(ماہنامہ مکالمہ بین المذاہب اگست 2020 )
کرونا وائرس…… وبا…… آزمائش؟
چھ ماہ سے پوری دنیا پر کرونا وائرس کا حملہ جاری ہے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ معشیت تباہ ہو گئی۔ بے روز گاری میں اضافہ ہوا اور اس دور ان ممالک کے درمیان آمدورفت بندہے۔
کرونا…… آسمانی یا زمینی آفت و وبا ہے…… انسانیت کے خلاف کوئی سازش ہے۔ جنگی ھتیار ہے۔ لوگوں کو غلام بنانے کی منصوبہ بندی ہے۔ ویکسین کی تیاری اور اس کے استعمال سے انسانوں کو بے حس کر دینے کا کوئی پروگرام ہے۔ ہمیں حتمی طور پر معلوم نہیں۔ ایک بات ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تقدیر کا اظہار ہے۔ یہ سزا ہے فلسطینیوں، شامیوں، کشمیریوں، افغانیوں، چیچنوں پر کیے جانے والے مظالم کی۔ یا اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کے لیے ماحول تیار کرنا قدرت کو مقصود ہے جو ہو کر رہے گی کہ ہر طرف پھیلے ہوئے ظلم و ناانصافی کے زمانے میں تمام استحصالی نظاموں کو اُلٹ دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے اپنے وعدہ استخلاف اور پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی پیشنگویوں ”ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ“ اور اس مرد مومن کے ظہور کہ جو ”یملا الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلماً وجوراً“ کے مطابق ایک دفعہ سب کچھ تہس نہس کر دینا مقصود ہے۔
جو بھی ہو۔ ایک بات تو بہرحال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر جو یقین و ایمان ہمیں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور رسول اللہ ﷺ نے احادیث میں دیا اور دور صحابہ سے لے کر صدیوں تک مسلمان اس ایمان پر کھڑے رہے…… وہ آج بھی یہ آواز دے رہا ہے کہ عبرت انگیز اور سبق آموز ہے یہ عرصہ کہ جب ٹیکنالوجی، انسانی منصوبہ بندی، سائنسی ترقی اور دیگر ہر طرح کی چالاکیاں دم بخود ہیں ہاتھ باندھے تقدیر کے سامنے شکست خوردہ کھڑی ہیں۔
انسانی برادری کوئی سبق حاصل کرے یا نہ کرے۔ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں وہ کسی کو ایمان کی توفیق دے نہ دے…… مسلمانوں کو اس سے ضرور سبق حاصل کرنا چاہیے اور وہ ہے استغفار، رجوع الی اللہ، تعلق مع اللہ، اور شریعت مطہرہ پر عمل کرنے کا عہد۔
بدقسمتی سے یہ جیسے ہونا چاہیے تھا۔ نہیں ہوا ایسے حالات میں علماء کرام، خطباء عظام مبلغین اسلام اور تمام درد مند مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں اصلاح و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا۔
مدارس بند ہیں۔ قال اللہ اور قال الرسول کی آوازیں مدھم سی ہو گئی ہیں۔ کرونا وائرس حکومتوں کے جبر اور اس بات کا خوف کہ کہیں الزام نہ آئے ہم پر کہ ہم معاشرے میں وائرس کے پھیلنے کا ذریعہ بن رہے ہیں، تبلیغی مراکز بند ہیں، بچوں اور بوڑھوں کو مساجد میں حاضری سے روک دیا گیا ہے اور ایک دوسرے سے ملاقات اور حال، احوال پوچھنے کا سلسلہ بھی سرد ہوگیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ خون سفید ہو گئے ہیں۔ البتہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہی سہی۔ انسانی ہمدردی اور غمگساری کے جذبوں کو تو اتنا سرد نہیں ہونا چاہتے تھا جتنے ہو گے ہیں۔ بند تو چرچ بھی ہیں، سینما بھی ہیں، غیر مسلموں کی عبادتگاہیں بھی ہیں، لیکن یہود، ہنود، مجوس، نصاری کو جتنی خوشی، مساجد اور اسلامی تبلیغ کے مراکز بند ہونے پر ہے انسانیت کی تباہ حالی کا اتنا غم نہیں۔ تو انسانی برادری اور اخلاقی قدروں کاکیا حشر ہوا۔ جن پر انسانی برادری اپنی سیاست کی دکان چمکایا کرتی تھی اور اپنے جیسے انسانوں کو اقتصادی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی تدبیریں کیا کرتی تھی۔
ہم تو بحیثیت مسلمان، پوری انسانیت کے ہمدرد ہیں اور مسلمان تو مسلمان ہے کسی انسان بلکہ کسی جانور اور پرندے کی تکلیف پر تڑپ اٹھنے والے ہیں، ہمیں اپنی حیثیت کو فراموش نہیں کرنا ہے۔ دوسروں کی طرح بے حس نہیں ہونا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کرنا ہے۔ انسانیت کو سمجھانا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنا ہے کہ وہ تمام آسمانی و زمین آفات سے نجات عطاء فرمائے۔
ہم اپنا کام کریں، کوئی نہیں کرتا تو ہمارے پاس یہ عذر کافی نہیں۔