احتجاج، دھرنے، جلسے جلوس اور اختلاف رائے کو جمہوری طرز حکومت کا حسن تصور کیا جاتا ہے، ان کے ذریعے اپوزیشن اور دیگر حکومت مخالف سیاسی جماعتیں قانون اور جمہوری اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتی ہیں۔ جب تک یہ سرگرمیاں مثبت رہیں اور حکومت کو ڈائیلاگ پر لے آئیں ، ان کے نتائج مثبت نکلتے ہیں لیکن اگر ان کا مقصد صرف اور صرف حکومت گرانا ہی تو پھریہ منفی رزلٹ کا سبب بھی بن سکتی ہیں، جو نہ صرف حکومت اور اپوزیشن بلکہ پوری قوم کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات آج کل ہمارے سیاسی منظر نامے میں نظر آرہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کا اعلان کر کے ملکی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ حکومت بظاہر اس دھرنے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم کا خیال ہے کہ مولانا کا دھرنا سات دن بھی جاری نہیں رہ سکے گا۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کی اعصاب شکنی کے بھرپور دعوو¿ں سے لیس ہیں۔ لیکن سمجھ سے باہر ہے کہ بمشکل ایک صوبے کی جماعت ملک بھر میں آزادی مارچ کا اعلان کر چکی ہے اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے، حالانکہ یہ مطالبہ بادی النظر میں ذاتی تسکین سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے کیوں کہ اس مطالبے کے پیچھے کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آرہی۔
مولانا کا موقف ہے کہ جے یو آئی قومی سطح کی جماعت ہے اور پورے ملک سے اپنے اُمیدواروں کو میدان میں لاتی ہے (حالانکہ ساڑھے تین سو اراکین سے زائد کی قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے پی کے سے محض 5، 6 نشستیں لیتی ہے، اور اس کے حاصل کردہ وٹوں کی اوسط بھی محض 2سے 3فیصد رہتی ہے۔ قومی اسمبلی کی ویب سائیٹ کے مطابق 1988ءکے الیکشن میںانہیں 2.3 فیصد ووٹ ملے، 1993ءمیں بے نظیر بھٹو کے دور میں انہیں 2.2 فیصد ووٹ، 2008ءمیں محض 2.3فیصد اور 2013ءکے الیکشن میں بھی اتنے فیصد ہی ووٹ نصیب ہوئے اور اس قدر کم ووٹوں کے ساتھ مولانا ہمیشہ اقتدار میں رہنے کے لیے پر تولتے رہے۔2018ءکی طرح 1997ءکے الیکشن میں بھی جب مولانا ہارے تھے تو اُس وقت بھی مولانا کی کیفیت ایسی ہی تھی لیکن انہیں جلد ہی ن لیگ کی جانب سے رام کر لیا گیا تھا۔
تادم تحریر مولانا کے آزادی مارچ کا کوئی واضح ایجنڈا نہیں ہے، وہ یہ بھی کہتے سنے گئے کہ وہ دھرنا دینے کے بعد اپنے مطالبات اور لائحہ عمل بتائیں گے۔محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ مولانا بغیر کسی واضح ایجنڈے کے ”آزادی مارچ“ کرنا چاہ رہے ہیں اور حکو مت کے لیے مزید مسائل بڑھانا چاہ رہے ہیں۔ اور حکومت جو پہلے ہی بہت سے محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ اُسے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے۔ اُسے معیشت اتنی خراب ملی تھی کہ حالات قابو میں آنا مشکل ہو رہے تھے۔ اسی اثنا ءمیں آئی ایم ایف کو بلایا گیا اور یہ تانگہ ان کے حوالے کر دیا گیا۔ اپنی سواریاں بھی وہ خود لے کر آ گئے اور لوگوں کو چابک مار کر گھوڑے کو کم ازکم دلکی چال تک لانے کی کوشش جاری ہے۔ بڑے کڑوے فیصلے کرنا پڑے اور مزید کرنے پڑیں گے مگر کم از کم عمران خان یہ تو کہہ سکیں گے کہ ہم نے دیوالیہ ہونے سے بچا لیا اور زیادہ تر فیصلے آئی ایم ایف والوں نے کئے جو ہمیں مجبوراََ ماننے پڑے کہ حالات ہی ایسے تھے پھر گرے اور بلیک لسٹ کا مسئلہ بھی دباﺅ کے تحت حل کیا جا رہا ہے چوروں کو پکڑکر اور منی لانڈرنگ کے بڑے بڑے کیس کھول کر دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ چوروں اور لٹیروں کے لئے کوئی این آر او نہیں ہے۔ اس پر بھی بہت سیاسی دباﺅ ہے۔ تیسرا پہاڑ مہنگائی کا ،اوپر سے ڈینگی، کچرا کنڈیاں اور سب سے بڑا سوال پنجاب میں کیا ہو رہا ہے اور کیسے؟
