(زاویہ اشفاق احمد – پارٹ – 1)
تحریر:اشفاق احمد
اس محفل میں یہ بات نہیں ہوتی یامیں سوچ کے نہیں آتا کہ آج کیا بات کریں گے۔ بیچ میں گفتگو کے دوران ہی کچھ نہ کچھ نکل آتاہے اور وہ آپ تک پہنچ جاتاہے لیکن آج پہلی مرتبہ مجھ سے فرمائش کی گئی ہے کہ آپ اپنے بابا کے بارے میں بات ضرور کریں۔ پہلے پہلے ابتداء میں تو کی‘ پھر اس کے بعدکچھ اورموضوعات رہے‘ پھر کہیں ان موضوعات سے پھسل کر آگے نکل گئے تو آج یہ فرمائش جوہے مجھے بھی دل سے پسند آئی ہے۔
اورآپ سب نوجوان ہیں اوریہ بات میں کئی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ بابے کون ہوتے ہیں۔ یہ کیوں ہماری زندگیوں میں آگئے اوران کے ساتھ کیا تعلق ہوتاہے اور ملتان میں بابے زیادہ کیوں ہوتے ہیں اور شہروں میں کم کیوں ہوتے ہیں؟وغیرہ وغیرہ۔ توچونکہ یہ فرمائش کی گئی ہے۔ تومیں یہ عرض کروں کہ ہمارا ایک ڈیرہ تھا‘ جہاں میں یونیورسٹی کی تعلیم ختم کرچکنے کے بعد ولایت میں رہنے اور ولایت کی یونیورسٹی میں پڑھانے کے بعد جب لوٹ کے یہاں آیا تو1954ء میں‘ میں اس ڈیرے پرگیا۔ اُس ڈیرے والے کانام تھا حضرت سائیں فضل شاہ صاحبؒ۔ نوروالوں کاڈیرہ اسے کہتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی دیواریں تھیں اس کی‘ اور اندرکچھ بھیڑ بکریاں اورایک بھینس بھی ہوتی تھی۔صفائی کا انتظام ایسا اچھا نہیں تھا‘کیونکہ جب آدمی صفائی کی طرف توجہ دینے لگتا ہے توباہرکی صفائی کی طرف زیادہ توجہ دیتاہے۔ اندر کی صفائی کی طرف کم ہوجاتی ہے۔ خیریہ میرے لئے ساری نئی باتیں تھیں۔ آپ اس کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ کس نوعیت کا‘اورکسی قسم کاہوگا۔ہمارے باباجی بے چارے تعلیم یافتہ نہیں تھے‘ لکھنا پڑھنا نہیں آتاتھا‘لیکن انہوں نے کہیں سے انگریزی کالفظ نوٹ Note سیکھا ہواتھا۔ جب کوئی بات بہت خیال انگیز ہوتی تھی‘ نہایت Thought Provoking‘ تو وہ انگلی اٹھاکے کہتے تھے نوٹ۔ تو ہم سب چونک کر متوجہ ہوجاتے تھے کہ کوئی بات نہایت اہم ہوگی‘ اورہم اسے سنبھال کررکھیں اوریہ آئندہ زندگی میں کام آئے گی۔اسی طرح ان کے اردگرد جولوگ تھے‘ ان کوبھی انہوں نے خطاب دے رکھے تھے۔ماڈرن قسم کے مثلاً وہاں پر ایک ڈاکٹر صاحب تھے اشرف فاضلی صاحب تو دوسرے جواُن کی خط وکتابت کاکام کرتے تھے وہاں ڈاک آتی تھی‘ جو اس کاجواب دیتے تھے ان کو وہ سیکرٹری صاحب کہتے تھے۔ جو حساب وکتاب پیسے ویسے لوگ دے جاتے تھے۔ کھانے وانے کے تو ان کو وہ فنانس سیکرٹری کہتے تھے۔ تو یہ لوگ بھی بڑے خوش ہوتے تھے کہ بیٹھے بٹھائے اتنے بڑے رُتبے مل گئے ایک روز ہم نے یہ فیصلہ کیاکہ یہاں بہت اچھی باتیں ہوتی ہیں اور بہت توجہ طلب باتیں ہوتی ہیں کیوں نہ یہاں سے ایک رسالہ نکالا جائے‘ اور وہ چھاپا جائے اورچھاپ کے لوگوں میں تقسیم کیاجائے۔ بڑی اچھی بات تھی‘ایسے ہی ہوتاہے۔ تو ہم نے بیٹھ کے رسالے کی پوری ایک ڈمی تیار کی اس کافارمیٹ سوچا‘ڈاکٹر اشرف فاضلی صاحب اس کے ایڈیٹر قرار دئیے۔ سیکرٹری صاحب ظاہر ہے منتظم اعلیٰ وہی تھے میں نے کہااچھا میں بھی کچھ لکھوں گا‘ سارا کچھ تیار کیاتو ہم یہ ساری سکیم بناکے ان کی خدمت میں لے گئے۔ ہم نے کہا جی کہ ہم ایک رسالہ نکالنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا پہلے بھی ایک رسالہ نکلایہاں سے تھوڑی دیرکے لئے پھربند ہوگیا۔ تو کہنے لگے‘ آپ رسالہ کیوں نکالنا چاہتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا‘ اس لئے کہ ہم آپس میں اتحاد اورUnity پیدا کرناچاہتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے‘ اورملیں‘ ان کو یہ Message جو ہے‘ یہ دور دور تک پہنچتا رہے گا اوراستفادہ ہوگا ہماری بڑی آرزوہے کہ مسلمان ایک ہوں‘ ان میں Unity ہو‘ ان میں اتحاد ہو‘ان میں یکجہتی ہو۔ تو آپ نے کہا:”Note“جماعت عملاً ایک دوسرے کے کام آنے سے بنتی ہے صرف قوم کے اندر رہنے سے فرض اورحق پورا نہیں ہوتا کیونکہ اس ساری چیز کاتعلق قوم سے ہے اورعمل اس سے مختلف چیز ہے‘ اگر آپ جماعت بناناچاہتے ہیں اورآپ بھی اکثر سوچا کرتے ہیں اورگھر میں بات بھی ہوتی ہے تو قول سے گفتگو سے کبھی نہیں ہوگی۔
دیکھئے ہمارا اللہ ایک ہے‘ ہمارا رسولؐ ایک ہے ہمارا نماز پڑھنے کاطریقہ ایک ہے‘ہمارا قیامت کے اُوپر ایمان ایک ساہے‘ لیکن اس کے باوصف یکجہتی نہیں ہوتی۔ کیوں نہیں ہوتی؟ یہ سوچنے کی بات تھی تو ایسی باتیں بابوں کے ہاں سے ملتی ہیں کہ جب تک ایک دوسرے کادکھ درد نہیں سنوگے ایک دوسرے کے بارے میں نہیں جانو گے‘ کون کس کیفیت سے گزر رہا ہے محض گفتگو کردینے سے کام نہیں بنے گا۔ کہتے تھےNoteجماعت عملاً ایک دوسرے کا ساتھ دینے سے وجود میں آتی ہے خالی قول کے ساتھ جماعت کی یکجہتی کاحق ادا نہیں ہوتا آپ عمل میں داخل ہوں گے توپھر یہ حق ادا ہوگا تو پھر یہ کام ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔ ہم اب بھی یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم یہ ایک کتاب رسالہ اخبار نکالتے ہیں اگر ہم ایک لیکچردیں گے اورپروفیسر جاکے سٹیج پر کھڑا ہوکر ایک بات بتادے اوروہ سٹوڈنٹ کے ذہن میں اُتر جائے اس سے ان کے اندر یکجہتی پیدا ہوجائے ایسا ہوتا نہیں۔ کبھی بھی نہیں ہوا۔ دنیا کے کسی خطے میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ قول کی اہمیت نہیں ہے۔ کہی جانی والی بات کی اہمیت نہیں ہے یقیناہے۔ لیکن باباجی فرماتے ہیں کہNoteقول ایک سواری ہے جو آپ کوعمل کے کنارے پرلے جاتی ہے۔ خرابی یہ ہوتی ہے کہ ہم قول کی سواری کو اختیار کرتے ہیں اس کشتی میں بیٹھتے ہیں چپو چلاتے ہیں عمل کے کنارے پر پہنچتے ہیں لیکن اس کشتی کو چھوڑتے نہیں ہیں۔ اس کے اندر رہتے ہیں وہ وہیں چکر کاٹتی رہتی ہے عمل کاکنارا سامنے رہتاہے اورہم اس کی طرف جانہیں رہے ہوتے اورہم کوشش یہ کرتے ہیں پڑھے لکھے لوگ نوجوان میرے ساتھ ہیں ہم کوششیں صرف یہ کرتے ہیں کہ کمیونیکیشن سے‘صرف ڈائیلاگ سے‘صرف گفتگوسے بات بن جائے گی‘کبھی نہیں بن سکتی۔ کیونکہ انسان کاوجود اس کی سائیکی اس کاہونا اس بات کامتقاضی ہوتاہے کہ کوئی بندہ میری بات سنے اور میرے دکھ درد میں شریک ہو۔
