سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ مولانا محمد اکرم اعوان

گلوبل ویلج عالمی نظام کا متقاضی ہے

گلوبل ویلج عالمی نظام کا متقاضی ہے

مولانا محمد اکرم اعوان:

آج سائنس کو فخر ہے کہ گلوبل ویلج بن گیا۔ گلوبل ویلج تو اسی دن بن گیا تھا جس دن محمد رسول اللہ ﷺ نے اعلان فرمایا:یاایھا الذین الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ”اے اولاد آدم علیہ السلام! میں تم سب کے لیے اللہ کا رسول ہوں“گلوبل ویلج تو اسی دن بن گیا تھا جب یہ اعلان فرمایاگیا۔ساری دنیا میں علاقے مختلف ہیں،ان کے موسم مختلف ہیں حتی ٰ کہ دن رات کا فرق ہے۔ ایک جگہ دن ہوتا ہے دوسری جگہ رات ہوتی ہے۔موسموں کا فرق ہے،مزاجوں کا فرق ہے، غذاؤں کا فرق ہے،رنگوں کا فرق ہے۔کون سا اختلاف ہے جو نسل انسانی میں نہیں لیکن اللہ نے جب رسول اللہ ﷺکو ساری انسانیت کے لیے مبعوث فرمایا تو اس کا مطلب یہ کہ اللہ نے آپ ﷺ کو ایسا نظام عطا فرمایا جو بیک وقت ساری انسانیت کے لیے آسان اور قابل عمل ہے۔انسان کو ایک نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔جہاں مل جل کر رہتا ہے،وہاں کچھ حدود وقیود ہوتی ہیں۔کچھ اس کے حقوق ہوتے ہیں،کچھ اس کے فرائض ہوتے ہیں۔بیک وقت ساری مخلوق کے لیے قواعد و ضوابط وضع کرنا اور ایسے وضع کرنا کہ اہل مشرق کو بھی راس ہوں،شمال و جنوب میں رہنے والوں کوبھی راس ہوں۔ زبانیں مختلف ہوں، رنگ مختلف ہوں،فکر مختلف ہو لیکن ان اصولوں پر ہر کوئی عمل کر سکے۔ وہ اصول سب سے آسان بھی ہوں،قابل عمل بھی ہوں اور سب کے لیے مفید بھی ہوں۔ اب یہ وہی بنا سکتا ہے جس نے مخلوق بنائی۔
پھر ایک پہلو اس کا اور بھی ہے۔ جب حضور اکرم ﷺ مبعوث ہوئے تو صرف اس وقت کے لیے یا سوسال کے لیے،پچاس سال کے لیے ایک عالمی نظام بن جاتا لیکن یہ نظام تو قیام قیامت تک کے لیے ہے یعنی کائنا ت میں کتنی تبدیلیاں آئیں، نظام یہی رہے گا۔ اُس زمانے سے اِس تک تبدیلیاں کیا آئی ہیں؟ انسان پیدا ہوتا ہے،انسان مرتا ہے،انسان بیمار ہوتا ہے،انسان صحت مند ہوتا ہے،انسان کو بھوک لگتی، انسان کو نیند آتی ہے۔ انسان کی ساری ضرورتیں وہی ہیں۔صرف تکمیل کے ذرائع بدلے ہیں۔چولہا جلا کر کھانا پکاتا تھا اب اس نے مشین کے ذریعے پکی پکائی روٹی لے لی لیکن اس کی بھوک تو نہیں بدلی یعنی ضرورت کی تکمیل کے صرف ذرائع بدلے ہیں۔ اسلام نے ذرائع پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ ایک زمانے میں لوگ پیدل حج کرتے تھے،اونٹ پر سفر کرتے تھے،گھوڑے پر سفر کرتے تھے آج جہاز پہ جاتے ہیں ذرائع میں کوئی منع فرمایا۔ ہر جائز ذریعہ اختیار کر سکتے ہیں۔قیامت تک جو تبدیلیاں آئیں گی،وہ ذرائع میں آئیں گی لیکن انسانی حالات نہیں بدلے کہ اس کا توالد و تناسل بدل جائے یا اس کا مرنا جینا بدل جائے یا اس کی بھوک اور پیاس بدل جائے یا گرمی سردی کو محسوس کرنا بدل جائے۔اسلام کی صورت میں ایسا خوب صورت،ایسا جامع،ایسا مکمل ترین نظام حیات عطا فرمایا جوجینے کا سب سے آسان رستہ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی آسان زندگی کو اپنی معرفت کاسبب بنا دیا کہ تم مزے سے جیو۔ جس طرح میرا نبی ﷺ تمہیں حکم دیتا ہے اسی طرح کرو،جس بات سے روکتا ہے رک جاؤ تو یہ تمہیں میرا جمالِ جہاں آرا دکھانے کا سبب بن جائے گا۔ اب اس کے بعد عبادات مزید انعام ہے جسے ہم بو جھ سمجھ بیٹھے ہیں یعنی دین پر عمل تو وہ ہے جو کچھ ہم عملی زندگی میں کرتے ہیں۔نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ یا جو عبادات ہیں،یہ اس پر مزید انعام ہے کہ چونکہ تم میری اطاعت کرتے ہو،تو آؤ تم مجھ سے روبرو بات بھی کرلو۔
جو فلسفیو سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز ایک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
دنیا کے دانا موجود تھے،دانش ور موجود تھے،شاعر موجود تھے،فلاسفر موجود تھے،مورخ موجود تھے۔ کون سا فن تھا جو نہیں تھا لیکن کوئی اللہ کو نہیں جانتا تھا۔ایک جملے میں،صرف ایک جملے میں اللہ کی ساری پہچان کرادی۔لا الہ الااللہ اور اس ساری پہچان کا سبب محمدرسول اللہ ﷺ
ہم سخن کردیا بندوں کو خدا سے تونے
اب آدمی جب بازار میں، زندگی میں،میدان میں، کاروبار میں،دوستی دشمنی میں اللہ کے حبیب ﷺ کی پیروی کر کے آتا ہے اور اللہ کے حضور دست بستہ کھڑا ہوجاتا ہے،اللہ اکبر کہہ کر ساری کائنات سے کٹ جاتا ہے توا للہ سے بات کررہا ہوتا ہے۔نمازی کے بارے میں حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں فانہ یناجی ربہ۔اپنے رب سے سرگوشیاں کررہا ہے،اسے ڈسٹرب مت کرو،اسے مت چھیڑو،اس کے آگے سے نہ گزرو،وہاں شور نہ کرو،اسے اپنے رب سے بات کرنے دو۔یہاں وہ مشت غبار اور کہاں وہ ذات عالی!محمد رسول اللہ ﷺ نے ہر بندے کو، ہرامتی کو، ہرکلمہ گو کو اللہ سے بات کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور سلیقہ سکھا دیا۔

Leave a Reply