میرا یہ پیغام مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے قائدین کے نام ہے جو مولانا فضل الرحمان کے جلسے میں تو شریک ہوئے مگر دھرنے سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں،مجھے اس بات کا نہ تو خطر ہ ہے اور نہ ہی اس امر میں کوئی دلچسپی ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی باقاعدہ شرکت کے بغیر وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کا منصوبہ ناکام ہو سکتا ہے کہ یہ میری زندگی کا پہلا دھرنا نہیں ہے۔ میں نے نوے کی دہائی میں قاضی حسین احمد کے دھرنے میں بھی شرکت کی تھی جس کا راستہ روکنے کے لئے پیپلزپارٹی کی حکومت نے شہروں کے باہر جی ٹی روڈ پر باقاعدہ اینٹوں کی مدد سے دیواریں کھڑی کر دی تھیں مگر قاضی حسین احمد اس کے باوجود اسلام آباد پہنچ گئے تھے، برسوں بلکہ عشروں پہلے کھائی ہوئی آنسو گیس کا مزا آج تک زبان اور آنکھوں میں محسوس ہوتا ہے۔ میں نے ہزارہ برادری کا دھرنا خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا جس میں وہ اپنے پیاروں کی درجنوں نعشیں لے کر کئی روز تک بیٹھے رہے تھے اور میرے خیال میں وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے خوفناک دھرنا تھا ،طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنے ابھی کل کی بات لگتے ہیں۔
جب مجھے اس امر میں کوئی دلچسپی نہیں کہ ان دونوں جماعتوں کی شرکت کے بغیر دھرنا ناکام ہوجائے تو واقعی ہوجائے، کیا فرق پڑتا ہے کہ میں یہ کھیل عشروں سے دیکھتا چلا آ رہاہوں مگر مجھے اس امر میں دلچسپی بھی ہے اور مجھے اس کا خطرہ بھی ہے کہ اگر یہ دونوں قومی سیاسی جماعتیں اس دھرنے سے باہر ہوئیں تو پی ٹی آئی کے دماغ اس دھرنے کو دنیا کے سامنے کسی اور صورت میں بھی پیش کر سکتے ہیں بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ پی ٹی ایم اور طالبان وغیرہ کا تڑکا لگاتے ہوئے پیش کرنا شروع بھی کر دیا ہے۔ مجھے اپنے ازلی دشمن بھارت سے بھی کوئی خوش فہمی نہیں ہے جس کا میڈیا جناب عمران خان کے مطابق دھرنے کو غیر معمولی کوریج دے رہا ہے مگریہاں کچھ مقاصد اکٹھے ہوجاتے ہیں کہ اس دھرنے کو ایک سیاسی جماعت کے بجائے انتہا پسند مولویوں کا دھرنا ثابت کیا جائے۔ پی ٹی آئی یہ اس لئے چاہتی ہے کہ اس کے نتیجے میں اسے دھرنے کے شرکا کے خلاف طاقت کے استعمال کا جواز اور حمایت مل جائے گی۔ میں جب عمران خان کے ماضی کے بیانات اور موجودہ پالیسیاں دیکھتا ہوں تو قائل ہوتا ہوں کہ یہ صاحب اپنے مقصد کی خاطر کوئی بھی یوٹرن لے سکتے ہیں اور میکاولین سیاست کی کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ ان کا مقصد وزارت عظمیٰ کا حصول تھا جس کے لئے انہوں نے ہر اعلان اور ہر اصول سے بغاوت کی اور اب ان کا مقصد وزارت عظمیٰ کو بچانا ہے، وہ وزارت عظمیٰ جو ان کی زندگی کے سب سے بڑے خواب کی تعبیر ہے۔
میرا تجزیہ ہے کہ بدترین خدشات کے مطابق مولانا فضل الرحمان ڈی چوک پہنچیں یا اسلام آباد کے اہم ترین علاقوں کا گھیرا ؤ کریں دونوں صورتوں میں انہیں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی مدد کی ہرگز ضرورت نہیں بلکہ وہ یہ کام اپنے کارکنوں کی مدد سے بھی بخوبی کر سکتے ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس ملک میں قاضی حسین احمد، عمران خان، طاہر القادری اور مولوی خادم رضوی نے جس قسم کی سیاست کی بنیاد رکھی ہے اسے آگے نہ بڑھایا جائے مگر ہم سیاسی تجزیہ کاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ سب کچھ ہماری خواہشات کے مطابق نہیں ہوتا جیسا کہ ایک دل اور دماغ رکھنے والے پاکستانی کے طور پر میری خواہش تھی کہ پاکستان کی فوج اس تنازعے سے باہر رہتی۔ اس بارے بیانات کی جتنی بھی گولہ باری ہونی تھی وہ حکومت اور اپوزیشن کے بنکروں سے ہوتی۔ پاکستان کی فوج کو یہ پوچھنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں تھی کہ مولانا فضل الرحمان کی مراد کس ادارے سے ہے۔ میں لوگوں اور اداروں سے ان کے مثبت طر ز عمل کی خواہش رکھتا ہوں اور میری خواہش تھی کہ اگر کوئی ادارہ کوئی کرداراد ا چاہتا تو وہ جلتی آگ کو بجھانے کا کردار ہوتا ہے۔ ہم نے مشرقی پاکستان میں اداروں کے ذریعے سیاسی بحران ختم کرنے کا انتہائی ناخوشگوار نتیجہ دیکھا ہے۔
