سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ مولانا محمد اکرم اعوان

عبادت اور تقویٰ

عبادت اور تقویٰ

: تحریر مولانا محمد اکرم اعوان:

عبادت کامفہوم کیا ہے؟ چونکہ ہم صرف نماز روزے کو‘ نفلی عبادات کو یا حج و صدقات کو فرض ہوں یا نفل ہوں‘ اُسی کو عبادت سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ جوبھی کام اللہ کریم کی اطاعت میں کیا جائے‘ اُس کی رضا کے لئے خلوص سے کیا جائے‘ ہر وہ کام عبادت ہے۔ روزی جائز طریقے سے کمانا عبادت ہے‘ بال بچوں کو حلال روزی کھلانا عبادت ہے‘ اپنے رہنے کے لئے جائز وسائل سے گھر بنانا عبادت ہے‘ زندگی کا ہر وہ کام جو حدود شرعی کے اندر کیا جائے اور اس نیت سے کیا جائے کہ اللہ کریم اس پر راضی ہوں‘ وہ عبادت ہے اور عبادات پر جو سب سے بڑی نعمت نصیب ہوتی ہے‘ وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ ایک ایسا رشتہ ہے کہ بندے کا اللہ کریم سے ایسا تعلق پیدا ہو جائے‘ اُس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ میرا پروردگار ہر آن‘ ہر وقت میرے ساتھ ہے‘ میری ہر حرکت کو دیکھتا ہے‘ میری ہر بات کو سنتا ہے اور ہر لمحے میری دستگیری فرماتا ہے‘ ہر دکھ میں میری مدد فرماتا ہے‘ ہر سکھ مجھے وہی عطا فرماتا ہے اور اُس کی نافرمانی سے‘ اُس کی ناراضگی سے ڈر نے لگے۔
جہاں تک عبادات کی اُجرت کا تعلق ہے جس پہ آدمی کو بڑا گھمنڈ ہو جاتا ہے کہ میں نے اتنے نفل پڑھے‘ اتنی نمازیں پڑھیں‘ اتنے روزے رکھے‘ میں بہت پارسا ہوں!: عبادات کی مزدوری تو ہم پہلے لے چکے ہیں۔ وہ ہمیں اتنا عطا کر چکا ہے کہ اگر ہمیں ہزاروں برس بھی زندگی نصیب ہو اور ہر پل عبادت میں گزار دیں تو اس نے جو کچھ عطا کیا ہے ہم اُس کا شکر تک ادا نہیں کر سکتے۔ عبادت کی توفیق بھی تو اُس کی عطا ہے۔ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں یہ توفیق بخشی کہ ہم اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ بخشش عبادات پہ نہیں کہ ہم نے نمازیں بہت پڑھیں تو ہماری بخشش یقینی ہو گئی‘ بخشش اُس کے کرم پر ہے اور اُس نے اعلان فرما دیا کہ اگر کسی کا خاتمہ کفر وشرک پر ہوگا تو اُس کی بخشش قطعی نہیں ہوگی۔ ایمان پر بھی جو مرتا ہے‘ وہ قادر ہے کہ اُس کی سزائیں معاف کر دے اور بخش دے۔ اُس کی اپنی مرضی کہ کس کو کتنا دیتا ہے۔سارے گناہ معاف کر دے تو کوئی اُس کی رحمت کو روک نہیں سکتا۔ انسان کسی بھی حال میں اس بات پہ فخر نہیں کر سکتا کہ میں نے بہت عبادتیں کیں‘ میں نے بہت محنتیں کیں لہٰذا میرا بہت کچھ اللہ کی طرف نکلتا ہے بلکہ پہلے سے ہم پراللہ کریم کے اتنے احسانات ہیں کہ شمار نہیں۔ اللہ تو وہ ہے جس نے پیدا کیا‘ عقل دی‘ شعور دیا‘ احساس دیا‘ دست و بازو دیے‘ ہماری غذا کا اہتمام فرمایا‘ ہمیں زندگی جیسی نعمت دی اور توفیق عبادت دی۔ یہ سب کچھ تو اللہ کریم سے ہم پہلے لے چکے۔انسان کو جو نعمتیں عطا کی گئی ہیں‘ ایک ایک نعمت کا بدل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہمیں ہزاروں برس بھی عمر ملے اور ہر پل عبادت میں گزار دیں تو کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اللہ کریم نے ہمیں نظر کی نعمت عطا فرمائی‘ سننے کی قوت عطا فرمائی اور ایسا عجیب وغریب نظام عطا فرمایا‘ فضائیں ہمارے لئے مسخر کر دیں‘ کائنات کو ہماری خدمت پہ مامور کر دیا۔
