سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ مولانا محمد اکرم اعوان

قرآن کی فضیلت

قرآن کی فضیلت

مولانا محمد اکرم اعوان:

رمضان المبار ک میں اللہ کا کلام نازل ہوا۔ اللہ نے بندوں کومخاطب فرمایا،بندوں سے کلام فرمایا اور کلام کی حالت یا کیفیت کے اثرات رکھتا ہے۔اس لیے فرمایا گیا کہ اگر کوئی آدمی جسے بدکاروں یا گناہ کا روں کی صحبت میں جا کر یہ اندیشہ ہو کہ ان کی باتیں اس پہ غالب آ جائیں گی، وہ بھی ان جیسا ہوجائے گا،اگریہ خطرہ ہوتو وہ تبلیغ کے لیے بھی نہ جائے،اس سے احتراز کرے، ان سے دور رہے۔ہاں! کوئی ایسا شخص جسے یہ خطرہ نہ ہو کہ ان کی باتیں مجھ پہ غالب آجائیں گی بلکہ جسے یہ امید ہو کہ میری بات ان پر اثر کرے گی تو اس پر تبلیغ فرض ہے۔ وہ ضرور جائے، تبلیغ کرے، دین کی بات کرے، ہر طرح کے لوگوں سے ملے، ان سے بات کرے اور انھیں سمجھانے کی کوشش کرے۔جب دوآدمی آپس میں بات کرتے ہیں تو مزاجاً طبعاً جو کمزور ہوتا ہے، وہ دوسرے کی بات کا اثر لے لیتا ہے۔ آپ کسی ایک آدمی کو جوارویوں کے ساتھ چھوڑدیں، کچھ عرصہ رہے گا تو وہ بھی جواری بن جائے گا۔ ان کی باتیں، ان کی حرکات اس پہ اثر کرجائیں گی۔ اسی طرح کسی کو نیکوں کی مجلس میں چھوڑ دیں تو رفتہ رفتہ وہ نیکی کی طرف مائل ہوتا چلاجائے گا۔ یہ حال تو ایک عام آدمی کی بات کا ہے اور جب اللہ کریم جل شانہ کلام فرمائیں تو اس کی عظمت کی کیا بات ہے!جس نے وہ کلام سننا ہے اس نے توضرور مغلوب ہونا ہے اور اسی رنگ میں رنگے جانا ہے۔ اسی لیے کفار کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ یہ گونگے، بہرے ہیں یہ سنتے سمجھتے ہی نہیں۔نبی کریم ﷺ سے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: ینظرون الیک وھم لا یبصرون آپ ﷺ کی طرف نگاہیں گماتے ہیں لیکن آپ ﷺ کو دیکھ نہیں پاتے۔ انھیں اپنے شہر مکہ کا، اپنے قبیلے قریش کا عزیز،محمد بن عبداللہ ﷺ تو نظر آتا ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ ان کی نگاہ میں نہیں آتا،اسی لیے آپ ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ایسے بد نصیب ہیں اور ان کی نگاہ ایسی کمزور پڑ گئی ہے کہ ینظرون الیک آپﷺ کی طرف نگاہیں تو پھیرتے ہیں وھم لا یبصرون آپ ﷺ کو دیکھ نہیں پاتے۔آپ ﷺ کی شان، آپ ﷺ کی حیثیت، آپﷺ کی عظمت سے آشنا نہیں ہوتے۔ اسی طرح جب حضورﷺ کلام حق ارشاد فرمارہے ہوتے تھے، صحابہ تلاوت کرتے تھے تویہ آوازتو سنتے تھے اور منصوبے بھی بناتے تھے کہ جب کوئی قرآن پڑھ رہا ہوتو تم شور کرو تاکہ اس کی آواز دوسرے نہ سنیں اور کسی پر اثر نہ ہو۔ یہ سارے منصوبے تو بناتے تھے لیکن اللہ کریم فرماتے ہے ہیں کہ خود گونگے بہرے تھے، سن ہی نہیں سکتے اور جو سن لیتا ہے وہ اس رنگ میں رنگا جاتاہے۔ یہ اللہ کریم کے کلام کی عظمت ہے اور کتنی بڑی بات کہ اللہ رب العالمین نے اس مشتِ غبار کو، انسان کو خطاب فرمایا۔
قرآن ایسی حقیقت ہے جس کی نظیر کہیں مل نہیں سکتی۔ھدی للناس قرآن کی خصوصیت یہ ہے کہ اولاد آدم جہاں بھی ہے، جتنی بھی ہے اور جس حال میں بھی ہے، اس سب کے لیے ہدایت ہے۔ انسان مدنی الطبع ہے،مل جل کر رہنے والا ہے،ایک دوسرے پہ اس کا انحصار ہے، ایک دوسرے کا محتاج ہے۔ اس کے مل جل کر رہنے سے مختلف قبیلے،اقوام،پھر ممالک،حکومتیں،ریاستیں،علاقے وجود میں آئے۔مختلف آب و ہوا،مختلف رنگ، مختلف قد کاٹھ اور مختلف زبانیں ہیں۔ علاقے مختلف،موسم مختلف،کھانے مختلف،مزاج مختلف، سوچنے کی استعداد مختلف، علمی استعداد مختلف، وجود کی طاقت مختلف غرض بے شمار اختلافا ت ہیں لیکن اس کے باوجود انسان ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ہرانسان دوسرے سے الگ ہے۔کوئی دوبندے دنیا میں ایسے نہیں جن کی ہرچیز ملتی جلتی ہو، جن کی سوچ کا معیار ایک ہو، جن کے علم کا معیار ایک ہو، جن کے بولنے کا انداز ایک ہو، جن کا قد کاٹھ ایک ہو،جن کی شکل ایک ہو۔ہربندہ دوسرے سے الگ ہے لیکن انسان کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ ممکن نہیں، اسے مل جل کر رہنا ہے۔
