لمحہ فکریہ
28رجب……1342ھ۔28رجب 1442ھ
زوال خلافت اسلامیہ کو ایک صدی مکمل ہو گئی
خلافت علی منہاج النبوۃ، قائم ہوئی اُسی دن جب دور نبوت اپنی تکمیل کو پہنچا اور خاتم النبین، نبی آخر الزمان حضرت محمدرسول اللہﷺ کی وفات حسرت آیات کے صدمہ سے انسانیت دوچار ہوئی تو امت مسلمہ کے اُن قدسی صفت انسانوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جنہیں ”رضی اللہ عنہم و رضواعنہ“ کا اعزاز حاصل تھا اور جو نبی آخر الزمان کے تربیت یافتہ تھے گویا دور خلافت کے پہلے مسند نشین حضرت ابوبکر تھے۔ حضرت امیر معاویہ اور پھر حضرت عبداللہ بن زبیر پر خلافت صحابہ کے دور کا اختتام ہوا اور خلافت بنوامیہ۔ پھر خلافت بنو عباس سے ہوتا ہوا مختلف انداز میں شکست و ریخت اور عروج و زوال سے دوچار ہوتا۔ نظام خلافت اسلامیہ ترکوں کی خلافت عثمانیہ کے سانچے میں ڈل گیا۔ دشمنانِ دین متین اور انسانیت پر ظالمانہ استحصالی نظام مسلط رکھنے اور انسانوں کو انسانوں کا غلام بنائے رکھنے والی ابلیسی قوتوں نے اس مقدس عادلانہ نظام کے خلاف سازشیں مسلسل جاری رکھیں اور پھر ایک بڑی سازش کے تحت امت مسلمہ کو بلکہ انسانیت کو فوزو فلاح اور امن و انصاف سے دوچار رکھنے والے اس نظام سے محروم کر دیا گیا۔ بدقسمتی کی یہ تاریخ
28رجب المرجب 1342ھ…… بمطابق3مارچ1924ء تھی
جب ترکی میں خلافت عثمانیہ کے آخری مسند نشین خلیفۃ المسلمین سلطان عبدالحمید کو معزول کر خلافت عثمانیہ کو ختم کر دینے کا اعلان کیا گیا۔
دو حقیقتیں
(1) تاریخ انسانیت میں کوئی ریاستی نظام اتنے طویل عرصے تک کامیاب نظام کے طور پر قائم نہیں رہا جتنا عرصہ خلافت اسلامیہ کا نظام قائم رہا۔ غور کیجئے خلافت12ربیع الاول11ھ کو قائم ہوئی سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت خاصہ اور مسجد نبوی میں بیعت عامہ ہوئی اور اس نظام کا آغاز ہوا۔ 28رجب 1342ھ تک تقریباً1331……برس یہ نظام قائم رہا۔ انگریزی کیلنڈر کے مطابق تقریباً1290 برس…… اور اس میں اب بھی یہ صلاحیت موجود ہے کہ عدل فراہم کرے۔
(2) ان 1331برسوں کے درمیان اندرونی اور محلاتی شکست و ریخت کے باوجود امت مسلمہ کے لیے یہ پورا دور عروج، کمال،فتوحات، امن اور انصاف کا دور تھا نہ صرف مسلمان بلکہ خلافت کی حدود میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگ بلکہ ذی روح کو جان، مال، عزت، آبرو کا تحفظ حاصل رہا۔ آسودگی تھی…… محتاجی، غربت وافلاس نہ تھا…… جب خلافت کا خاتمہ ہو گیا تو امت کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔ اسلامی ریاست کے حصے بخرئے ہو گئے چھوٹی چھوٹی مسلم یارستیں قائم ہوئیں۔ امت کی قوت، وقار اور عزت تہس نہیس ہو گئی وہ قوم جس میں ایک امیر المؤمنین نے کہا تھا……
”متیٰ استعبد تم الناس و قدولدتہم امہاتہم احراراً“
جو دوسروں کو غلامی سے نجات دلانے والی امت تھی۔ خود غلام ہو کر رہ گئی اور اب یہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے دست وپا۔ امت ہے اب اس نظام خلافت سے محروم ہوئے اور باہم جنگ و جدل میں مصروف، غلامی کی زنجیروں میں جکڑی امت پر ایک صدی مکمل ہو گئی ہے۔
امید اللہ تعالیٰ سے یہ ہے کہ امت انگڑائی لے گی۔ خلافت علی منہاج النبوۃ کا نظام بحال کرنے کے لیے جدوجہد کرے گی اور کامیاب ہو گی۔
(ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب)