اسلام آباد:متحدہ اپوزیشن ایک کنٹینر پر تو اکٹھی ہو گئی مگر مولانا فضل الرحمٰن کے اسمبلیاں ختم کر کے نئے انتخابات کے مطالبے پر دوحصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپا رٹی نے فضل الرحمٰن کے مذکورہ مطالبہ کی نہ صرف کھل کر مخالفت کی ہے بلکہ یہ واضح طور پر کہہ دیا کہ ان ہائوس تبدیلی کیلئے ہم مکمل سپورٹ کرینگے ، اسکے سوا کسی آ پشن میں ساتھ نہیں ہونگے ۔ دوسری جانب فضل الرحمٰن کی طرح اسفند یار ولی اور محمو د خان اچکزئی بھی ہر صورت اسمبلیوں کا خاتمہ اور نئے الیکشن چاہتے ہیں اور رہبر کمیٹی کے اجلاسوں اور دیگر میٹنگز میں بھی یہی مطالبہ انکی طر ف سے رکھے جاتے رہے ۔ جب اے این پی کا جلوس اسلام آباد پہنچا تو اسفند یار ولی نے واضح طور پر اپوزیشن کے رہنمائوں کو کہا تھا کہ وہ نئے انتخا بات کی بات کرینگے ۔ رہبر کمیٹی کے اہم رہنمائوں کے اجلاس میں کئی مرتبہ تلخ کلامی بھی ہوئی اور فضل الرحمٰن کے مطالبے کے جواب میں کہا گیا کہ ہم کیوں کوئی ایسا مطالبہ لیکر آ ئیں جو پورا نہ ہو اور جمہوریت کو خطرہ ہو ۔ اصرار کے باوجود پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت نے نئے الیکشن کی بات کرنے سے انکار کر دیا ۔ فضل الرحمٰن نے شو کو کامیاب بنانے کیلئے اپوزیشن رہنمائوں کی تقاریر تو کرائیں مگر وہ شہباز شریف سے سخت نالاں ہیں، غصہ کے اظہار کیلئے جان بوجھ کر شہبا زشریف کی تقریر شروع ہونے پر پیچھے چلے گئے تھے جبکہ بلاول بھٹو کی تقریر کے وقت ساتھ کھڑے رہے بلکہ انکے کان میں سرگوشیاں بھی کرتے رہے ۔اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ فضل الرحمٰن بہتر سے نوے گھنٹوں میں واپس چلے جائینگے اور دو مطالبات کچھ حلقوں کو کھولنا اور پولنگ سٹینشزپر آ ئندہ کون ڈیوٹی دیگا، پر کچھ معاملات طے ہو سکتے ہیں…….
