شہباز شریف کو برادر یوسف نہیں بننا چاہیے تھا‘ماریہ میمن کا کالم 1

شہباز شریف کو برادر یوسف نہیں بننا چاہیے تھا‘ماریہ میمن کا کالم

شہباز شریف کو برادر یوسف نہیں بننا چاہیے تھا‘۔۔۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد نے یہ بات میرے ٹیلی وژن پروگرام میں کہی۔
گزشتہ چند ہفتوں سے تمام سیاسی مبصرین اس بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ اس سارے مارچ کی آڑ میں مسلم لیگ نواز اپنے معاملات درست کر رہی ہے اور حافظ صاحب کے اقرار نے مولانا صاحب سے مسلم لیگ کی بے وفائی پر مہر ثبت کر دی۔
اتوار کی رات، اڑتالیس گھنٹوں کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد، مولانا جب کنٹینر پر تقریر کرنے آئے تو لگا کہ ان کے چہرے سے گویا کسی نے رونق ہی چھین لی ہو، شکستہ آواز اور دھیمہ لہجہ ۔۔۔
اس موقع پر اتحادیوں کی جانب سے سیاسی بند گلی میں دھکیلے جانے کا غم مولانا صاحب کی باڈی لینگویج سے صاف عیاں تھا۔
مولانا سیاسی طور پر اتنے نابالغ تو نہیں کہ اندازہ نہ لگا سکے کہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز ان کے مارچ سے کھچی کھچی سی ہے۔ شہباز شریف کی ہومیوپیتھک سی تقریر کے باوجود مولانا نے اتنی دبنگ تقریر داغ دی۔ کیا مولانا اپنی تمام تر سیاسی بصیرت اور موقع شناسی کے باوجود دھوکہ کھا گئے یا دراصل اس سارے معاملے کی اینڈ گیم یہی تھی؟

مجھ سمیت ہر اینکر آپ کو یہ بات بتا سکتا ہے کہ بیشتر ٹاک شوز میں جو بحث آن ایئر ہوتی ہے اس سے کہیں زیاد دلچسپ گفتگو وہ ہوتی ہے جو بریک کے درمیان کی جاتی ہے۔ جس میں وہ باتیں بھی کر دی جاتی ہیں جو شاید کبھی آن ایئر نہ ہو سکیں۔

اسلام آباد جیسے چھوٹے سے شہر میں خبر، قیاس آرائی اور سازشی تھیوری میں تفریق کرنا بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ خبر بنانے والے، دینے والے اور گھڑنے والے تین چار ڈرائنگ رومز کے ارد گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔
ججز بحالی تحریک ہو یا 2014 کا دھرنا، کہیں نہ کہیں پس پردہ ہر کوئی اس سے با خبر تھا کہ یہ کیوں اور کس کی ایما پر کیا جا رہا ہے۔ لیکن پہلی مرتبہ یہ دیکھا ہے کہ پروگرام کے درمیان آف ایئر وقت میں ہونے والی بحث میں پروگرام میں شریک لوگ بھی ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آئے کہ مولانا کی اینڈ گیم آخر ہے کیا؟ اور یہ کس کے ”ایما” پر کیا جا رہا ہے؟۔

جوں جوں دھرنا طویل ہونے کے اشارے ملے، توں توں یہ خیال تقویت پکڑتا گیا کہ مولانا کے ہاتھ میں جو کارڈز ہیں وہ بہت بھاری ہیں جو انہوں نے ابھی تک کسی کو مکمل طور پر شو نہیں کیے۔ کچھ لوگ اس کو بلف بھی تصور کرتے رہے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر یہ ایک جوا ہے تب بھی مولانا اتنے کچے کھلاڑی نہیں ہیں کہ کسی ’سکیپ پلان‘ کے بغیر اتنا بڑا داؤ کھیلیں۔

