جہاد فی سبیل اللہ
مولانا محمد اکرم اعوان:
وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا۔ جان کو، مال کو،قوت کو،زبان کو، علم کو، جو کچھ اللہ نے دیا ہے وہ اللہ کے دین کو بچانے کے لیے اللہ کے دین کو زندہ رکھنے کے لیے،اللہ کے دین کی خدمت کے لیے نچھاور کردو۔ جب روبرو ہو گئے تو تمہارا تعلق دوستی کی حد میں داخل ہو گیا۔ہم عربی میں تو اللہ کو دوست کہتے ہیں۔ ولی اللہ!ولی کا مطلب ہی دوست ہوتا ہے،ولایت دوستی ہے۔ جب اللہ سے تمہارا تعلق دوستی کا ہو گیا تو پھر دوستی میں کچھ بچا کے رکھنا کون سی ہوتی ہے۔ جب دوستی کا دعویٰ ہے تو دوستی میں کچھ بچا کے رکھنا دوستی نہیں ہوتی۔نبی کریم ﷺ کی بے شمار نعتیں لکھی گئیں، اللہ کریم کی بے شمار مدحت لکھی گئی۔میں شاعر نہیں ہوں لیکن کبھی کبھی کوئی جملے موزوں کرلیتا ہوں۔ مزاج میں،طبیعت میں بات آگئی تو کچھ کہہ دیا۔ اس میں اللہ کی حمد بھی لکھی، نعت بھی لکھی۔ میری لائبریری میں ہندو شعراء کی نعتوں کی کتاب بھی موجود ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ بعض نعتیں بڑے بڑے مسلمان شاعروں سے بھی اچھی ہیں لیکن اس کے باوجود ہندو کے ہندو ہی رہے۔الفاظ چنے،ان سے مصرعہ بنایا،انھیں موزوں کیا لیکن یہ سارا کچھ دماغ اور زبان کا کھیل تھا۔ دل وہی رہا جو پہلے تھا پھر اس نعت کا کیا فائدہ!اسی طرح میں نے یہ دیکھا ہر نعت خواں نے کچھ لینے کی بات کی۔ ہر اس بندے نے، جس نے اللہ کی تعریف لکھی، کچھ لینے کی بات کی۔ ظاہر ہے اللہ سے بھی لینا ہے، رسول ﷺ سے بھی لینا ہے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں انما انا قاسم واللہ یوتی او کمال قال رسول اللہ ﷺ کہ یقیناً میں تقسیم کررہا ہوں،لٹا رہا ہوں،اللہ دے رہا ہے اور میں بانٹ رہاہوں۔لینا تو وہیں سے ہے لیکن جب بات دوستی میں داخل ہو گئی تو دوستی کے اصول تو مختلف ہوتے ہیں۔دوستی لینے سے نہیں بنتی، دوستی دینے بنتی ہے۔ یہ سوچ کہ اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا، دوستی نہیں ہے۔ اس پر میں کیا قربان کرتا ہوں،دوستی یہ ہے۔بعض لوگوں نے ایک روایت نقل کی ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کی نیلامی سے قبل بازاروں میں اعلان کیا گیا تو بڑھیا سوت کات کر بیچا کرتی تھی، وہ بھی چل پڑی۔ کسی نے راستے میں پوچھا،بڑی بی کہاں جاتی ہو؟ اس نے کہا: سنا ہے ایک بہت خوب صورت غلام آیاہے،یوسف نام ہے، لوگ خریدنے کے لیے بولیاں لگائیں گے تو میں بھی بولی لگاؤں گی۔ اس نے پوچھا تیرے پاس کیا ہے؟ یہ سوت کی اٹی ہے۔ اس اٹی سے یوسف کی بولی لگاؤگی؟ میرے پاس سرمایہ تو کچھ نہیں لیکن جو کچھ ہے وہ یوسف پہ لٹانا چاہتی ہوں۔یوسف کے خریداروں میں شمار ہوجاؤں گی،طلب گاروں میں شامل ہوجاؤں گی۔نعت لکھنے میں بھی یہ سلیقہ ہونا چاہیے کہ ہم اس بارگاہ میں کیا پیش کرسکتے ہیں۔ سرمایا کم ہی سہی، مثل سوت کی اٹی کی طرح لیکن پیش کروگے تو طلب گاروں میں شامل ہو سکتے ہو۔