روئے زمین پر بے شمار نعمتیں ہمارے لئے بکھیر دیں۔ ہم جو کھاتے ہیں‘ جو پیتے ہیں‘ جو استعمال کرتے ہیں‘ جس پہ سواری کرتے ہیں‘ جوسانس لیتے ہیں‘ جو روشنی ہم تک پہنچتی ہے‘ کس کس نعمت کو گنیں گے۔ انسانی وجود ایسی عجیب مشینری ہے کہ یہ ساری چیزیں اسے بیک وقت چاہئیں اور جب تک زندہ ہیں تب تک چاہئیں‘ کسی ایک دن کے لئے نہیں اور وہ ایسا کریم ہے کہ ہر ایک کو اُس کا حصہ ہر جگہ پہنچارہا ہے۔ اُس کے تو پہلے ہی سے انسان پر اتنے احسانات ہیں کہ جتنی بھی عبادتیں کرتا چلا جائے‘ وہ اُس کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اُس کی عطا بے حساب ہے اور عبادت کرنے کی توفیق بھی تو اُسی کی عطا ہے۔ حاصل عبادت کا یہ ہوتا ہے کہ اللہ کریم کی پہچان اور معرفت نصیب ہو جاتی ہے‘ اُس کے احسانات کا احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اُس کے ساتھ محبت اور قرب کا ایک تعلق بننے لگتا ہے کہ میرا رب کتنا کریم ہے اور اُس نے میرے لئے کتنا اہتمام فرمایا۔ ایک ایک فرد کے لئے سورج کی روشنی بکھیرتا ہے‘ ایک ایک فرد کے لئے چاند کی چاندنی نچھاور کرتا ہے‘ ایک ایک فرد کے لئے بارشیں برساتا ہے اور بے حساب وبے پناہ رزق عطا فرماتا ہے۔ ہم اگر ایک دن کا بھی اندازہ کریں کہ صرف نوع انسانی کتنا رزق کھاتی ہے‘ کتنا پانی پیتی ہے‘ کتنیہوا استعمال کرتی ہے‘ کتنی روشنی استعمال کرتی ہے تو ہم اندازہ نہیں کر سکتے! یہ بے پناہ مخلوق‘ جانور‘ چرند‘ پرند سارے انسان کی خدمت کے لئے پیدا فرما دیئے۔ کسی پر سواری کرتے ہیں‘ کسی کا گوشت کھاتے ہیں‘ کسی کی کھال استعمال کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی مخلوق کتنا رزق روزانہ کھاتی ہے اور خدمت انسان کی کرتی ہے! ان سب کو تمہاری خاطر پال رہا ہے۔ کون ہے جس نے آسمان جیسی چھت ہمیں مہیا فرما دی جس کے نیچے نہ کوئی دیوار ہے‘ نہ کوئی ستون ہے‘ نہ کبھی اس کے گرنے کا اندیشہ ہے‘ نہ اُس کے پھٹنے کا کوئی ڈر ہے! پھروہ ایسا قادر ہے کہ آسمان کی بلندیوں سے بارش برساتا ہے اور ہر طرف ہریالی پھیلا دیتا ہے۔ ہر طرف پھلوں اور پھولوں کے گلشن سجا دیتا ہے اور اُس سے کون فائدہ اٹھاتا ہے! کس کی خاطر ہے یہ سارا اہتمام! اگر جانور کھاتے ہیں‘ پرندے کھاتے ہیں‘ سمندر کے جانور کھاتے ہیں تو ان سب کو کس کی خاطر پیدا فرما دیا! یہ سارے انسان کے کام آتے ہیں اور انسان کے لئے سب کو پالا جا رہا ہے‘ سب اس پر نچھاور ہوتے ہیں‘ اسی کی خدمت کے لئے ہیں۔ اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ اپنے پروردگارکی عبادت کریں‘ وہ ہمارا رب ہے ا‘ہماری تخلیق سے لے کر ابدلآبا دتک ہماری ہر ضرورت ہر ہر لمحہ پوری فرما رہا ہے۔ اُس نے نہ صرف ہمیں پیدا فرمایابلکہ ہم سے پہلے جتنے ہمارے آباء و اجداد گزرے ہیں اُن کا خالق وہی ہے۔ اُسی کا قرب تلاش کرنا چاہیے کہ زندگی کی معراج یہی ہے۔

Leave a Reply