر کے دکھائے تاکہ (لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ) کا وعدہ پورا ہو۔ اس عملی مظاہرہ کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاچناؤ ہوا کیونکہ وہ امام الانبیاء محمدﷺ کے لیے مبشر بنے تھے۔
۔ (الصف:61)
اس لئے اللہ تعالیٰ نے میثاق انبیاء کی تکمیل کے لیے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا انتخاب فرمایا۔
٭ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا انہیں طبعی موت نہیں آئی تھی چنانچہ طبعی موت کا ذائقہ چکھنے کے لیے نزول ہو گا۔
حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام بنی اسرائیل قوم کی طرف مبعوث ہوئے آپ علیہ السلام کے وعظ و نصیحت سے متاثر ہو کر کچھ لوگ ایمان لائے جو بعد میں عیسائی کہلائے بنی اسرائیل کے دیگر افراد نے آپ کی مخالفت کی اور سازش سے پھانسی پر چڑھانے کی کوشش کی یہ یہودی کہلائے۔
شکل سے مشابہت کے باعث عیسائی بھی یہودی پروپیگنڈہ کا شکار ہوئے کہ اُن کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام نعوذ باللہ مصلوب ہو گئے۔
لہٰذا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دونوں گمراہ قوموں کے عقائد کی تردید کرے گا۔ یہودیوں کو بتانا مقصود ہے کہ تم نے جنہیں پھانسی پر چڑھانے کی سازش کی تھی وہ مصلوب نہیں ہوئے بلکہ عزت و احترام سے آسمان پر اٹھائے گئے ہیں دوسری طرف عیسائیوں کو حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مصلوب ہو کر آسمان پر نہیں اٹھا گئے بلکہ پھانسی سے قبل ہی اُن کو آسمان پر اُٹھا لیا گیا۔
مزید برآں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نزول کے بعد اپنی قوم کے گمراہ عقائد کی تردید کریں گے کہ میں عیسیٰ ابن اللہ نہیں ابن مریم ہوں۔ وہ صلیب توڑ کر بتائیں گے کہ میرے مصلوب ہونے کا تصور غلط ہے۔ وہ خنزیر کے ذبیحہ کو حرام قرار دیں گے۔ شریعت محمدیہ پر عمل کی دعوت دیں گے۔
یہودی آپ کے خطاب سن کر مخالفت کریں گے اور دجال کا ساتھ دیں گے جبکہ عیسائی قوم حضرت مسیح علیہ السلام کے ارشاد کو دل وجان سے قبول کریں گے اور مسلمان ہو جائیں گے اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد اسلام کو غلبہ نصیب ہو گا تو پھر حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام بیت اللہ کا طواف اور حج کریں گے اس کے بعد اُن کا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان اُن کی نماز جنازہ پڑھیں گے وہ روضہ اطہر میں دفن ہونگے۔
ماخذ و مراجع
1۔ تفسیر ابن کثیر، حافظ عمادالدین
2۔ احسن البیان، از حافظ صلاح الدین یوسف
3۔ تفسیر القرآن، حافظ عبدالرحمن گیلانی
4۔ معارف القرآن،مفتی محمد شفیع
5۔ خطبات جلدچہارم، مولانا عطاء اللہ بندیالوی

ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب ( مارچ 2021ء رجب المرجب1442 ھ ) ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

Leave a Reply