2018ءمیں جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو ایک ادارہ بھی منافع بخش صورتحال پر نہیں تھا، ایک پراجیکٹ بھی ایسا نہیں تھا جو منافع میں تھا، پی آئی اے 300 ارب روپے خسارے میںتھی، اسٹیل مل 200ارب روپے سالانہ خسارے میں، ریلوے 130ارب روپے خسارے میں، 18ارب ڈالر کی بیرونی و اندرونی ادائیگیاںواجب الادا تھیں، زیر گردش قرضہ 600ارب روپے سے زیادہ تھا۔ شہباز شریف کے 56کمپنیاں خسارے میںتھیں۔ ن لیگ کا کوئی ایک منصوبہ ایسا نہیں تھا جو منافع میں ہو۔ یعنی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کو ایسے قرضوں میں پھنسایا گیا، اور ایسے پراجیکٹس شروع کیے گئے جس سے پاکستان مسائل کی دلدل میں پھنستا چلا جائے۔ ایسے میں کس منہ سے یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ احتجاج کرنا چاہیے۔
موجودہ حالات میں ہر ادارہ حکومت کے لیے سر درد بنا ہوا تھا، مولانا فضل الرحمن دھرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ اور حکومت اس کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔آج جب ہر چینل کے پرائم ٹائم پر دھرنا ڈسکس ہو رہا ہے اور اسے ہائپ مل رہی ہے تو یقینا جولوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں وہ سب کچھ بھانپ بھی رہے ہیں۔ن لیگ اور پی پی پی نے مولانا کو آگے رکھنے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے وہ یقینا ناکام ہوگی کیوں کہ اب بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ ایک زمانے میں جیسے مولانا صاحب لوگوں کی توجہ بٹانے کے لیے مسرت شاہین کو اپنے مقابلے میں کھڑا کیا کرتے تھے، بالکل اسی طرح ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن کو کھڑا کیا ہے۔کیوں کہ یہ دونوں جماعتیں خود تو اس قابل نہیں ہیں کہ وہ میدان میں آسکیں اس لیے انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو کھڑا کیا ہے۔
المختصر! مولانا فضل الرحمن کا اعلان کردہ دھرنا، دھرنے کی بنیادی تحریک سے میل نہیں کھاتا۔ پورے ملک سے لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک شہر میں لانا اور پھر وہاں بیٹھ جانا ایک بڑی سرمایہ کاری اور محنت طلب کام ہے۔ مولانا کے دھرنے کا مقصد حکمرانوں سے استعفیٰ لینا بتایا جاتا ہے۔ اگرچہ عدم تشدد کا پیغام بھی دیا جا رہا ہے لیکن کیا اتنی بڑی تعداد میں مختلف شہروں سے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے بعد انہیں منظم رکھنے اور تشدد پر مائل نہ ہونے کی گارنٹی ممکن ہے؟اگر مولانا صاحب کے دھرنے کو اس پیمانے پر پرکھا جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نظر نہیں آتے۔ لیکن اس دوران ملک و ملت کا جو نقصان ہوگا کیا اس سے سب بے خبر ہیں؟
مولانا صاحب خدارا، کچھ سوچیں، اقتدار سے باہر رہتے ہوئے سیاست کا مزا چکھیں اور ذاتی مقاصد اور ضد کی خاطر ملکی مفاد اور جمہوریت کو خطرات کی نذر کرنے والی پالیسی سے گریز کریں!