خیر جتنے منہ اتنی باتیں !کچھ لوگوں نے مائنس ون تھیوریز کی بات چلانی شروع کی تو کچھ کا کہنا یہ تھا کہ مولانا کا ہدف تبدیل ہوگا اور مائنس ٹو تک بھی بات جا سکتی ہے۔

مولانا صاحب کے قریب حلقوں سے جب بات کرتے تو وہ کہتے تھے کہ معاملہ صرف سیاسی نہیں ہے۔ وزیراعظم پاکستان اپنی تقاریر میں جس ریاست کے تصور کو اجاگر کر رہے ہیں اس پر مولانا صاحب اور ان کی جماعت کو خدشات ہیں۔
مولانا کے قریبی حلقے اس بات سے بھی شاکی ہیں کہ وزیراعظم کے اردگر کچھ مخصوص مشیران کا اثرورسوخ بین الاقوامی معاملات پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ اسی طرح شہباز شریف کی تقریر میں بھی وزیراعظم کے فیصلوں اور ’ضعیف الاعتقادی‘ کو ہدف تنقید بنایا گیا۔ الغرض یہ کہ معاملہ صرف مولانا کی سیاسی ’ضروریات‘ کا نہیں ہے۔ مولانا کو سیاسی طور پر کافی کچھ آفر کیا جا چکا تھا جس میں ’سینیٹ کی چار سیٹیں بھی شامل ہیں‘ لیکن مولانا ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

اس دوران وزیراعظم ہاؤس میں جو سکون اور ٹھہراؤ رہا۔ اس سے یہ بات واضح رہی کہ حکومت یہ سوچ کر مطمئن ہے کہ یہ معاملات طے پا ہی جائیں گے۔ ایک فعال لیکن بے اثر سی حکومتی مذاکراتی کمیٹی ہے جس پر مولانا بس اتنا ہی اعتبار کرتے تھے کہ استعفٰی کا معاملہ ان کے سامنے تک رکھنا گوارا نہیں کیا۔

بہرحال معاملات کوئی بھی طے کرے سیاسی بوجھ حکومت وقت کو ہی اٹھانا ہوتا ہے۔ اگر وزیراعظم اپنے غیر منتخب مشیران کی جگہ سیاسی مزاج اور سوجھ بوجھ والے کارکنان پر زیادہ انحصار کریں تو شاید بہت سے معاملات اتنا الجھنے کی نوبت ہی نہ آئے۔

خان صاحب کے ارد گرد ایسے کچھ عناصر ہیں جو بظاہر مذاکرات کے ذریعے کشیدگی ختم کرانے کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں، لیکن کہیں نہ کہیں امید رکھتے ہیں کہ وہ شیروانی جو کافی عرصہ سے ان کی الماری میں لٹکی ہے وہ پہننے کا موقع انہیں بھی ملے۔ ویسے بھی ملک میں خیبر پختونخوا سے کوئی وزیراعظم کبھی بنا نہیں۔ خان صاحب کو دیکھنا ہوگا کہ ان کی صفوں میں موجود وہ کون شخص ہے جو پی ٹی آئی کا چوہدری نثار ثابت ہو سکتا ہے

دھرنے کو اگلے مرحلے پر لے جانے کے بجائے مولانا کا اسے کل جماعتی کانفرنس جیسے ہومیوپیتھک فورم میں لے جانے کا اعلان، ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کچھ اور سمجھنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اس فیصلے کے پس پردہ مولانا کو کچھ نہ کچھ گارنٹی ضرور دی گئی ہوگی۔ اور یہ بات بھی طے ہے کہ اس پسپائی سے اصل مستفید ہونے والا سروسز ہسپتال کا بیمار قیدی ہے۔
کیا اس سارے کھیل کی مولانا صاحب نے سیاسی قیمت وصول کی ہے یا ادا کی ہے؟
فی الحال تو اسلام آباد کے باخبر حلقے یہ شعر سناتے پائے گئے ہیں کہ
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

Leave a Reply