اللہ سے ہر چیز مانگو، اس نے دینی ہے لیکن تم اس کے لیے کیا دے رہے ہو؟ صرف لینا ہی دوستی نہیں ہوتی،دوستی کی بنیاد تو دینے پہ ہوتی ہے۔ تم کیا قربانی دے سکتے ہو اگر تمہیں اللہ سے ولایت نصیب ہے و قاتلوا فی سبیل اللہ تو پھر اٹھو، لڑو اور اس کی راہ میں جانیں دو، مال دو، بیٹے شہید کراؤ،بیٹوں کی لاشیں اٹھاؤ،پتہ چلے کہ تمہاری دوستی ہے اور تم دوستی نچھاور کر رہے ہو۔حضرت خنساء ؓ ایک صحابیہ تھیں اور شاعرہ بھی تھیں۔ انھوں نے قبول اسلام سے پہلے اپنے بھائی کی موت پر مرثیہ کہا تھا۔ یذکر طلوع شمسی صخرا۔ صخر ان کے بھائی کا نام تھا۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو ساری دنیا کو مختلف امور میں لگا دیتا ہے، کوئی کاروبار پہ نکلتا ہے، کوئی کاشت کاری پہ، کوئی لین دین پہ، کوئی دکان پہ، کوئی ملامت یہ لیکن مجھے ہر طلوع ہونے والا سورج صخر بھائی کی یاد دلا دیتا ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو بھائی کو یاد کرتی ہوں۔واذکرہ بکل غروب شمسہ اور ہرسورج کے ڈوبنے تک میں بھائی کی یاد میں گم رہتی ہوں۔ غالباً قادسیہ کی جنگ میں شریک تھیں اور چار نوجوان بیٹے ہمراہ تھے۔یکے بعد دیگرے چاروں شہید ہوگئے تو انھیں خیمے میں اطلاع ملی۔ چار جوان بیٹوں کی نعشیں خیمے میں لائی گئیں۔وہ خیمے سے نکل کر کھڑی ہوگئیں اور کہنے لگیں: تو کتنا بے نیاز،تو نے میرے چار بیٹے قبول کر لیے،تو کتنا کریم ہے، میں تو کچھ بھی نہ تھی! چار جوان بیٹوں پہ کوئی مرثیہ نہیں کہا، کوئی شعر نہیں کہا اللہ کے حضور کہنے لگیں، میں تیرا کیسے شکر ادا کروں تو نے میرے چار بیٹے قبول کر لیے۔ تیرے سامنے قیامت کو میں چار شہیدوں کی ماں بن کر کھڑی ہو ں گی،تونے مجھ پر کتنا احسان کیا!فرمایا:دوستی کا دعویٰ ہے تو میدان میں نکو۔تمہارے پاس اتنا تو کچھ بھی ہے، نہ وجودتمہارا،نہ مال تمہارا،نہ جان تمہاری لیکن چھپا چھپا کے پھرتے ہو؛ وقاتلوا فی سبیل اللہ دوستی کا دم بھرتے ہوتو پھر دوستی کے لیے کیا نچھاور کرتے ہو؟ میدان میں آؤ اور یہ قتال محض قتال نہیں ہے کہ لوگوں کومارنا ہے،نہیں الذین یقاتلونکم ان لوگوں سے مقابلہ کروجواللہ کو ماننے والوں کو قتل کرتے ہیں،جب کفار تم سے جنگ کرتے ہیں تو تم بھی جواباًان سے جنگ کرو۔اللہ کی راہ میں جان مال اور اپنی تمام قوت لگا دو۔ ولا تعتدوا سبحان اللہ!اسلام کیا خوب صورت مذہب ہے جو تمہارے ساتھ زیادتی کرتا ہے، مقابلہ کرو لیکن تم زیادتی نہ کرو۔جو مسلمانوں کو قتل کرتا ہے،مقابلے میں نکلو،جہاد کرو،قتل ہو جاؤ لیکن زیادتی نہ کرو۔