حضور اکرم ﷺ سے پہلے جتنے نبی مبعوث ہوئے اورجتنی کتابیں نازل ہوئیں وہ مختلف علاقوں، شہروں یا قوموں کے لیے تھیں اور مختلف زمانوں کے لیے تھیں۔ انسانیت ترقی پذیرتھی۔ بچپن سے جوانی کی طرف رواں تھی، اس کے حالات بدل رہے تھے۔ ایک بچہ جو گھٹنوں کے بل چلتا ہے اس کی ضرورت اور ہے اور جوابھی چلتا نہیں اس کی ضرورت اور ہے۔ جو چلنا پھرنا شروع کردیتا ہے اس کی ضرورتیں اور ہیں اور جو جوان ہوجاتا ہے اس کی ضروتیں اور ہوتی ہیں۔ا سی طرح انسانیت بھی پروان چڑھ رہی تھی لیکن اللہ نے اسے نور نبوت سے محروم نہ رکھا۔ ہر آبادی میں، ہر علاقے میں، ہرقوم میں مسلسل انبیاء علیہم السلام الصلوٰۃ والسلام تشریف لاتے رہے اور ہر نبی دین اسلام کی تبلیغ کرتا رہا۔ہر نبی نے توحید باری کی تبلیغ کی، اپنی رسالت کی تبلیغ کی اور اس وقت کے لیے جو احکام الٰہی موزوں تھے، وہ پہنچائے۔پھر ایسا زمانہ آیا کہ انسانیت اپنے کمال کو پہنچ گئی۔ نوع انسانی اپنی بلوغت کو پہنچ گئی۔ اب اس میں بالغ ہونے کے بعد مزید کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں تھی تو اللہ کریم نے نبی اکرم ﷺ کو آخری نبی بناکر مبعوث فرمایا، ساری انسانیت کے لیے، بیک وقت اور یہ پہلی بار ہوا،۔ روئے زمین پر بسنے والی ساری قوموں کے لیے سارے لوگوں لیے، سارے افراد کے لیے، ایک ہی رسول اور ایک ہی کتاب۔
قرآن حکیم کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی ایک زمانے کے لیے نہیں ہے۔ جب تک دنیا آباد ہے اور سورج طلوع و غروب ہورہا ہے، قرآن حکیم ہی کتاب ہدایت ہے۔ اس نے زندگی کے ایسے مکمل اصول و قوانین دیے ہیں جو دنیا کے ہر فرد کے لیے بہترین اور قابل عمل ہیں۔ کسی قوم کے لیے پڑھے لکھے اور بڑے چنے ہوئے دانش ور کوئی قانون و ضابطہ بناتے ہیں لیکن وہ قانون و ضابطہ بھی حرف آخرنہیں ہوتا۔جب اس کا نفاذ ہوتا ہے تو اس میں پھرتبدیلیوں کی ضرورت پیش آتی ہے اور تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ اللہ کریم نے جو قانون بنایا، وہ ساری کائنات کے لیے بنایا۔ ان علاقوں کے لیے بھی بنایا جہاں چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات ہوتی ہے، ان علاقوں کے لیے بھی بنایا جہاں ہمیشہ سردی ہوتی ہے، ان علاقوں کے لیے بھی بنایا جہاں ہمیشہ گرمی ہوتی ہے۔ مشرق مغرب،شمال جنوب میں بسنے والے تمام لوگوں کے لیے بنایا۔ ان کی زبانیں مختلف ہیں ان کے مزاج مختلف ہیں، عملی استعداد مختلف ہے،غذائیں مختلف ہیں، دن رات مختلف ہیں، ایک جگہ دن ہے تو دوسری جگہ رات ہے،موسم مختلف ہیں،اس کے باوجود یہ ایسا جامع اور معتدل قانون ہے، آسان ترین طرز حیات ہے،پاکیزہ ترین طرز حیات ہے،مبارک ترین طرز حیات ہے کہ اس کے مطابق زندگی گزارنے والا نہ صرف اس دنیا میں خوش حال رہتا ہے، خوش رہتا ہے، اللہ کی رحمتوں کا مرکز رہتا ہے بلکہ دوسری دنیا میں بھی آنے والی ہمیشگی کی زندگی میں بھی کامیاب رہتا ہے۔قرآن کوئی معمولی چیز نہیں ہے، کوئی معمولی کتاب نہیں ہے، کوئی عام بات نہیں ہے،۔ یہ اللہ کریم کا ذاتی کلام ہے اور اللہ کی ساری مخلوق کے لیے ہے۔

(سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ … مولانا محمد اکرم اعوان)

قرآن کی فضیلت” ایک تبصرہ

Leave a Reply