ماہنامہ مکالمہ بین المذاھب اپریل 2021

پنجاب وقف املاک ایکٹ

پنجاب وقف املاک ایکٹ

از قلم: ریٹائر ڈسیشن جج چوہدری خالد محمود
ڈپٹی سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل

سال 2020ء پاکستان کی وفاقی اور صوبائی قانون سازی میں کافی اہمیت کا حامل رہا ہے عالمی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی زیر ہدایت قانون سازی کا عمل وفاقی دارالحکومت کے اوقاف اور متعلقہ جائیدادوں پہ مکمل اور بعدہ صوبائی سطحوں پر بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل کیا گیا ہے اور نتیجہ کے طور پر اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کو وقف کے اداروں تک رسائی اس پر دہ میں دی گئی ہے کہ دہشت گردی کی سہولت کاری کے لیے مالی معاونت کو روکنا مقصود ہے، ان ترامیمی قوانین کے ملاحظہ سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کو مسلم وقف جائیدادوں اور اداروں کے تمام معاملات تک رسائی دے دی گئی ہے، اس وقت ہمارے پیش نظر پنجاب وقف جائیداد ترمیمی ایکٹ 2020ء ہے، جیسے حسب معمول اسمبلی میں منظوری کے لیے کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی، حزب اختلاف کے صرف 8ممبران اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے، اور وہ بھی خاموشی سے اس وقت واک آؤٹ کر گئے جب FATF کے متعلق قانون سازی کا عمل شروع ہوا، وزیر قانون محمد بشارت راجہ نے حزبِ اختلاف کو FATF کے متعلق قانون سازی پر اتفاق رائے کی دعوت دی لیکن حزب اختلاف نے اس قانون سازی کے عمل میں قطعا حصہ نہ لیا، صوبائی سطح پر سال 2019ء پنجاب اسمبلی نے پنجاب میں مدارس اور سکول کی ضبطی کے حوالہ سے ایکٹ ++2019 پاس کیا، جس کی رو سے دفعہ 2 اقوام متحدہ (سلامتی کونسل) ایکٹ 1948ء مشمولہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل ضبطگی ادارہ ہائے (آرڈر 2019ء کے مطابق ان مدارس اور سکولز کا اہتمام حکومتی کنٹرول میں آیا جن کو عالمی اداہ نے ضبطگی (seized and freezed) کا درجہ دیا ہو گا اور اسی طرح ایکٹ 11++ آف 2019ء کے تحت ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا بھی نظم و نسق حاصل کیاجو کہ عالمی ادادہ کے قانون کی زد میں آتے ہیں، اس طرح سال 2020ء میں بھی وقف جائیداد ترمیمی ایکٹ 2020ء کے علاوہ پنجاب ٹرسٹ بل 2020ء اور کوآپریٹیو سوسائٹیز ترمیمی بل 2020ء کے بل بھی پاس کئے گئے، یوں پنجاب کی سطح پر FATFکے مطابق قوانین کی ترمیم اور بنانے کا عمل مکمل کیا گیا، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2020ء کے مطابق تمام وقف شدہ جائیدادوں تک رسائی دی گئی ہے، اسی طرح ملکی وقف شدہ املاک کی سکرویٹنی عالمی اداروں مشمولہ FATF کے دائرہ اختیار میں آگئی ہے، اس میں سب سے اہم وہ ضابطہ ہے کہ وقف مینجر ملکی اور بین الاقوامی تعاون کو بہتر بنانے کے لیے مجازاتھا رٹیز کو وقف شدہ اداروں کی تمام معلومات دینے کا پابند ہو گا اس وقف شدہ جائیدادوں کے منافع اور وظیفہ اور اس کے وسائل اور اخراجات کی مدات اورسٹاف کی رہائش کی معلومات وغیرہ کے تمام امور شامل ہیں،جو کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں شامل ہیں، وقف شدہ جائیدادوں کی رجسٹریشن اس کے لیے وقت اور تاخیر پر بے بہاجرمانوں کا بوجھ ان اداروں کی فلاحی حیثیت کو شاید مکمل ختم کرنے تک لے جائے، وقف ایکٹ2020ء کی طرح پنجاب وقف ایکٹ میں بھی چیف ایڈمنسٹریٹر، ایڈمنسٹریٹر