سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی سے سیاسی افق پر ہلچل مچ گئی ہے۔مریم نواز اپنی ٹویٹس اور تقریروں میں اپنے چچا شہباز شریف کے مقابلے میں قدرے سخت مؤقف اپنانے کی وجہ سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کا مستقبل سمجھی جاتی ہیں۔
سوموار کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی کے بعد مریم نواز ملک کے ان مختلف علاقوں میں آنے جانے اور پارٹی اجلاسوں میں شرکت کے لیے آزاد ہیں مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ بعد وہ کب ٹویٹر پر اور سیاسی میدان میں اپنی سرگرمیوں کا دوبارہ سے آغاز کر یں گی۔
عدالت نے ان کی ضمانت تو منظور کر لی مگر نیب کی طرف سے ان کے بیرون ملک جانے کے خدشے کے اظہار کے باعث انہیں اپنا پاسپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔مریم نواز سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کے والد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کی تھی۔ نواز شریف اس وقت لاہور کے سروسز ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
’مریم جارحانہ سیاست کریں گی‘
سیاسی مبصرین کے مطابق مریم نواز کی رہائی سے بہرحال سیاسی منظر نامہ کسی حد تک بدلے گا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے پاس جارحانہ سیاست کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کا عملی مظاہرہ آنے والے دنوں میں نظر آئے گا۔ کہا جا رہا ہےکہ مریم نواز جلد سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں گی تاہم ان کی پہلی ترجیح ان کی والد کی صحت ہے اور اگر ان کے والد کی طبعیت بگڑی تو وہ انہیں ملک سے باہر بھی لے جانے سے دریغ نہیں کریں گی۔
’ن لیگ کی پالیسی نہیں بدلے گی‘
سنئیر صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی کے خیال میں مریم نواز فی الحال عملی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گی کیوںکہ والد کی عیادت ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی رہائی سے پارٹی کی سیاست پر اثر پڑے گا کیونکہ وہ پارٹی کے مشاروتی عمل میں شرکت کرنا شروع کر دیں گی۔ مگر اس کے باوجود عارف نظامی کے نزدیک نواز لیگ کی موجودہ پالیسی میں زیادہ تبدیلی متوقع نہیں۔
گرفتاری اور رہائی کا پس منظر
گذشتہ برس ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد مریم نواز اور ان کے والد نواز شریف نے لندن سے آ کر گرفتاری دی تھی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں کی سزا معطل کر دی تھی۔اس سال آٹھ اگست کو نیب نے انہیں اور ان کے کزن یوسف عباس کو چودھری شوگر ملز کیس میں گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے وقت وہ اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کے لیے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں تھیں۔بعد ازاں ستمبر کی 25 تاریخ کو احتساب عدالت نے نیب کی طرف سے ان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کر دی تھی جس کے بعد انہیں جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔مریم نواز نے چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے پہلی درخواست 30 ستمبر کو عدالت میں دائر کی تھی۔تاہم اپنے والد کی علالت کے بعد مریم نواز نے 24 اکتوبر کو دوبارہ انسانی بنیادوں پر ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے متعدد سماعتوں کے بعد 31 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جسے پیر کو سنایا گیا۔دوسری طرف چوہدری شوگر مل کیس میں نیب کی زیر حراست نواز شریف کی طبعیت خراب ہونے پر انہیں گذشتہ ماہ سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔اس دوران ان کے بھائی شہباز شریف کی درخواست پر پہلے لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی العزیزیہ کیس میں آٹھ ہفتوں کی ضمانت منظور کی تھی۔