معرفت باری تعالیٰ
مولانا محمداکرم اعوان:
تمام احکام شریعت اور تمام عبادات،سب کا حاصل اور سب کاثمر یہ ہے کہ قرب الٰہی حاصل ہو،اللہ کی رضا نصیب ہو، انسانی زندگی اپنا مقصد پالے ارشاد باری تعالیٰ ہے
”میں نے جنوں اور انسانوں کواس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں“
حدیث قدسی ہے کنت کنزا مخفیا۔
میری ذات کائنات کی خالق بھی ہے،مالک بھی ہے،کائنات کو پالنے والی بھی ہے۔ میں نے زمینیں پھیلا دیں، آسمان بنا دیے اور اس پر فرشتے پیدا کر دیے جو اللہ کی نوری مخلوق تھے، جن بھی پیدا فرمائے، بے پناہ مخلوق بنادی۔
وہ خود جانے اس کی مخلوق کتنی تھی اور اب کتنی ہے لیکن ساری مخلوق میں یہ استعداد نہیں تھی کہ وہ اللہ کی ذات کوبھی پہچانیں۔ فرشتوں کو جو حکم ملتا ہے بجا لاتے لیکن اللہ کاحکم اللہ کی طرف سے القا ہوتا۔اللہ کا حکم لانے والے نہ کارندے ہوتے، نہ اللہ کسی کے روبرو ہوتا اور نہ کوئی اللہ کو دیکھتاتھا۔جو کلام الٰہی القا ہوتا ہے یا وحی ہوتی ہے یا جس طرح بھی ہو، اسے سننے کے لیے بھی کان ضروری نہیں ہوتے بلکہ وجود کا ہر ذرہ اسے سنتا ہے، سارا وجود کان بن جاتا ہے۔ فرشتے تھے،حاملین عرش ملائکہ تھے لیکن سارے حکم کے بندے تھے۔حاکم کون ہے اور کیسا ہے؟ یہ ان کا موضوع نہیں تھا۔ اس کی ان میں مجال اور جرا¿ت ہی نہیں تھی۔ کنت کنزا مخفیا۔ میں اپنی مخلوق سے ایسے چھپا ہوا تھا جیسے کوئی خزانہ چھپا دیا جاتا ہے۔ کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ اس کا راستہ کدھر ہے،اس میں سرمایہ کتنا پڑا ہے، اسے حاصل کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کسی کو میرا کوئی پتہ نہیں تھا جیسے چھپا ہوا خزانہ ہوتا ہے۔ فاحببت ان اعرف پھر مجھے یہ بات پسند آئی کہ کوئی میرا جاننے والا بھی ہونا چاہیے۔ میری مخلوق میں کوئی ایسا بھی جو مجھے جانے، مجھے سمجھے، مجھے پہچانے اور پھر میری عظمت کا، میرے جمال کا، میری قدرت کا وہ اتنا شیدا ہو کہ میرے لیے پاگل ہو جائے۔مجھے چاہنے لگ جائے،میرا قرب تلاش کرے،مجھ تک واسطے،وسیلے ،ذرائع، طریقے تلاش کرے کہ کس طرح میں اللہ کے روبرو ہوجاﺅں۔ میں اس مالک کو دیکھوں جس نے یہ ساری کائنات پال رکھی ہے۔ دنیا بنائی ہے، آخرت بنائی ہے،جنت و دوزخ بنائی ہے، زمینیں ،آسمان بنائے ہیں، دریا، پہاڑ بنائے ہیں۔ وہ کون ہے، کیسا ہے،کہاں ہے! ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے فخلقت الخلق میں نے اس مخلوق، انسان کو پیدا فرمادیا اور پہلا انسان جو زمین پر بھیجا وہ اللہ کو جانتا تھا، اللہ کو پہچانتا تھا،اللہ کی ذات سے واقف تھا،اللہ کی صفات سے واقف تھا اور پہلا انسان ہی اللہ کا نبی تھا۔ نور نبوت وہ آئینہ ہے یا وہ ذریعہ ہے جس میں جمال الٰہی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے،کلام الٰہی بھی سنا جا سکتا ہے۔و کلم اللہ موسیٰ تکلیما۔ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایسے کلام کیا جیسے کلام کرنے کا حق ہوتا ہے۔ جس طرح ہم کلام ہو ا جاتا ہے اس طرح ہم کلام ہوا اور یہ منصب صرف اور صرف انبیاءعلیہم الصلوٰة والسلام کے حصے میں آیا۔
