سال نو سے میاں صاحب کے پاسپورٹ کی تجدید نو تک!!
تحریر:کامران نسیم بٹالوی
پرانی تقویم(کیلنڈر) 2020 کے اوراق پلٹنے کے ساتھ ہی ہم سال نو2021میں داخل ہو چکے ہیں ہر نئے سال کی طرح حضرت انسان نے اسے بھی نئی امیدوں اور توقعات ؎ مگر بوجھل دل کے ساتھ خوش آمدید کہا کیونکہ پچھلا سال 2020اپنے آغاز سے محض چند دن قبل 19دسمبر 2019کو اپنے ہمراہ ایسی وبا لے کر آیا جس کی نحوست کو انسانی تاریخ سے مٹانا اور بھلانا نا ممکن ہے اور یہ وہ دن تھا جب نو وارد وائرس کرونا کا پہلا مریض سامنے آیاجو کہ 2020میں زیست انسانی کو رتحس نحس کرنے کا موجب بنا اور مہلک وبا نے تقربیا دو ملین یعنی 20لاکھ انسانی زندگیوں کو نگلنے کے ساتھ ساتھ ن9کروڑ کے لگ بگ افراد کو متاثر کیا اور جس کے کاری وار ابھی تک جاری ہیں اور تب تک جاری رہیں گے جب تک موثر ویکسین دریافت نہیں ہو جاتی ویسے تو بہت سے ترقی یافتہ ممالک اس کی مناسب دوا کی تیاری کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ فروری تک اس کی مکمل تیاری اور دستیابی اور روک تھام ممکن ہو پائے گی جبکہ کچھ مملک میں ابھی تک اس کی ویکسن کی تیاری کے بعد آزمایشی طور پر لگائی بھی جارہی ہے۔جبکہ دوسری طرح اس بیماری کی آمد علاج اور دوا کی تیاری کی حوالے سے سازشی تھیوریز اور مفروضے بھی اتنے ہی سرگرم ہیں جتنی کہ اس بیماری کا پھیلاو اور یہ سب اس وقت تک قائم رہے گا جب تک اس کا ٹھوس علاج اور اس کی درست دوا تیار نہیں ہو جاتی یہی وجہ ہے کہ2020 نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ کو چلتی پٹری سے اتار کر رکھ دیا جس کے نتیجہ میں جہا ں اس کے تمام منصوبے چوپٹ ہو کر رہ گئے وہ اسے کرہ ارض پر حیات انسانی کے بچاؤکے لالے پڑ گئے اور اسے اپنے معاملات کو از سر نو مرتب کرنا پڑ رہا ہے اور ورلڈ میلنیم گولز کو ایک بار پھر ورلڈ سسٹین ایبل گولز کی طرف پلٹنا پڑ رہا ہے کرونا وبا نے دنیا بھر کے تمام شعبہ ہائے زندگی بالخصوص ہیلتھ کیئر،معشیت،تعلیم اور روزگار کو نمایا ں طور پر متاثر کیا عالمی سطح پر کروڑوں لوگ بے روزگار ہو کر غربت کی لیکر سے نیچے آگئے اور کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کی دوڑ میں عالمگیری سطح پر صحت کے دیگرشعبوں میں تو جہ ہٹ کر رہ گئی بین ا لاقوامی لاک ڈاؤن کی بنا پر خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کی معشیت تباہی کے دہانے پر آ کھڑی ہوئی تعلیم ادارے مسلسل بند رکھنے کی وجہ سے جہا ں زیر تعلیم طالب علم کا تعلیمی سلسلہ رک گیا وہاں سکول یا ابتدائی تعلیم تک رسائی حاصل نہ کرنے والے بچوں کی تعداد دگنا ہوگئی جبکہ دنیا بھر کہ وہ طالب علم جوکہ ٹیکنالوجی کی دسترس نہ رکھنے کی وجہ سے سال بھر تعلیم سے دور ہو گئے وہ عالمگیری تعلیم پستی کا اشارہ دے رہی اور خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں اس وبا نے انسانی طرز معاشرت اور معاملات کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا اور ہر چیز 2020 سے قبل والی زندگی
کی طرح نہیں رہی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ تقابلی لحاط سے پاکستانی عوام اور حکومت نے علاج کی دریافت کی عدم موجودگی میں احتیاطی تدابیریعنیSOPs کو اپنا کر اس مہلک بیماری کا مقابلہ کیا اور کثیر رتعداد میں انسانی جانوں کے ضیا ع سے محفوظ رہا جس کے نتیجہ میں بین الالقوامی سطح پر پاکستان نے تعریف بھی پائی اب جبکہ ہم سال2021 میں قدم رکھ چکے ہیں سال نو کی تجدید کو روائتی انداز کی بجائے انسانی زندگی کے نئے تقاضوں اور درپیش چیلنجوں کے مطابق ترتیب دینا ہو گا اور یہی نیا سال مسرت کا سال ہو گا
