ماہنامہ مکالمہ بین المذاہب اگست 2020

ماہنامہ مکالمہ بین المذاہب (اداریہ: مدیر اعلیٰ کے قلم سے)

ماہنامہ  مکالمہ بین المذاہب  اگست 2020

قول فیصل
اداریہ: مدیر اعلیٰ کے قلم سے

محمد بن قاسم ……ہیرو یا غارتگر

تاریخ کی ایک ایسی سچائی جسے موافق،مخالف سب ہی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ محمد بن قاسم کی قیادت میں اسلامی لشکر سندھ پر حملہ آور ہوا اور اسے فتح کرکے اسلامی ریاست کا حصہ بنایا۔اور پھر اس خطے سے اسلام کا نام مٹانے کی جتنی کوششیں ہوئیں ناکام ہوئیں۔اسلام اس خطے کی زندہ حقیقت اور غالب تہذیب و دین ہے۔ اس طرح کا غالب دین کہ اس خطے میں بسنے والے ایسے لوگ اور ایسی تحریکیں جن کے افکارو عقائد اسلام کے افکار وعقائد سے صریحاً متضاد اور متصادم ہیں۔ مثلاً:
سبائی تحریک کے جانشین:
بوہرہ،بہائی،نور بخشی،ذکری،اثناعشری، اسماعیلی وغیرہ وغیرہ۔انہیں بھی یہاں زندگی گزارنے کے لیے اسلام کاہی لبادہ اوڑھنا پڑا اور ان کے لیے اسلام کے ساتھ دشمنی کے باو جود اسلام کے ساتھ وابستگی کااظہار ایک مجبوری بن گیا۔محمد بن قاسم سے شکست خوردہ قوم اور ذہنیت نے اسلام اور مسلمانوں کے اس ہیرو کی کردار کشی کے لیے پہلے دبی دبی زبانوں میں لیکن اب مینڈکوں کی سی آوازوں سے اس حملے کو ہندوستان کی دولت پر قبضے،توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل،اور اسلامی ریاست کے ایسے مفرور خاندانوں کے تعاقب کا نام دینا شروع کیا ہے۔جنہوں نے اسلامی ریاست کے مبینہ مظالم سے بچنے کے لیے راجہ داہر کے ہاں پناہ لے رکھی تھی۔ضرورت محسوس ہو ر ہی ہے کہ محمد بن قاسم کے حملے کا بے لاگ تجزیہ کیا جا ئے۔ کہ یہ لشکر کشی۔
مسلمان تجارتی قافلوں کو سندھی بحری قزاقوں کے ہاتھوں لٹنے اور مسلم خواتین کے را جہ داہر کی قید میں مجبورو بے بس ہو جانے اور ان کی فریاد کے نتیجہ میں تھی۔اور ہندوستان کے لیے شخصی،ظالمانہ استحصالی نظام سے نجات اور کفرو شرک سے پاک عادلانہ اسلامی نظام کے قیام کی طرف پیش قدمی تھی جو اس خطے کے لیے اسلام کے نورسے منوّرہونے کا باعث بنی اور سندھ باب الاسلام قرار پایا۔جیسا کہ مسلم مورخین نے قرار دیا ہے۔
یا پھراس خطے کی جائز،رعایا کی امنگوں کی محافظ،پُرامن،منصف مزاج،حکومت پر غا رتگری تھی جس کے نتیجے میں ناحق خون بہایا گیا۔اموال لوٹ کر عرب اسلامی ریاست کی طرف منتقل کیے گئے۔راجہ داہر کو قتل کر کے اس کے خاندان کی شہزادیوں کو باندیاں بنا کر جنسی ہوس کا نشا نہ بنایا گیا۔جیسا کہ یہاں کے قوم پرست، لبرل،اور دھرتی ماں کی عزت و آبروکی حفاظت کے علمبردارکہہ رہے ہیں۔
خصوصی توجہ
اسلام اور اسلام کا ہر ہیرو،اسلام دشمن قوتوں کی نظر میں غارتگر اور غاصب ہے اوراس کے لیے ایسی کہانیاں تراشی گئیں کہ جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔یہود،نصاریٰ، ھنود،مجو س کی طرف سے پیغمبراسلام سید المرسلین خاتم المعصومین حضرت محمد ﷺسے متعلق تراشی گئی کہانیوں کو ایک طرف رہنے دیجیے ایک کہانی تراش کر امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق اکبرؓپر غصب کر نے کی تہمت لگائی گئی سیدنا حضرت عثمانؓ اور سیدنا حضرت امیر معاویہ ؓ پر کنبہ پرور،خائن،اقرباء نواز، اقتدار پرست،برسرمنبر خطبوں میں عظیم شخصیتوں کو گالیاں دینے کا الزام عائد کیا گیا۔یہ سب کچھ پھر تاریخ قرار دیا گیا۔اس طرح کی کہانیاں، خلافت کے تمام ادوار میں خلفاء اسلام کے خلاف تراشی اور عام کی جاتی رہیں۔اس کے پیچھے یہود کی شاطرانہ چالیں تھیں۔ان قوتوں نے رسالت اور خلافت سے شکست کھائی تھی۔ یہ قوتیں اولاً عبد اللہ بن سباکی قیادت میں اسلام اور مسلمانوں کے نظامِ خلافت پر حملہ آور ہوئیں پھر باقاعدہ ایک نظام ایک تحریک،ایک مذہب،ایک طرزِ عمل کا روپ دھار لیا۔ جسے ہم سبائی تحریک کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ قوتیں صحابہ کرام ؓاور خلفاء اسلام پر طعن و تشنیع کے ذریعہ مسلسل اسلام سے جنگ آزما ہیں۔
اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
جائزہ:
اس بات کاکہ یہ لشکر کشی ہندو راجہ داہر کے ہاں سیاسی پناہ حاصل کرنے والے سادات۔اہلِ بیت خاندانوں کے تعاقب کے لیے تھی کہ پہلے راجہ داہر سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا جو اس نے نا منظورکیا تو یہ لشکرکشی کی گئی۔ اور یہ سادات وہ تھے جنہوں نے بنو امیہ کے مظالم سے تنگ آکر سندھ ہندوستان کی طرف نقل مکانی کرلی تھی۔ اور راجہ داہر کی پناہ میں تھے۔
تعریف:
سادات،اہلِ بیت کہا گیا ہے امیرالمؤمنین حضرت علیؓ کی فاطمی اولاد کو اور یہ ہی اہلِ بیت کہلاتے ہیں۔(عندالروافض)یہ خاندانِ نبوت ہے۔حضرت علیؓ سن 40ہجری میں شہید ہو گئے مشہور تاریخی روایات کے مطابق نجف اشرف میں آسودہ خاک ہیں سیدناحضرت حسنؓ سن 50ہجری میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے،مدینہ طیبہ میں مدفون ہیں۔ سیدنا حضرت حسین ؓسن61 ہجری میں میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔آپ ؓ کے ساتھ حضرت حسن کی اور خودآپ کی اپنی نرینہ اولاد کے تمام افراد شہید ہو گئے۔خاندانِ نبوت کی معزز ومحترم خواتین بھی اس قافلے میں شامل ہوئیں۔اس پورے خاندان میں سیدنا علی بن سیدنا حسین(زین العابدین) کی زندگی کی اللہ نے حفاظت فرمائی کہ وہ بیمار تھے۔ خیمہ سے نکل کر میدان ِکر بلا میں جنگ لڑنے کی ہمت نہ تھی۔
حضرت زین العابدین اور خواتین پر مشتمل قافلہ پہلے کوفہ۔ پھر دمشق پہنچایا گیا۔ یزید بن معاویہ نے اس قافلے کا احترام کیا۔خواتین کو اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ ٹھہرایا۔حضرت زین العابدین کو اپنی صحبت میں رکھا۔واقعہ کر بلا پر افسوس کا اظہار کیا۔جس کا جی چاہے وہ اس طرزِ عمل کو سیاست اور مکاری کا نام دے اور جس کا جی چاہے وہ اسے خونی رشتوں کا احترام اور مقدس خاندان کے ساتھ دلجوئی کا نام دے کہ بنو امےّہ اور بنو ہاشم آخر قریش تھے اور ایک دادا کی اولاد ہونے کے ناطے اور خاندان نبوّت کے تقدس کی بنا پر اس نے اپنے دل سے یہ حسن سلوک کیا ہو۔اور یہ خاندان عزت و احترام کے ساتھ بحفاظت مدینہ منوّرہ پہنچایا گیا۔کہ یہ خاندان بڑے ہی احترام کے لائق تھا۔حضرت زین العابدین یہیں ۵۹ ھ؁میں فوت ہوئے۔ حضرت علی زین العابدین کے صاحبزادے حضرت محمد الباقر ۴۱۱ھ؁میں جب کہ ان کے عظیم فرزند ارجمند حضرت جعفر الصادق ۸۴۱ھ؁میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔
دوسری طرف اس حقیقت سے انکار کس کے بس میں ہے کہ بنو امیّہ کا دور خلافت۱۴ھ؁میں حضرت امیر معاویہؓ سے شروع ہوا۔اور۷۲۱ھ؁میں خلیفہ مروان الثانی بن محمد پر ختم ہو گیا۔خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان ۶۸ھ؁میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔خلیفہ سلیمان بن عبدالملک بن مروان نے زمام خلافت ۶۹ھ؎ میں سنبھالی اور پہلی صدی ہجری کے اختتام پر اموی خاندان کے چشم وچراغ حضرت عمر بن عبدالعزیز۹ ۹ھ ؁میں تخت خلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر محمد بن قاسم کی سندھ پر یلغار،خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کے حکم پر واپسی اور قید میں وقت گزارنے کا دورانیہ تو ظاہر ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزکے خلیفہ بننے سے پہلے مکمل ہو چکا تھا۔