اس بات پہ علمائے حق کا اتفاق ہے کہ جنوں میں کوئی نبی پیدا نہیں ہوا۔ انسانوں سے پہلے زمین پر جنات آباد تھے۔ جب وہ بگڑتے تو آسمانوں سے فرشتے آتے۔کسی کو اللہ کے حکم سے سزا دیتے،قتل کرتے ، قید کرتے اور کسی کو محض مار پڑتی ہے۔ جس طرح اللہ کا حکم ہوتا انھیں سیدھا کرتے اور ان میں جو کوئی نیک ہوتا،اسے حکمران بنا کے چلے جاتے۔پھر آہستہ آہستہ بگاڑ آجاتا تو پھریہی طریقہ دہرایا جاتا۔ابلیس کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ اسے فرشتوںن میں اہم مرتبہ حاصل تھالیکن وہ خود چونکہ جنوں میں سے تھا تو اللہ کریم اس کی سربراہی میں فرشتے دیتے اور یہ آکرجنوں کی اصلاح کا عمل کرتا۔بڑے فخریہ انداز میں فرشتوں کی فوج لیے ہوئے کبھی زمین پر آتا،کبھی آسمانوں پہ چلا جاتا اور یہ سلسلہ چلتا رہا،حتیٰ کہ زمین جنوں سے خالی کرائی گئی اورانھیں پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا گیا۔انھیں حکم ہوا کہ زمین چھوڑ دو اور بلند پہاڑوں میں چلے جاﺅ۔اب بھی جنوں کے جو طاقت ور قبائل ہیں،وہ بلند پہاڑیوں پہ پائے جاتے ہیں۔ جو ہمیں یہاں تنگ کرتے رہتے ہیں،یہ کوئی فالتو قسم کے ہیںلیکن ہم میں تو اتنی سکت بھی نہیں کہ ان کا سامنا کر سکیں۔زمین خالی کراکے حضرت آدم علیہ السلام کو اتاراگیا اور نسل انسانی شروع ہوئی۔پہلا انسان اس مخفی خزانے کو جاننے والا تھا۔اس راستے سے آگاہ تھا جس راستے سے وہاںتک پہنچا جا سکتا ہے اور وہ خزانہ کیا ہے۔
اللہ کون ہے اور اللہ کیسا ہے،اس کی ذات کیسی ہے،اس کی صفات کیسی ہیں،یہی معرفت ِ الٰہی ہے اور اس ساری بات کو اللہ کا نبی جانتا تھا۔ آگے اس نے دنیا کو ایک بڑی خوب صورت امتحان گاہ بنادیا۔ انسان کو مادی وجود عطا کرفرمادیا جو مادی لذتوں سے آشنا ہوتا ہے۔ اس نے دنیا بنائی جو اس کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے۔یہ وہی ہے جس نے اتنی نازک اور حساس دنیابنائی جو انسان کی سمجھ سے آج بھی بالا تر ہے۔سائنس کو ساری ترقی کے باوجود گھاس کا ایک تنکا اگانا پڑے تو سائنس مجبور ہے،آج بھی زمین سے اگانے والی کوئی مشین نہیں بنا سکی۔ ایک مچھریا مکھی کا پر ٹوٹ جائے تو آرٹیفشل بن سکتا ہے لیکن ویسا نہیں بن سکتا جیسا قدرت نے بنایا تھا کہ اس میں وہ خصوصیات بھی ہوں اورر ویسا ہی بن جائے۔اللہ کی تخلیق آج بھی الگ ہے ۔یوں نسل انسانی کا سلسلہ چلتا رہا۔انسان کا بچپن تھا،پھر جوں جوں وہ بڑا ہوا،تعداد بڑھی،شعور بڑھا،عقلیں بھی بڑھیں، ضرورتیں بھی بڑھیں اور اسی طرح پے در پے انبیاءعلیہم السلام مبعوث ہوتے رہے اور سب ایک بات پر متفق تھے،ایک بات!اللہ کی ذات اور صفات،آخرت،ملائکہ،ضروریات دین، یہ تمام نبیوں میں ایک ہے۔احکام شریعت میں فرق تھا۔حسب استعداد لوگ جس قدر معرفت کے حامل تھے، اس کے مطابق مختلف شریعتوں میں احکام مختلف تھے،تا آنکہ انسانیت بالغ ہوگئی،اپنے کمال کو پہنچ گئی۔ تب اللہ نے وہ رسول ﷺ مبعوث فرمایا جو بیک وقت ساری انسانیت کے لیے اللہ کا رسول ﷺ ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہر نبی نے اس علاقے کی ، اس قوم کی،ان لوگوں کی اصلاح فرمائی جہاں وہ مبعوث ہوئے۔ان کے جوحالات تھے،جو موسم تھے،جومزاج تھے،جو ضروریات تھیں اور عہد تھا اس کے مطابق اصلاح فرمائی۔