تو کیا ہم نے کرتارپور کوریڈور کھول کر، ایک وسیع کامپلکس تعمیر کر کے اس کے قدرتی صدیوں قدیم ہریاول بھرے ماحول کو تبدیل کر کے، ہم نے بابا نانک کی مانند ایک سچا سودا کیا ہے یا اس سودے میں ہمیں گھاٹا پڑے گا؟ پچھلی شب مجھے میرے دیرینہ دوست سکھدیپ سنگھ رانگی کا فون سڈنی سے آیا اور وہ ہر تین چار ہفتوں کے بعد مجھے تب فون کرتا ہے جب وہ کلی طور پر ٹن ہوتا ہے حالانکہ اس کے ڈاکٹروں نے اسے شراب سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ سردار کیا جو دارو سے دور رہے۔ سکھدیپ اور میں انگلستان میں ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے اور ہماری یاریوں کی دھوم تھی۔ پھر میں پاکستان لوٹ آیا اور وہ تہران چلا گیا جہاں اس کے خاندان کا بہت وسیع کاروبار تھا۔ میں دوچار بار زمینی سفر کے ذریعے جب کبھی یورپ جاتا اور وہاں سے لوٹتا تو سکھدیپ تہران میں میری مہمان نوازی میں کچھ کسر نہ چھوڑتا۔ ہم دونوں ایک شب اس کی سرخ سپورٹس کار پر کوہ البرز کے جنگلوں میں رات کی سیاہی میں سفر کرتے، جب کہ اس سیاہی میں بھیڑیوں کی آنکھوں کی مشعلیں بھڑکتی تھیں۔ کیسپئن کے سمندر تک جا پہنچے جہاں اس کی ناراض بیوی کا فون اس دھمکی کے ساتھ آیا کہ فوراً واپس آئو ورنہ میں چلی پٹیالے؛چنانچہ ہمیں لوٹنا پڑا، یہ شاہ آف ایران کے زمانے تھے۔ جب ایک خونی انقلاب کے نتیجے میں امام خمینی فرانس سے واپس پہنچے اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی تو سکھدیپ اپنا کاروبار سمیٹ کر آسٹریلیا چلا گیا جہاں اس نے بھیڑوں کا ایک فارم خرید کر اس کی نگہبانی کے کاروباری فرائض سرانجام دینے شروع کر دیئے۔ ان دنوں کبھی کبھار اس سے رابطہ ہو جاتا۔ ایک بار میں نے پوچھا کہ سکھدیپ زندگی کیسے گزر رہی ہے تو وہ قہقہہ لگا کر بولا۔ سارا دن کاروباری کتے خصی کرتا ہوں، شام کو یاروں کے ساتھ دارو پیتا ہوں، بھیڑیں اپنی ہیں۔ان میں سے ایک روسٹ کر کے کھا جاتا ہوں۔ چھ ماہ بعد پھر فون آیا تو میں نے پوچھا کہ سکھدیپ دارو شارو چل رہا ہے تو کہنے لگا، نہیں چودھری، دارو چھوڑ دیا ہے۔ ایسے ہی گوردوارے میں ایک روز خیال آیا کہ روز رات کو اپنی ہی ایک بھیڑ بھون کر کھا جاتا ہوں تو میں نے خاک کاروبار کرنا ہے؛ چنانچہ دارو چھوڑ دیا۔ مجھے آسٹریلیا میں مقیم پاکستانیوں کی ایک ادبی تنظیم نے جب سڈنی مدعو کیا تو ہم بہت برسوں بعد ایک دوسرے سے ملے۔ وہ بھی میری طرح ایک بوڑھا ہو چکا تھا، کچھ روز میں اس کے شاندار گھر میں اپنی بیگم کے ہمراہ مہمان رہا۔ وہ اب کچھ بہک سا گیا تھا اور اپنے کتے شیرو سے باتیں کرتا رہتا تھا۔ وہ اکثر جذباتی ہو کر کہتا، چودھری تم میری جوانی کی شبنم ہو؛چنانچہ پچھلی شب اس ہمدم دیریں کا فون آ گیا اور وہ بہت طیش میں تھا یعنی ایک پرخمار طیش میں۔ وہ کہہ رہا تھا، اوئے چوہدری یہ لالے کیا کر رہے ہیں، یہ مودی کا بچہ کہاں سے آ گیا۔ ہم پاکستانی حکومت اور عمران خان کے پائوں دھو دھو کر پینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کرتار پور کھول دیا۔ ہمارے بابا نانک کے گھر کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیا اور یہ کمبخت لالے(سکھدیپ لالہ لوگ کا تذکرہ کرتے ہوئے کچھ ایسے ’’توصیفی‘‘ لفظ بول رہا تھا جنہیں یہاں درج کرنا مناسب نہیں) دیکھو انہوں نے کیا اعتراض کیا ہے کہ کرتار پور کوریڈور میں داخل ہونے کے لیے بیس ڈالر بہت زیادہ ہیں، یہ کوئی اعتراض ہے، دلی سے چنڈی گڑھ کے سفر کے دوران ہر جگہ ٹول ٹیکس لگتا ہے۔ اتنے ڈالر تو وہاں خرچ ہو جاتے ہیں، پاکستان نے تو کرتارپور کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر دیئے ہیں، سڑکیں بنائی ہیں، مہمان خانے تعمیر کیے ہیں اور یہ بنیے کہتے ہیں کہ بیس ڈالر زیادہ ہیں، چوہدری یہ سب بہانے بازیاں ہیں، مودی سرکار کی، وہ رخنے ڈال رہے ہیں، چاہتے ہی نہیں کہ سکھ بڑی تعداد میں پاکستان جائیں، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس وقت باہر کے ملکوں میں مقیم کم از کم ڈھائی لاکھ سکھ کرتارپور کی یاترا کرنا چاہتے ہیں لیکن ہندوستانی حکومت نہیں چاہتی کہ وہ آئیں کہ ان میں کٹڑ خالصتانی بھی آ جائیں گے۔ اسی لیے وہ پابندیاں لگا رہے ہیں کہ غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والے درخواست دیں، فارم بھریں وغیرہ کہ وہ ڈرے ہوئے ہیں۔ میں نے سکھدیپ کو صدق دل سے پیش کش کی کہ وہ سیدھا لاہور آ جائے تو میں اسے کرتار پور لے چلوں گا۔ ہنس کر کہنے لگا ’’چوہدری اب میں بہت بوڑھا ہو گیا ہوں، سفر کرنا بھی دشوار ہو رہا ہے، میری جگہ تو چلا جا، وہاں متھا میری طرف سے ٹیک کر کہنا کہ گورو میں اس کا یار ہوں، سمجھ لے کہ سکھدیپ ہوں۔ اس کی جگہ میں آ گیا ہوں‘‘ اس کی ہنسی بجھ گئی اور آواز بھر آئی ’’چوہدری اب تو میں رین بو برج کے خواب دیکھتا ہوں، میں نے کہاں کرتارپور آنا ہے، جانتا ہے یہ کہاں ہے؟‘‘ میں پہلی بار اس رین بو برج یعنی قوس قزح کے پل کا نام سن رہا تھا ،جاپان میں ہے؟ ’’اوئے نہیں چوہدری، یہ جاپان میں نہیں جنت میں ہے، نہیں جانتا تو گوگل چیک کر، جب آپ کے دن پورے ہو جاتے ہیں تو اگر آپ اپنے پالتو جانوروں سے پیار کرتے ہو تو آپ کی آنکھ رین بو برج پر کھلتی ہے اور وہاں وہ سب جانور پرندے جو کبھی آپ کے گھر میں تھے اور پھر مر گئے وہ سب اس پل پر سے چلتے، اچھلتے، اڑتے تمہارے پاس آ جاتے ہیں، تم سے لپٹ جاتے ہیں‘‘ ایک عجیب واہمہ تھا لیکن کیسا خوابناک خیال تھا، میں نے پوچھا، سکھدیپ وہاں تو ہزاروں لوگ ہوں گے تو وہ پالتو جانور اپنے اپنے مالک کو کیسے پہچان لیں گے تو سکھدیپ نے سنجیدگی سے کہا، وہ اپنے مالک کی بُو سُونگھ کر اس کے پاس چلے آئیں گے۔ چوہدری تو جانتا ہے مجھے کتوں سے بے حد لگائو ہے۔ اب بھی میرا ایک شیرو میرے پاس بیٹھا مجھے پیار سے دیکھ رہا ہے۔ زندگی میں درجن بھر کتے تو رکھے ہوں گے۔ آسٹریلین طوطے، بلیاں اور ایک سانپ بھی تو وہ سب میرے منتظر ہوں گے۔ میری جگہ تو کرتارپور ہو آتا، میں نے تو اب کسی بھی لمحے رین بو برج چلے جانا ہے اور وہاں سب شیرو ہوں گے مجھے سونگھتے ہوئے چلے آئیں گے۔ سکھدیپ یقینا ڈیپریشن میں تھا، بڑھاپا اس پر حاوی ہو رہا تھا، میں نے رین بو برج سے دھیان ہٹانے کی خاطر اسے بتایا کہ میں کچھ عرصہ پہلے گوجرانوالہ گیا تھا جہاں میں نے رنجیت سنگھ کی حویلی اور ہری سنگھ نلوہ کی رہائش گاہ کے آثار دیکھے تھے بلکہ رنجیت سنگھ کے باپ ماہا سنگھ کا اجڑا ہوا ’’مقبرہ‘‘ بھی دیکھا تھا جسے اگر نو تعمیر کیا جائے تو اس جیسی شاندار عمارت گوجرانوالہ کی پہچان بن سکتی ہے۔ سکھدیپ کو یکدم کچھ یاد آ گیا، کہنے لگا ’’آہو مجھے ایک سردار نے بتایا تھا کہ ماہا سنگھ کی مٹری بہت برے حالوں میں ہے، چوہدری تو کسی سے کہہ سن کے اس کی شکل وجہ بھی ٹھیک کرا دے’’ویسے وہ ٹھیک کہتا تھا کہ اگر سیالکوٹ کا شوالہ ٹیج سنگھ مندر نوتعمیر ہو سکتا ہے اور وہاں پوجا ہو سکتی ہے تو ماہا سنگھ کے مقبرے نے کیا قصور کیا ہے، کہ کرتار پور آنے والے سکھ بہرحال گوجرانوالہ میں جائیں گے تو اس پرکشش عمارت کی موجودہ حالت دیکھ کر دُکھی ہوں گے تو اس کی بحالی کے لیے کوشش ہونی چاہئے، یہ ایک طویل ٹیلی فونک گفتگو تھی جس نے میرے دل کو بہت دکھ دیا۔ آخر میں سکھدیپ نے پھر کہا ’’چوہدری تو نے میری جگہ کرتارپور جانا ہے‘‘ وعدہ کر، میں شاید ہمت کر کے آ جاتا لیکن وہاں رین بو برج پر میرے شیرو میرا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے ہر شب خواب آتا ہے، کسی نہ کسی دن اس خواب میں جانا ہے‘‘
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز لاہور میں بدھ 30 اکتوبر 2019ء کو شایع کیا گیا