سال نو سے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے نئے پاسپورٹ کے اجرا کا حکومتی شوشہ پر بات کر لی جائے چند روز قبل وفاقی وزیر خارجہ شیخ رشید نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ میاں نواز شریف کا پاسپورٹ جو کہ فروری کے وسط میں زائد المعیاد ہو جائے گا کو دوبارہ جاری نہیں کیا جائے گا وفاقی مشیر پالیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کے مطابق نئے پاسپورٹ کے جاری نہ ہونے کی وجہ سے میاں صاحب کی لندن میں سکونت غیر قانونی ہو جائے گی لا محالہ ان کے پاس واپس آکر مقدمات کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو یہ حکومت کی محض سیاسی عناد کی بنا پر ایک انتقامی کاروائی ہی ہے اور یہ شوشہ اس وقت چھوڑا گیا جب برطانوی حکومت نے حکومت پاکستان کی جانب سے میاں نوز شریف کی حوالگی کے بارے میں دی جانے والی درخواست پر کوئی لفٹ نہیں کروائی سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ حکومت اپنے کارکنان اور ووٹر ز کے سامنے سچا ہونے ہونے اور اپنی خفت مٹانے کے لئے ایک ڈھونگ ہے پاسپورٹ کا اجرا ء نہ کرنا کس بھی شہری کو اس کے شہری حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے جسے عالمگیری تناظر میں جمہوری اقدار کے منافی اور آمرانہ قدم کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے برطانیہ،جرمنی،فرانس یا دنیا کا کوئی بھی ترقی یافتہ ملک ہو،نے کبھی بھی اپنی سرزمیں پر دوسرے مما لک کے لیڈرزآجانے کے بعد ان کے سیاسی مخالفین کی خواہش ناتمام کی بھلی نہیں چڑھایا جاتا اور نہ ہی کبھی وہ ایسا ہونے دیں گے اور جب کہ حکومت کو یہ چیز باور ہو گئی تو پاسپورٹ کی منطق چھوڑدی دوسری طرف نواز شریف کی وطن واپسی اور ان پر مقدمات سے فرار کے لئے فکر مند لوگوں کو یہ کیوں نظر نہیں آرہا کہ حکومت نے اپنی مرضی اور اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے خود میاں صاحب کو علاج کے لئے بیرون ملک بھیجا اور یہ بھی ممکنات میں تھا کہ انکی واپسی نہیں بھی ہو سکے گی تو اس صورتحال میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور کاروائی کیسے ہو سکے گی؟ لحاظہ یہ حکومت کی ایک نورا کشتی ہے اپنے آپ کو سرخرو کرنے کے لئے یہ ایک نقطہ یہ بھی کہ پاسپورٹ یعنی سفر کی قانونی دستاویز فراہم نہ کر کے حکومت میاں صاحب کا پاکستان واپسی کا خود راستہ بند کر رہی ہے مطلب جب پاسپورٹ ہی نہیں ہو گا تو میاں صاحب پاکستان سفر کیسے کریں گے دوسری طرف وطن واپسی،سیاسی قید اور صعوبتوں پر بات کی جائے تو ماضی کے نمایاں پانچ سیاسی شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے اپنے بنانئیہ کا پالن کرنے کے لئے ا ن چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں کی اور انکا مردانہ وار مقابلہ کیا ان میں نلیسن منڈیلا جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف سیاہ فام حقوق کے لئے جنگ لڑتے ہوئے بد نامہ زمانہ رابن جزیرہ میں 27 سال جیل کی سزا کاٹی،میانمار کی آنگ سان سوچی اپنے گھر 21 سال نظر بند رہی،بھارتی پنڈت جواہر لال نہرو کو برطانوی شہزادے کے دورے کے بایئکاٹ کے نتیجہ میں 8 سال کے لگ بگ جیل کی ہو اکھانا پڑی چیکو سلواکیہ کے پہلے صدر حیول کو7سال جیل
ہوئی چلی کی پہلی خاتون صدر کو 5 سال کے قریب قید بگھتنا پڑی یہ وہ تمام لوگ تھے جنہوں نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور بعد میں آزادی اور حکومتیں حاصل کیں اور پھر جیت بلا آخر انہی کی ہوئی مگر یہا ں میاں صاحب کی صورتحال مختلف ہے وہ خود ایک جمہوری حکومت میں ملک واپس آنے سے انکاری ہیں حالانکہ تین بار وزیر اعظم رہنے اور ملک میں کثیر ووٹ بینک ہونے کے وجہ سے انکا سیاسی قد بہت بلند ہے اور انہیں اپنے اس طرز سیاست کو خیر باد کہ کر ملک کی راہ لینی چاہیے تا کہ ان کے بینانیہ ووٹ کو عزت دو کو تقویت مل سکے اور ان کے خلاف چہ مگویاں ختم ہو سکیں تاکہ لوگ میاں صاحب کو الطاف حسین ثانی کہنے سے باز رہیں کیونکہ نواز شریف ایک پرو پا کستانی اور سچے محب وطن رہنما ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب وہ وطن لوٹ کر سب کا سامنا کریں گے(ختم شدہ)