یہ سب کچھ خواب جیسا تھا، ایک خواب جس کی تعبیر کی امید سکھ مذہب کے ماننے والے کئی دہائیوں سے کر رہے تھے۔ کتنی ہی آنکھیں وہ منظر دیکھنے سے پہلے ہی بند ہو چکی ہوں گی جو کرتارپور دربار صاحب میں دنیا بھر نے دیکھا۔
محض چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے کرتے سات دہائیاں بیت گئیں اور بالآخر وہ دن بھی آہی گیا جس کا انتظار دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں کو تھا۔
کرتارپور راہداری کھل چکی ہے، خوشی کا اظہار ناچ کر کریں یا خوشی کے آنسو بہائیں، گردوارہ دربار صاحب کرتار یاترہ پر آنے والے تقریبا سبھی سکھ یاتریوں کے کچھ ایسے ہی جذبات تھے۔
انڈین بارڈر سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ تاریخی گردوارہ تقسیم ہند کے بعد تقریباً 50 سال تک ویران پڑا رہا تھا۔ 20 سال قبل اس کے دروازے سکھوں کے لیے کھولے گئے تھے۔ سر سبز کھیتوں کے درمیان واقع اس گردوارے کی سفید چمکتی عمارت کا دیدار سرحد کے دوسری جانب سے دروبینوں کے ذریعے کیا جاتا تھا کیونکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کی باڑ پار کرتے کرتے دو دہائیوں کا مزید سفر طے کرنا تھا جو 9 نومبر کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔
کرتارپور گردوارہ کمپلیس کی قلیل مدت میں تعمیر بھی ایک چیلنج تھا جسے حکومت پاکستان نے بخوبی نبھایا ہے اور اسی کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں بھی کیا کہ ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری ٹیم اتنی قابل ہے۔‘اور کچھ ایسا ہی تھا، گردوارہ کمپلیکس میں بہترین سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ داخلے کے لیے پاکستانی اور غیرملکی یاتریوں کے لیے الگ الگ کاؤنٹرز کے باہر لمبی قطاریں تھیں لیکن کوئی ہنگامہ آرائی نہیں، انٹری گیٹ سے گردوارے کے دروازے تک شٹل سروس بھی موجود تھی اور غیرملکی مہمانوں کی رہنمائی کے لیے گرمکھی پنجابی رسم الخط میں تمام سائن بورڈز آویزاں کیے گئے ہیں۔
گردوارے کے مرکزی حصے میں واقع گردوارہ دربار صاحب کی مرکزی عمارت اب بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے جبکہ اس کے اردگرد کی دنیا بالکل بدل چکی ہے۔ اس عمارت نے کتنی دہائیاں ویرانی میں گزاریں اور آج اسی کے دیدار کے لیے دنیا بھر سے یاتری اس کے دوارے پر ہیں۔
’کبھی سوچا بھی نہیں تھا ایسا ہوگا‘، برطانیہ سے آئے ایک سکھ یاتری کا کہنا تھا۔ ’یہ میری ماں ہیں، انہوں نے بھی ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔‘ انہوں نے اپنے ساتھ کھڑی ایک بوڑھی خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پنجابی میں کہا تو اس خاتون نے برجستہ کہا ’اتنی خوشی ہے کہ بیان نہیں کر سکتے۔‘
ایک جانب سکھ یاتری اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے تو دوسری جانب کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔ دھوپ سخت تھی لیکن فرشی نشستوں پر سینکڑوں کی تعداد میں حاضرین بیٹھے ہوئے تھے۔
وقفے وقفے سے سٹیج سے ’جو بولے سو نہال‘ کا نعرہ بھی بلند ہو رہا تھا، انڈیا اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کی امید کا اظہار بھی کیا جاتا تھا اور کرتارپور راہداری کے کھلنے پر سکھ برادری کو مبارک باد بھی پیش کی جا رہی تھی۔لیکن شاید انہیں کسی کا انتظار بھی تھا۔ کچھ سرگوشیاں بھی سنی گئیں کہ سدھو جی آرہے ہیں ناں؟ عمران خان کب آئے گا؟
9 نومبر کا دن بلاشبہ نوجوت سنگھ سدھو کے نام رہا۔ ان کی تقریر نے حاضرین کے دل بھی گرما دیے۔ اسی موقعے پر جب وہ کرتارپور راہداری کھلنے پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے تو میرے ساتھ ہی کھڑے ایک انڈین مہمان نے کہا ’انہوں تسی اپنے کول ہی رکھ لو‘ یعنی انہیں پاکستانی اپنے پاس ہی رکھ لیں۔
راہداری کی افتتاحی تقریب کے دوران جرمنی میں دیوار برلن گرائے جانے کی طرح لائن آف کنٹرول کی حد بندی ختم کرنے کی باتیں بھی ہوئیں۔ یاد رہے کہ دیوار برلن 9 نومبر 1989 کو گرائی گئی تھی، ٹھیک اسی دن جس دن سکھ یاتریوں کے لیے کرتارپور راہداری کو کھولا گیا۔جب نوجوت سنگھ سدھو سٹیج چھوڑ کر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے جانے لگے تو عوام کا ہجوم ان کے پیچھے پیچھے ’سدھو جی، سدھو جی‘ کہتے ہوئے چل پڑا۔ صورتحال ایسی تھی کہ جیسے ہر کوئی سدھو کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتا ہو، انہیں چھونا چاہتا ہوں، ان سے بات کرنا چاہتا ہو۔ یہاں تک کہ ایک موقعے پر نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ ’اوئے تسی تے مینوں مار ہی چھڈو گے۔‘لیکن اس کے باوجود وہ اپنے مداحوں میں گھرے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہے۔
دوسری جانب انڈیا سمیت دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتریوں کی زباں پر صرف ایک ہی نام تھا ’عمران خان۔‘انٹری گیٹ سے گردوارے تک جانے کے لیے خصوصی طور پر چلائی جانے والی شٹل سروس میں سوار ہوئے تو آسٹریلیا سے آئے ہوئے سکھ یاتری سے پوچھا کہ کیسا لگا؟ تو ان کا بھی یہی جواب تھا ’ویری ویل ڈن عمران خان‘۔
امرتسر سے واہگہ بارڈر کے راستے آنے والی جسپریت کور خاصی جذباتی تھیں، کہنے لگیں ’اب تو راستے کھل گئے ہیں، اگلی بار اسی راستے سے آئیں گے۔‘کرتارپور کا یہ سرحدی گاؤں اب ایک روشن شہر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ آس پاس کے رہائشی بھی حیران ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے تاہم ان کا اطمینان بھی ہے کہ اب ان کی ترقی کی راہیں بھی اس راہداری کے ذریعے کھلیں گی۔
تقریب کے اختتام پر جاتے جاتے ایک انڈین صحافی کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا کہ ’مجھے خوشگوار حیرت ہے کہ کرتارپور راہداری کی تقریب کو انڈیا کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا، شاید اب مجھے واپس جا کر اپنی کچھ ٹویٹس ڈیلیٹ کرنا ہوں گی۔