مشرکین مکہ جنگوں میں ایسا کرتے تھے کہ کسی کے خلاف بہت غصہ ہوتا اور وہ کہیں ان کے ہاتھون مارا جاتا تو اس کا مثلہ بناتے۔ مثلہ یہ ہوتا تھا کہ ناک،زبان،کان اعضاء کاٹ کر ایک ہار بناتے اور اسے میت کے گلے میں ڈال دیتے۔یہ ان کا بڑا انتقام تھا۔بدر میں حضرت حمزہ ؓ نے دادِ شجاعت دی تھی اور نام ور قریش قتل کیا تھا۔احد میں خود شہید ہوگئے تو مشرکین مکہ کی خواتین نے ان کا مثلہ کیا اور اعضاء کاٹ کر گلے میں ہار پہنا دیا۔جب مشرکین کا شکست ہوئی اور حضور نبی کریم ﷺ تشریف لے گئے تو محبوب چچا کا یہ حال دیکھ کر اتنا غصہ آیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ کی قسم میں اَسّی کافروں کا یہ حال کروں گا۔میں کافروں کے اَسّی سرداروں کا مثلہ کراؤں گا۔فوراً وحی آگئی کہ میرے نبی ﷺ ایک کے بدلے ایک،اَسّی نہیں۔ آپ ﷺ نے قسم کھا لی ہے تو قسم کا کفارہ دیجیے۔ حضور ﷺ نے قسم کھالی تھی۔اللہ پاک نے فرمایا: زیادتی نہیں ہوسکتی،قسم کا کفارہ دیجیے۔ حضور ﷺ نے فرمایا میں ایک کا بھی نہیں کروں گا۔آپ ﷺ نے قسم کاکفارہ دیا۔ہمیں تو ٹکے ٹکے سے پیار ہے،پائی پائی سے پیارہے،اس کے لیے دھوکے دیتے ہو،دوسروں سے جھوٹ بولتے ہو،خیانت کرتے ہو،کہتے ہو اللہ نظرنہیں آتا،اللہ سے بات نہیں ہوتی،نماز میں لطف نہیں آتا۔کہاں سے آئے گا!لوٹو نہیں،لٹا کے دیکھو۔لینے پہ ہی نہ رہو،کچھ دے کر بھی دیکھو،کچھ لٹا کر بھی دیکھو۔وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ہاں، اللہ کی راہ میں لڑ و لیکن ان سے جو تم سے لڑتے ہیں۔خواہ مخواہ لوگوں کے پیچھے تلوار سونت کرنہیں پھرنا اور لڑائی میں بھی دھیان رہے ولا تعتدوا زیادتی نہ ہونے پائے۔جیسے وہ لڑ رہے ہیں اسی طرح تم بھی لڑو لیکن ظلم اور زیادتی گوارا نہیں ہوگی۔
اب تو اہل مغرب کا قانون ہے Every thing is fair in love and war محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اسلام اس طرح کا مذہب نہیں ہے کہ کہیں بندے کی باگ ڈھیلی چھوڑ دے۔سب جائز کہیں لیکن سب جائز نہیں ہے، محبت میں نہ جنگ میں، ہر طرف حدود ہیں۔محبت میں بھی، جنگ میں حدود ہیں۔آپ حدود سے باہر نہیں جاسکتے۔ آپ کے ساتھ تو اللہ موجود ہے۔ آپ کے دل میں تو محمد رسول اللہ ﷺ بستے ہیں، آپ زیادتی کیسے کر سکتے ہیں! زیادتی کافر سے بھی نہ کرو جو تمہارے مقابلے میں میدان جنگ میں لڑ رہا ہے۔ کیوں نہ کرو؟ان اللہ لا یحب المعتدین۔ کہ اللہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ تمہیں اللہ کی محبت چاہیے،تم اس کی محبت کے طالب ہو۔ تم زیادتی نہیں کرسکتے۔ اسلام پہ الزام آتا ہے کہ یہ تلوار سے پھیلایا گیا ہے۔ یہ کیسے تلوار سے پھیلایا گیا ہے جو جنگ میں بھی ایک حد کا لحاظ رکھتا ہے اور زیادتی نہیں کرتا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے بیڑا ٹھایا کہ مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں سے آزاد کراؤں گا۔ اب ہر گھر میں ہر بندہ خود کو ایوبی سے بڑا سمجھتا ہے لیکن مسجد اقصیٰ یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ ہماری یہ جرآت بھی نہیں ہے کہ ہم کبھی سوچیں کہ اسے آزاد بھی کرایا جا سکتاہے۔ وہ بھی تو تھے جنھوں نے کہا، یہ تووہ مسجد ہے جسے فاروق اعظم ؓ نے آزاد کرایا تھا، اس پر دوبارہ عیسائیوں کا قبضہ!اس کے لیے ایک جنگ نہیں،ہزاروں جنگیں لڑنا پڑیں تو وہ لڑے اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرایا۔ کنگ رچرڈ برطانیہ برطانیہ کی ایک سلطنت کا حکمران تھا۔ اسے برطانیہ والے بڑے فخریہ سے اب بھی لکھتے ہیں Richerd the lion Heartedشیر دل کیاتھا؟ برطانیہ سے چلا تو راستے سے عیسائی حکمرانوں کی فوجیں ساتھ ہوئیں اور ایک بڑا لشکر فلسطین پہنچا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی سے میدان میں مقابل ہوا۔ اللہ کے بندوں کی کیا بات ہے! عین لڑائی میں تیر لگا تو رچرڈ کی سواری کا گھوڑا مرگیا اور پاپیادہ ہوگیا۔ صلاح الدین ایوبی ؒ نے خادم کو بلایا اور اسے کہا کہ شاہی اصطبل سے میری سواری کا گھوڑا رچرڈ کو دے کر آؤ۔ وہ یہ نہ کہے کہ میں پیدل تھا اس لیے مارا گیا۔صلاح الدین کو شیر دل کسی نے نہیں کہا۔ رچرڈ نے شکست کھائی، ناکام واپس گیا لیکن انگریزوں کی تاریخ چاسے شیرل دل لکھتی ہے۔جس نے فتح کیا،اس سے مقابلہ کیا، اسے کسی نے شیردل نہیں کہا۔ اس لیے کہ یہ لکھنا ہمارا کام تھا۔ ہم سے مرادنگی رخصت ہوگئی اور نامردوں کو اللہ ملتا ہے! کیسے عجیب لوگ ہو، نامراد اولیا اللہ ہو سکتے ہیں؟ کبھی نہیں!ہمارے پاس سب کچھ اللہ کا ہے۔ اس کی راہ میں لٹاؤ،جہاں ضرورت پڑے نچھاور کرو لیکن ولا تعتدوا زیادتی نہ کرو۔
اب سارا مغرب جہاد سے لرزاں ہے۔ جہاد کو قرآن سے کیوں نکال دو؟ جہاد تو ایک ضابطے کا پابند ہے، اس کی حدود و قیود ہیں۔ کسی پر ظلم اور زیادتی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ زیادتی نہ کرو اس لیے کہ تم تو اللہ کی محبت کے دیوانے ہو اور زیادتی کرنے والوں سے وہ محبت نہیں کرتا۔
مولانا محمد اکرم اعوان
سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