(ویب ڈیسک):اردو میں اس کے لئیے بہت ساری اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں جیسے باز، عقاب، شاہین وغیرہ۔ اصل میں عقاب Eagle کو کہتے ہیں جو ان جیسے دکھنے والے سب پرندوں میں بڑا ہے۔ اس سے کم سائز ہے Kite یا چیل کا جو عام نظر آتی ہے۔ پھر آتا ہے Hawk یا باز۔ اس کے بعد Falcon جو اصلی شاہین ہے۔ اس پوسٹ میں بھی اسکا یہی نام شاہین ہی استعمال ہوگا اور ثابت بھی کیا جائے گا کہ یہی شاہین ہے۔
شاہین اصل میں فارسی لفظ ساہن سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بہادر یا بادشاہ جیسا۔ جہاں رب نے ساری دنیا میں ایک بہترین ایکو سسٹم تیار کر رکھا ہے۔ ہر جاندار کی تعداد ایک درست طریقے سے قدرتی خود کار نظام کے تحت بیلنس کر رکھی ہے۔ کیڑوں کو کیڑے کھاتے، ان کو پرندے چوہے چھپکلیاں کھاتی، ان کو دوسرے پرندے جانور کھاتے کچھ رات کے شکاری کچھ دن کے، کچھ زمینی تو کچھ آبی مچھلیاں وغیرہ کھاتے۔ وہاں ایک ایسا جاندار بھی چاہئیے تھا جو فضا میں لمبی دیر تک اڑان بھرنے والے پرندوں کا شکار کرکے ان کی تعداد میں بیلنس رکھ سکے۔ چنانچہ ایسی صورت میں Falcons پیدا کئیے گئے۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر،
تو شاہیں ہے بسیرا کر، پہاڑوں کی چٹانوں پر۔
شاہین کی رہائش:
یہ ہر براعظم میں پائے جاتے ہیں سوائے انٹار کٹکا کے، ان کی رہائش ہر طرح کے علاقوں ، مثلاً گھاس کے میدان، سمندر، خشک جنگلات، جہاں جہاں پہاڑی چوٹی موجود اور موسم گرم سے معتدل ہو، وہاں 1200 میٹر اور اس سے بھی اوپر یہ چوٹیوں کے کناروں کونوں میں اپنا ٹھکانہ بنالیتے ہیں۔ ان کو ایسے شہروں جہاں کبوتروں کی بہتات ہو وہاں اونچی بلند ترین عمارتوں کے ٹاورز میں، بلند ترین پلوں کے اوپر ٹھکانہ بناتے دیکھا گیا ہے۔ اتنی اونچائی پہ ٹھکانہ بنانے کی ایک وجہ تو باقی جانوروں سے دور محفوظ جگہ پہ رہنا دوسرا اونچائی سے اپنا شکار دیکھ کر اس پر جھپٹنا ہے۔ اسکی کچھ نسلیں ایک ہی علاقے میں رہتی ہیں جبکہ کچھ نسلیں ہجرت کرتی ہیں پاکستان میں بھی اسکی کئی نسلیں مثلاً Bahri Falcon ٹھنڈے علاقوں سے ہجرت کرکے آتی ہیں۔
شاہین کے جسمانی خدوحال:
یہ پرندہ ہر طرح سے ہوا میں ہی شکار کرنے کے لئیے بنا ہے، اس کے پر چونچ دار اور پیچھے کی جانب اس طرح مڑے ہوئے ہیں جیسے کوئی تیز ترین جنگی طیارہ ہو، یہ پر, ہوا کی مزاخمت کو کم کرتے ہیں تاکہ اسکا رستہ نہ روکے۔ جیسے اڑنے والے پرندوں کے سینے میں ایک بڑی سی ہڈی Keel ہوتی ہے جو ان کا توازن برقرار رکھتی ہے۔ ان کے جسم میں وہ کافی بڑی اور اس پر ٹھیک ٹھاک گوشت چڑھا ہوتا ہے جو شکار کے وقت اسے تیز ترین رفتار پکڑنے میں مدد کرتی ہے۔ اس کے ناک کے نتھنوں کے بالکل درمیان میں ایک اضافی ہڈی(Baffle) ہوتی ہے جو تیز ترین رفتار کے وقت ہوا کی رفتار کو آہستہ کرکے اسکے پھیپھڑوں تک پہنچاتی ہے۔ یہ ہڈی نہ ہوتی تو شکار کرتے وقت تیز ہوا سے اسکے پھیپھڑے پھٹ جاتے۔ اس کی آنکھ میں اضافی جھلی ہے جو تیز رفتاری کے وقت اسکی آنکھ کی حفاظت کرتی ہے۔
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا۔۔۔
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔
زمین پہ سب سے تیز چیتا(128 کلومیٹر فی گھنٹہ) دوڑتا ہے، سمندر میں سب سے تیز کالی Marlin تیرتی(132 کلومیٹر فی گھنٹہ) ہے۔ یہ ان دونوں سے تیز اڑان بھرتا ہے تقریباً 386 کلومیٹر فی گھنٹہ !!! یہ پرواز اسے دنیا کا تیز ترین جانور بناتی ہے۔ عام طور پر یہ 60 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بہت اونچا بادلوں کے پار اڑتے ہیں۔ لیکن جب شکار دیکھتے ہیں تو وہاں اونچائی سے جسم کو گولی کی طرح 300/400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گراتے ہیں۔ شکار کے قریب آتے ساتھ ہی رفتار آہستہ کرلیتے اور اسے اپنے پنجے (Talons) سے دبوچ لیتے ہیں۔ شکار کو سمجھ بھی نہیں آتی ان کے ساتھ یکدم ہوا کیا۔ اگر شکار میں پھر بھی سانس باقی ہو تو اپنی چونچ کے اوپر ایک تیز دانت (Tomial Tooth) کے زریعے اس کے دماغ کی نسیں کاٹ ڈالتے اور سر اتار پھینکتے ہیں۔یہ انسانوں سے آٹھ گناہ تیز دیکھ سکتے ہیں۔
اس جیسے دوسرے نظر آنے والے پرندوں میں فرق دیکھنا ہو تو ایک تو اس کے لمبے نوکیلے چونچ دار پر ہیں دوسرا اسکی چونچ میں یہ دانت ہے۔ اس کا سائز بھی تقریباً کوے جتنا ہے۔ یہ سمندری و زمینی اڑنے والے پرندوں خصوصاً کبوتروں اور بطخوں، مرغابیوں کا بڑے شوقین ہیں۔ یہ پرندے ہوا میں کافی دیر تک اڑتے رہتے ہیں اور اس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
پرواز ہے دونوں کا اسی ایک فضا میں
گرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
عمل تولید اورافزائش نسل:
شاہین اکیلا ہوا میں اڑان بھرنے والا پرندہ ہے۔ یہ صرف ملاپ کے لئیے مادہ کے پاس آتا ہے۔ مادہ تین سے چار انڈے دیتی ہے جسے سینکنے میں 33 دن لگ جاتے ہیں۔ عام طور پر ایک دو ہی بچے بچ پاتے ہیں۔ مادہ بچے سنبھالتی تو نر شکار کا بندوبست کرتا ہے۔ شکار اکثر ہوا میں پروز کے دوران ہی وہ مادہ کے حوالے کر دیتا ہے۔ شاہین کا عام طور پر انسانوں کے سوا کوئی شکاری نہیں لیکن الو جو خاموش رات کو تیز ترین آنکھ سے شکار کرنے والا پرندہ ہے۔ اکثر ان کے بچے اٹھا کر لے جاتا ہے۔ اور کبھی سانپوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے۔ مادہ سائز میں نر سے بڑی ہوتی ہے اور اپنے گھونسلے کے قریب سے گزرنے والے اپنے سائز سے بھی بڑے پرندوں کو سر پر ایک ہی وار کرکے مار پھینکتی ہے۔ لیکن الو چونکہ رات کو حملہ کرتا ہے اور یہ دیکھ نہیں سکتے اس لئیے اپنے بچے کھو دیتے۔ شاہین ایک مادہ کے ساتھ ہی ساری زندگی گزارتا ہے لیکن دونوں میں سے کوئی مر جائے تو زیادہ دن اکیلا نہیں رہتا بلکہ اپنا ساتھی ڈھونڈ لیتا ہے۔
پھرا فضائوں میں گرگس اگر چہ شاہیں وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
شاہین بطور شکاری پالتو جانور:
زمانہ قدیم سے ایشیائی ملکوں اور یورپ میں اس جانور کو بطور شکاری جانور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بندوق کی ایجاد کے بعد یورپ نے تو اسکے زریعے شکار کرنا بند کردیا لیکن ایشیائی ممالک خصوصا عرب نے جدت اپنا لی۔ اب شاہین کے ذریعے شکار کرتے وقت جدید آلات کا بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ شکار درست تعداد میں حاصل ہو۔ شاہین آسمان سے شکار کو گراتا ہے اور زمین سے اسکا مالک اٹھا لیتا ہے۔ اس طرح شاہین کو استعمال کرکے شکار کرنے کے عمل کو Falconry کہتے ہیں. ان کی آنکھوں کو اکثر ڈھکا ہوا رکھا جاتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ان کی نظر بہت تیز ہے۔ یہ ایک سے دو کلومیٹر دور اڑتا ہوا پرندہ دیکھ لیتے اور اس پر جھپٹنے کے لئیے اڑان بھرنے لگتے ہیں۔ اسی لئیے شکاری شاہین کی آنکھیں ڈھانپ کر رکھی جاتی ہیں۔ ان کو ہاتھ پر بٹھانے کے لئیے بھی خاص قسم کا گائے کے چمڑے سے بنا دستانہ استعمال کیا جاتا ہے جسے Gauntlet کہتے ہیں۔ یہ اسکے سخت نوکیلے پنجوں سے ہاتھ کی حفاظت کرتا ہے۔
شاہین خطرے میں ہے:
اس کو شوقیہ شکار کی خاطر بڑے پیمانے پر پکڑا جاتا ہے اور اس کی غیر قانونی سمگلنگ کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اسکی بہت ساری نسلیں خطرے میں ہیں۔ افسوس کے ساتھ پاکستان بھی ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں اس پرندے کی غیر قانونی اسمگلنگ ہوتی ہے۔مادہ جو سائز میں نر سے بڑی ہوتی ہے اور بڑا شکار قابو کرسکتی ہے اسکی مانگ زیادہ ہوتی ہے۔ ایک مادہ 5 سے 10 لاکھ تک عرب شہزادوں کو غیر قانونی طریقوں سے پہنچائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے سندھ میں پایا جانے والا Bahri Falcon اب معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس کے علاوہ جب یہ کسی پرندے کے پیچھے لگے ہوں ، اکثر سڑک سے گزرتے ہوئے ٹرکوں، گاڑیوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ امریکہ میں ان کے لئیے خصوصی ادارے بنائے گئے ہیں جہاں زخمی شاہینوں کا علاج کرکے دوبارہ ہوا میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ زندگی کا پہلا سال انتہائی مشکل ہوتا ہے وہاں سے بچ جائیں تو 13 سال کی عمر پاتے ہیں۔
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سےہ
ہےجرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
تمام شعر عظیم مفکر و فلاسفر علامہ اقبال رح کے کلام سے منتخب کردہ ہیں۔