اور ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر کے عہدے تشکیل دیئے گئے ہیں، چیف ایڈمنسٹریٹر اور ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر کے بارے ایکٹ کے تحت مسلم ہونا لازم ہے، جبکہ ایڈمنسٹریٹر کے بارے میں پنجاب وقف ایکٹ خاموش ہے، سندھ وقف ایکٹ2020 کی دفعہ 4 کے تحت ایڈمنسٹریٹر اور دپٹی ایڈمنسٹریٹر کا مسلمان ہونا لازم ہے جبکہ پنجاب وقف ایکٹ 2020ء میں مسلمان ہونے کی شرط ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر کے لیے تو تحریر شدہ ہے جبکہ ایڈمنسٹریٹر کے لیے درج نہ ہے، اسی پنجاب وقف ایکٹ 2020ء کی دفعہ 2میں ذیلی دفعات (A-i) (D-i) (C-i) شامل کی گئی ہیں جس سے Amla قانون صوبائی سطح پر ان وقف شدہ فلاحی اداروں پر لاگو کر دیا گیا ہے، دفعہ 6 کے تحت وقف شدہ جائیداد کو 90 یوم کے اندر چیف ایڈمنسٹریٹر کے ہاں رجسٹرڈ کرانا لازم ہے، جس کے بعد ہرگزرتے دن پر یومیہ 50,000/- بحروف پچاس ہزار روپے اور پھر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد ہو گا، دفعہ 7 کے تحت چیف ایڈمنسٹریٹر کسی بھی وقف شدہ ادارے کا انتظام اور قبضہ حاصل کر سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی ادارہ کسی قسم کی کاروباری یا اتفاقیہ ٹرانزیکشن کرنے کو بھی واقف، متعلقہ مجاز اتھارٹی کو بھی مطلع کرنے کا پابند ہو گا، دفعہ 02A کے تحت مینجر وقف جائیداد کی بہبودی ملکیت یعنی (جو انتظام وانصرام اور کسی طور پر ملکیت کا حق رکھتا ہو گا) سٹاف کے رہائشی پتا جات، وقف جائیداد کے متعلق اثاثہ جات، جو انٹیلی رپورٹنگ کے متعلق ہوں گے، یا ان کے متعلق کوئی بھی معلومات مجاز اتھارٹی کو دینے کا پابند ہو گا، انٹیلی رپورٹنگ یہ تمام معلومات چیف ایڈمنسٹریٹر سے حاصل کر سکے گا، اور جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ یہ تمام معلومات بین الاقوامی مالیاتی ادارہ جات اور FATF سے بھی شیئر ہوں گی، دفع 20 کے تحت آئمہ اور خطبا مساجد پر بھی اختلافی اظہار رائے پہ کئی قسم کی قدغن لگائی گئی ہے، اور وہ سیاسی منظر نامے میں شامل نہ ہو سکتے ہیں، اس میں منتظمین حضرات بھی شامل ہیں، دفعہ 24 کے تحت کوئی شخص بھی ان قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی کا مرتکب و گا یا اسے پورانہ کرے گا، جس وجہ سے مطلوبہ انتظامی امور مکمل نہ ہوں گے تو اس کو 5 سال تک سزا اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے، دفعہ 20 کے خلاف ورزی پر بھی 5 سال کی سزا ہو سکتی ہے اور یہ جرمانہ وقف سے حاصل شدہ آمدن سے تین گنا تک عائد ہو سکتا ہے، دفعہ 6 کو ہم اوپر دیکھ چکے ہیں اس میں یہ بھی درج ہے کہ واقف یا منیجر وقف جائیداد کا ریکارڈ محفوظ رکھے گا اور یہ رپورٹ چیف ایڈمنسٹریٹر کی طلبی پر پیش کرے گا، دفعہ 6کی خلاف ورزی پر دفعہ (3)24 میں سزا مقرر کی گئی ہے جس کی رو سے اگر دفعہ 6 پہ عملدرآمد نہ کیا جائے یا اگر کوئی معلومات طلبی کے باوجود مہیا نہ کی جائیں یا نامکمل اور غلط دی جائیں، تو ذمہ دار کو 5 سال تک سزا معہ جرمانہ عائد کیا جائے گا اور کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں ڈھائی کروڑ روپے جرمانہ ہو گا، اختصار یہ ہے کہ وقف جائیداد پر ملکی اور بین الاقوامی قوانین لاگو کیئے گئے ہیں، جو کہ مساجد اور مدارس پر بھی اسی نہج کے تحت عائد ہیں Amla 2010 کے تحت آمدو خرچ، اور وسائل، مدد، عطیہ جات بھی ڈیکلئر کرنے ہوں گے۔

Leave a Reply