کوئی،مفروضوں کی بنیاد پر نہیں کسی مستند حوالے اور ثبوت سے یہ تو بتائے کہ اس دوران سادات،اہل بیت، اور قریش کے کسی خاندان یا کسی ایک فرد نے بنو امیّہ کے مزعومہ مظالم سے تنگ آکر جزیرۃالعرب سے ہجرت کی ہو اور راجہ داہر کے پاس سندھ پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ خاندان نبوّت پورے امن و سکون،عزت و احترام اور اپنی آزاد مرضی کے ساتھ اپنے مولد ومسکن میں قیام پذیر رہاخلافت اورامت مسلمہ میں ان کا احترام کیا جاتا رہا۔دلی عقیدت اور اموال ان کے قدموں پر نچھاور کیے جاتے رہے۔ اور اس کے علوم کا فیض مکہ معظّمہ،مدینہ منورہ اور اسلامی ریاست سے ہی اسلامی دنیامیں پھیلتا رہا۔
اب بتا یا جائے کہ محمد بن قاسم اور خلیفہ ولید بن عبدالملک پراس الزام کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے۔
ذاتی کردار
محمد بن قاسم کو جب خلافت کی طرف سے اس مہم پر روانہ کیا گیا،اس وقت ان کی عمر ۲۳ سال تھی اور وہ کئی جنگوں میں داد شجاعت دے چکے تھے، پابند صوم و صلوٰۃ،تہجد گذار،نیک نفس،منصف مزاج،کمزور اور دکھی انسانیت کے ہمدرد وغمگسارہونے کے ساتھ ساتھ مدبّر،منتظم، اپنی ماتحت افواج میں کمال کے نظم و ضبط اور جنگی حکمت عملی کو بہتر انداز میں اختیار کرنے والے جرنیل تھے۔
خیر مقدم
راجہ داہر کی قوت کو محمد بن قاسم نے اسلامی قوت کے بل بوتے پر شکست دی اور اس دھرتی پر ایک مسلم فاتح کے طور پر انہوں نے قدم رکھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ راجہ داہر کے ظلم میں پسنے والی ہندوستانی قوم نے اس عظیم فاتح کو اپنے لیے نجات دہندہ سمجھا اور اس کا خیر مقدم کیا باوجود اس کے کہ یہاں اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔اور یہ فاتح اس دین کا علمبردار تھا جو عرب سے اسلام کے نام پر متعارف ہوا۔لیکن مندروں،پنڈتوں،برہمنوں،راجوں،مہاراجوں،اور ان کے سرکاری کارندوں کے ہاتھوں ان کی عزت و آبرو،مال و دولت،اور زن زر زمین جس طرح پامال ہو رہی تھی اس فاتح کے اس سرزمین پر فاتحانہ قدم رکھنے کی دیر تھی کہ انھوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر محمد بن قاسم نے یہاں کی رعایاکے لیے ان کے مذہب،بودوباش،طرز معاشرت اور دیگر تمام معاملات میں آزادی اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گذارنے کا حق دیا اور اسلامی عدل و انصاف کے نظام کو رائج کر کے کمزوروں کو توانا طبقوں کے استحصال سے نجات دلائی۔
ظلم کرنے والوں کوان کے ظلم کی سزا دی تو یہاں کی ہندو آبادی نے اپنے مذہبی خیالات کے مطابق اسے بھگوان کا اوتار اور عظیم دیوتا سمجھا۔کہ اس طرح کے بنیادی اور اجتماعی اوصاف کا مالک کوئی انسان نہیں،دیوتا اور مہاتما ہی ہو سکتا ہے۔
چنانچہ کسی مورخ کو اس سے انکار نہیں کہ سینکڑوں مقامات پر ہندو مذہب کے لوگوں نے محمد بن قاسم کے مجسمے بنا ئے اسکے بت تراشے اور انہیں اپنے مندروں میں سجا کر،اس کی پرستش اس طرح شروع کردی جس طرح ہندو مذہب میں بتوں کی پرستش ہو رہی تھی۔
یہ نکتہ ہے جس کی خبر جب خلافت اسلامیہ تک پہنچی تو خلافت کو ایک انتہائی تلخ فیصلہ کرنا پڑا۔محمد بن قاسم،خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم سے ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تھے،وہ اب اس دنیا میں نہیں تھے ان کے جانشین ان کے بھائی سلیمان بن عبدالملک مسند خلافت پر جلوہ افروز تھے یہ خلفاء اسلام کے مزاج اور اس کے عقائد کے نگہبان تھے۔
