معیت باری تعالیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معیت ِ ذاتی صرف دو ہستیوں کا خاصہ ہے
تحریر مولانا ممد اکرحم اعوان:
اللہ کریم قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں وھو معکم این ما کنتم ترجمہ”تم کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے“ اب بات اس ادراک کی ہے۔ہمیں یہ ادراک بھی ہو کہ اللہ میرے ساتھ ہے۔دنیا میں جو لوگ اس کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں،ان کے سارے مسائل آسان ہو جاتے ہیں اور وہ زندگی میں کبھی پریشان نہیں ہوتے۔حتیٰ کہ موت بھی آتی ہے تو مسکرا کر گلے لگا لیتے ہیں:
نشان مرد مومن باتو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست
”تجھے مردمومن کی نشانی بتاؤں کہ جب موت بھی آتی ہے تو اس کے لبوں پہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔ یہ کیفیت معیت ِ باری میں نصیب ہوتی ہے۔“ ہر شخص کو اس کی حیثیت کے مطابق اس معیت کا ادراک ہوتا ہے جتنا اس کا اللہ پر اعتمادہے، جتنی اس کے دل میں اللہ کی یاد ہے، جتنی اس کے دل میں اللہ کی محبت ہے، جتنی اس کے دل میں آقائے نامدار ﷺ کی محبت ہے، عقیدت ہے اور جتنا اتباع کرتا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا، اتنا ہی معیت ِ باری کا ادراک ہوتا جاتا ہے۔ اللہ کریم کی ذات اور اس کی صفات میں تبدیلی نہیں آتی، بندے میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔یہ چھوٹی سی مثال لیں، آپ پنکھا چلاتے ہیں۔ ایک ہی بٹن ہے، آن کرتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ رینگنے لگ جاتا ہے۔ اسی بٹن کو مزید گھماتے ہیں تو اس میں بجلی زیادہ آجاتی ہے۔ بجلی بھی وہی ہے، پنکھا بھی وہی ہے لیکن اسے اگلے نمبر پر لے جاتے ہیں تو اور تیز ہوجاتا ہے۔ اسی طرح انسان میں تبدیلی آتی ہے۔وہ ایک مقام پہ تھوڑی سی معیت محسوس کرتا ہے،دوسرے پہ اس سے زیادہ،بالآخر اسے وہ کیفیت نصیب ہوجاتی ہے کہ زندگی بھر معیت ِ باری کا احساس رہتا ہے اور یاد رہے کہ بندوں کو جو معیت نصیب ہوتی ہے وہ بندے کی صفات پر منحصر ہے۔ ان اللہ مع الصبرین۔”یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ جب تک کوئی صبر کر رہا ہے اللہ اس کے ساتھ ہے، اسے معیت ِباری نصیب ہے۔ اگر وہ صبر چھوڑ ے گا تواللہ تو ہر جگہ موجود ہے لیکن اس کے کرم سے وہ شخص محروم ہوجائے گا، معیت سے محروم ہوجائے گا کیوں کہ معیت ِ باری کا انحصار صفات انسانی ہے۔
انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام وہ ہستیاں ہیں جنھیں دائمی معیت ِ باری نصیب ہوتی ہے لیکن یاد رہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی معیت ِ ذاتی انسان کی صفات کے ساتھ مشروط ہے،وہاں انبیاء علیہم السلام کی ذات کو اللہ تعالیٰ کی معیت ِصفاتی ہوتی ہے۔مثلاً حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام جب مصر چھوڑ کر نکلے اور ساحل سمندر تک پہنچے تو پیچھے سے فرعون اپنا لاؤ لشکر لے کر پہنچ گیا۔ بنی اسرائیل نے گھبرا کرحضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا، آپ نے تو ہمیں مروا دیا۔ہم تو پہلے ہی مصیبت میں تھے، آپ علیہ السلام مبعوث ہوئے تو مصیبتیں اور بڑھ گئیں، ہمارا کوئی بھلا نہیں ہوا۔اب سامنے سمندر ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر ہے۔ سمندر میں چھلانگ لگائیں گے تو مارے جائیں گے، فرعون کا لشکر پہنچ جائے گا تو قتل ہوجائیں گے۔جب وہ گھبرائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:ان معی ربی سیھدین یہاں اللہ کا ذاتی نام نہیں لیا۔اللہ نہیں فرمایا،رب فرمایا۔میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ میرے لیے راستہ پیدا کرے گا یعنی معیت ِ باری تو ہے لیکن اللہ کی طرف سے صفاتی ہے۔
جتنی مخلوق اللہ نے پیدا فرمائی ہے،حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں جو گزر چکی ہے یا جو قیامت تک آئے گی، اس میں دو ہستیاں ایسی ہیں جنھیں معیت ِ ذاتی حاصل ہے۔غیر مشروط،نہ اللہ کی طرف سے صفات ہیں،نہ بندے کی طرف سے صفات ہیں۔ انبیاء علیہم السلام میں آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور غیر نبی میں سیدنا حضرت ابو بکر ؓ ایک ہستی امام الانبیاء اور دوسری ہستی امام الصدیقین حضرت صدیق اکبر ؓ۔قرآن کریم اس پر گواہ ہے کہ کہ جب حضور ﷺ غار میں تشریف فرما تھے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے زانو پہ سر مبارک رکھے آرام فرما رہے تھے، تو مشرکین مکہ تلاش کرتے ہوئے غار کے سامنے پہنچ گئے۔ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ پریشان ہوگئے کہ یہ حضور اکرم ﷺ کو نقصان نہ پہنچائیں، کوئی تکلیف نہ پہنچائیں،ایذا نہ پہنچائیں۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا:لاتحزن ان اللہ معنا”یقینا اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے“ حزن وہ دکھ ہوتاہے، وہ غم ہوتاہے جو محبوب کے بارے میں ہو۔جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کا غم تھا۔قرآن کریم فرماتا ہے: وابیضت عینہ من الحزن حضرت یوسف علیہ السلام کے دکھ سے ان کی آنکھیں روتے روتے سفید ہوگئیں۔اسی طرح حضور ﷺ نے فرمایا کہ یقینا اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے ادھر بندے کی صفت بھی نہیں ہے،ادھر رب کی صفت بھی نہیں ہے۔اللہ کی ذات ہے اور ادھر بھی دو ذاتیں ہیں۔پوری اولادِ آدم علیہ السلام میں،جو گزر چکی یا آنے والی ہے،صرف دو ہستیوں کو معیت ِ ذاتی نصیب ہے، امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور امام الصدیقین سیدنا ابوبکر صدیق ؓ۔یاد رہے کہ امام الصدیقین صرف حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا لقب ہے، اسے کسی دوسری جگہ استعمال نہ کیا جائے۔جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا وصال ہوا اور سیدنا فاروق اعظم ؓ سربراہ خلافت ہوئے توعرض کیا گیا،یا خلیفہ رسول اللہ ﷺ! فرمایا: نہیں،خلیفہ رسول اللہ ﷺ صرف حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو سجتا ہے ہم آپ ؓ کو کیا کہیں؟ فرمایا: مجھے امیرالمومنین کہو، خلافت کا لقب صرف حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خصوصیت ہے۔ اسی طرح امام الصدیقین کسی دوسرے پہ نہیں سجتا،صرف حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا لقب ہے۔کائنات میں یہ دوہستیاں ہیں جنھیں معیت ِ ذاتی حاصل ہے، ان کی بھی ذات ہے، ادھر اللہ کی بھی ذات ہے۔