بھارتی میڈیا مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کو یقینی طور پر مولانا کی محبت یا ان کے کاز کی حمایت میں ہائی لائٹ نہیں کر رہا۔ اس کا پس منظر سمجھنے کے لئے آپ کو نریندر مودی اور ڈونالڈ ٹرمپ کی ان تقریروں کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ کرنا ہو گا جو انہوں نے امریکا کے مشترکہ جلسے میں کیں۔ وہ دنیا کو اسلامی انتہا پسندی سے ڈرانا چاہتے ہیں اور یہاں ان کے اور پاکستان کے حکمرانوں کے مقاصد ایک ہوجاتے ہیں۔ مجھے جناب شہباز شریف ( نواز شریف اس لئے نہیں کہ میرے خیال میں وہ نہ تو اخبارات کا مطالعہ کر پا رہے ہوں گے اور نہ ہی انہیں مسلم لیگ نون کی ایک ایجنڈے کی قیادت ابھی تک پوری صورتحال سے آگاہ کر رہی ہو گی) اور اس کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو زرداری سے کہنا ہے کہ اگر وہ دونوں اس سیاسی مہم سے آؤٹ ہو گئے تو پی ٹی آئی اور بھارتی میڈیا بہت آسانی کے ساتھ اسے سیاسی کارکنوں کے بجائے مذہبی انتہا پسندوں کا دھرناثابت کر دے گا حالانکہ جمہوریت بتاتی ہے کہ مدارس میں پڑھنے والے، سنت رسول سے سجے چہروں کو بھی سیاسی طور پررائے رکھنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ بحریہ ٹاؤن،کینٹ ، ڈیفنس اور ماڈل ٹاون کے ممی ڈیڈی بچوں اور بچیوں کو ہو سکتا ہے۔اس دھرنے کے بارے یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اس میں خواتین موجود نہیں لہٰذا یہ جمہوری دھرنا نہیں ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ دھرنے میں شامل تمام مردوں کی مائیں، بہنیں ، بیٹیاں اور بیویاںننانوے فیصد وہی سیاسی موقف رکھتی ہوں گی جو ان کے بیٹوں، بھائیوں، باپوں اور شوہروں کا ہے مگر وہ پردے کی قائل ہیں۔
اصل خدشے اور خطرے کی طرف آتے ہیں کہ آنے والے اگلے دودن بہت اہم قرار دئیے جا رہے ہیں۔ انتظامیہ نے اس وقت تک یقینی طور پردھرنے میں شریک لوگوں کی تعداد اور طاقت کا اندازہ لگا لیا ہو گا۔ مجھے احترام اور افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان کے بیان کے بعد ہماری فوج اس دھرنے میں غیر جانبدار نہیں رہی بلکہ وہ اپنی نظر میں جمہوری طور پر بنی ہوئی حکومت کے ساتھ ہیں جو حکومت کے مخالفین ( باالخصوص دھرنا دینے والوں کی نظر میں ) ہرگز جمہوری نہیں ہے بلکہ عوام کے سر پر مسلط کی گئی ہے اور اس نے اپنی نااہلی سے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس موقعے پر اگر مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی ، مولانا فضل الرحمان کے ساتھ نہیں ہو ں گے تو اس دھرنے کے شرکا کو دنیا کے سامنے اسلامی انتہا پسندوں کے اس گروہ کے طور پر پیش کیا جائے گا جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھی قبضہ کر سکتا ہے اور اس کا اسی طرح مقابلہ کرنے کی فضا ہموار کی جائے گی جیسے امریکا دولت اسلامیہ کا مقابلہ کر رہا ہے اور یوں ایک بڑا خونی سانحہ رونماہو سکتا ہے حالانکہ مولانا فضل الرحمان نے اب تک آئین اور قانون سے ماورا کوئی بات نہیں کی ( آگے کے بارے میں مجھے کچھ علم نہیں) ۔ مولانا کا الفاظ کا چناؤ ان کے مقابلے میں بہت زیادہ مہذب اور جمہوری ہے جو شلواریں گیلی ہونے ، اوئے آئی جی تمہیں پھانسی لگاؤں گا کے ساتھ ساتھ بل ادا نہ کرنے سے ہنڈی کے ذریعے رقوم منگوانے، شہر بند کرنے اور سول نافرمانی تک کی دھمکیاں دیا کرتے تھے مگر دوسری طرف ہونے والی تصویر کشی خطرناک عزائم آشکار کر رہی ہے۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتیں اگر مولانافضل الرحمان کے سیاسی موقف سے اتفاق کرتی ہیں تو انہیں اسی سیاسی مہم کو سیاسی طریقے سے انجام تک پہنچانے میںا پنا کردارادا کرنا چاہئے ورنہ کوئی بھی سانحہ ہو سکتا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کو ڈر ہے کہ وہ مولانا کی قیادت کو تسلیم کریں گی تو ان کی سبکی ہو گی مگر تاریخ کا یہی سبق ہے کہ قیادت وہی لوگ کرتے ہیں جو بہادر ہوتے ہیں اور رسک لے سکتے ہیں۔