اسلام کے نظام خلافت کو بد نام کرنے والوں نے اس پر جھوٹی کہانیاں تراشیں اور اپنے روحانی آباء،یہود کی طرح دور ازکار،اسباب بیان کر کے اپنی شاطرانہ چالوں سے انہیں تاریخ کا حصہ بنایا۔تاریخ کے اوراق کو اور اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کر لیا۔جو کہانیاں بیان کی گئیں،کوئی ان کی حقیقت کو ثابت نہیں کر سکتا۔
معاملہ یہ تھا کہ جب خلافت تک یہ خبریں پہنچیں کہ سندھ کے لوگوں کی موروثی مشرکانہ ذہنیت نے محمد بن قاسم کے بت تراش کرانہیں اپنے بتکدوں میں رکھنا شروع کر دیا ہے ایک اور بت کا اضافہ کرلیاہے تو خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے اسلامی مزاج نے اس مشرکانہ ذہنیت پر ضرب ِکاری لگانے کے لیے اسی سنت کو تازہ کیا جو امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق اعظم ؓ نے قائم فرمائی تھی کہ بیعت رضوان کے مقام پر موجود اس درخت کو کٹوا دیا جسے شجر بیعت رضوان کہا جاتا ہے قرآن مجید میں اس کا ذکر ہے۔اور عظیم سپہ سالار حضرت خالد بن ولید ؓ کو عین حالت جنگ میں ان کے منصب سے معزول کر کے عام عام سپاہی کے طور پر جنگ میں شریک رہنے کا حکم دیاتھا۔حضرت عمر فاروق اعظم ؓ کے اس طرز عمل کے مطابق خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے محمد بن قاسم کو اس مہم سے واپس بلا کر یہ ثبوت پیش کیا کہ عبادت کے لائق کوئی سپہ سالار یا فاتح نہیں ہوتا عبادت کے لائق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے محمد بن قاسم جیسے ان گنت افراد کو اپنی نصرت وتا ئید سے نوازتے ہوئے فتح و کامرانی سے ہمکنار کیا اور مظلوم اقوام کو کفر کے ظالمانہ نظام سے نجات دلا کراسلام کے عادلانہ نظام کے سائے میں زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔راجہ داہر کی قید میں،مسلمان تاجروں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس لشکر کو روانہ کرنے کا مقصدجہاں مسلمان تاجروں کو رہائی دلانا تھا وہاں سندھ ہندوستان کو اسلام کے نور سے منوّر کرنا اور اسے شرک کی ظلمتوں سے نکال کر توحید باری تعالیٰ کی روشنی فراہم کرنا تھا۔
نا قابل برداشت ہے کہ اس عظیم سپہ سالار کی پرستش شروع ہو جائے اور خلافت خاموش رہے۔
چنانچہ محمد بن قاسم کو تو واپس بلا لیا گیاالبتہ،اسلام،یہاں اپنی پوری آب و تاب اور پوری سچائی کے ساتھ موجود رہا اور موجود ہے۔یہ فیضان ہے اسلامی خلافت کا جو یہاں عظیم مجاہد،سپہ سالار حضرت محمد بن قاسمؒکے ذریعے اس خطے میں پھیلا اور پھیلتا جارہا ہے اسلام کی اشاعت و تبلیغ کی ایک ایسی بنیاد ۴۹ھ؁میں رکھی گئی،جس پر عظیم عمارت قائم ہوئی۔
آج اسلامی تہذیب،علوم نبوت،توحید باری تعالیٰ،سنت رسول اللہ ﷺ،آثار صحابہ کرام ؓکی جلوہ آرائی جو اس خطے میں موجود ہے۔ مساجد،مدارسِ دینیہ،خانقاہوں اور عملی تربیت گاہوں کی صورت میں۔۔جو نظام ترقی، اسلام کے دفاع اور پوری دنیا میں جذبہ جہاد کی آبیاری جو یہاں سے ہو رہی ہے اس پر سبائی تحریک کے وارثوں،لبرل ازم کے علمبرداروں،قوم پرستوں اور جغرافیے کی پرستش کرنے والوں کو اگر تکلیف محسوس ہورہی ہے اور وہ محمد بن قاسم کے بہانے اسلام کے نظام خلافت کو طعن و تشنیع،دشنام طرازی اورتبرّابازی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔تو اسے ان کی فطری کمزوریوں کی مجبوری کا نام ہی دیا جاسکتا ہے۔
حضرت محمد بن قاسم ؒ،اسلام کے ہیرو،عظیم مجاہد،اور اس خطے کی مظلوم اقوام کے محسن تھے اور تاریخ انہیں ہمیشہ انہی ناموں سے یاد رکھے گی۔

Leave a Reply