یہ جو آپ نے اکثر دیکھا ہوگا آج کل خودکشیاں ہورہی ہیں لوگ خودسوزیاں کررہے ہیں عام طورپر ایک اچھا جرنلسٹ یہی کہتاہے کہ چونکہ ملازمتیں نہیں مل رہیں بھوک ننگ بہت ہے اس وجہ سے یہ سارا کام ہورہاہے۔ میں کہتاہوں یہ بات نہیں ہے اس وقت آپ کے پاکستان کانوجوان خاص طورپر ایک آدمی اس کندھے کی تلاش میں ہے جس پروہ اپنا سررکھ کر اپنا دکھ بیان کرسکے اور کوئی کندھا دینے کے لئے تیار نہیں کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔ اگلے زمانے میں ہمارے زمانے میں ہمارے باپ دادا کے زمانے میں دکھ سکھ کرنے کے لئے لوگ ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ ان کے پاس اکنامکس کے اتنے مسائل اور اتنی پرابلمز نہیں تھیں۔ ولایت والوں نے یہ طریقہ نکالا کہ وہ دکھ سننے کے لئے فیس لیتے ہیں۔
یہ سائیکاٹرسٹ جو ہوتے ہیں سائیکوتھراپسٹ جو ہوتے ہیں یہ آپ سے تین سوڈالر فی گھنٹہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں پرسوں پھر آجانا تم اپنے دکھ بیان کرو مجھے پیسے دے دو۔ہمارے ہاں بھی اب ایسے ادارے قائم ہوگئے ہیں۔اگر آپ لاہور کی نہر کے کنارے کنارے جائیں تو دوتین بورڈ آپ کونظر آئیں گے ماہر نفسیات کے‘ جو یہ کہتے ہیں اگر آپ نے اپنا دکھ بیان کرناہے تو دوسو روپیہ گھنٹہ مجھے دیں دکھ اپنا بیان کرکے چلے جائیں تو وہ بھی ایک تھراپی ہے لیکن پہلے زمانے میں ہمارے ہاں مفت اورعام ہوتی تھی۔ اب لوگ اتنے مصروف ہوگئے کہ کسی وجہ سے پھنس گئے تو جب تک عمل کے اندر آدمی داخل نہیں ہوگا دوسرے آدمی کو یقین نہیں آئے کہ یہ میرا کچھ لگتا ہے میرا کچھ بھائی بند ہے۔ اگر آپ اس کے سامنے تقریر کرکے چلے جائیں گے تو اس کی انفارمیشن میں اضافہ ہوجائے گا اورخطرہ یہ ہے کہ وہ یہ ساری انفرمیشن سمیٹ کے ایک اگلے آدمی سے وہ بات کرنے لگ جائے گا۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ کبھی آپ نے ہمارے ٹیلی وژن کے پروگرام دیکھے ہیں دینی باتیں سوالوں کے جواب بڑی تیزی سے دئیے جاتے ہیں۔ وہ انفارمیشن ہوتی ہے اس کا ذات کے ساتھ اپنے وجود کے ساتھ یا اپنی سائیکی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔تو آپ نے ہمیں منع کیاکہ دیکھئے ایسے نہ کریں رسالہ نہ چلائیں چھوڑیں اس کام کو کسی کے کام آسکتے ہیں تو وہ چھوٹا سا کام کریں۔ میں نے کہا جی کام‘ اب میں اتنا پڑھا لکھا آدمی جب میں بہت نوجوان تھا اورسوٹ پہنتا تھا تھری پیس اور سونے کی پن لگاتاتھا ٹائی میں‘ میں نے کہا میں کسی کے کیاکام آسکتا ہوں میں تو ایک معزز آدمی ہوں‘پروفیسر ہوں۔کہنے لگے نہیں یقینا آپ کام آسکتے ہیں۔ کہنے لگے یہاں اماں جی رہتی ہیں۔ وہاں صابن کی کچھ دکانیں تھیں وہاں پر ایک مائی تھی دائی کاوہ کام کرتی تھی۔ تو اس کی بیٹی کی شادی ہے‘تو کہنے لگے اس کی بیٹی کی شادی ہے اوراس کاجومنگیتر ہے اماں نے لڑکا چناہے۔ وہ سگنلر ہے باباجی نے پتانہیں لفظ کہاں سے سیکھا‘ سگنلروہ ہوتاہے جو مورسی کے اوپر تار باندھے کہنے لگے وہ سگنلر ہے محکمہ ڈاک بنگلہ میں‘ ڈاک بنگلہ نہر کابنگلہ۔انگریز کے زمانے میں یہاں ریل تار ڈاک کا انتظام بہت غضب کاتھا۔ جب یہ نہریں کھودیں انہوں نے ان کے کنارے بڑے اعلیٰ درجے کے بنگلے بنوائے‘ ہچ ٹریزوالے بنگلے ان میں فلمیں بھی بڑی شوٹ ہوتی تھیں اعلیٰ درجے کی اس کے اندر بلڈنگیں ہوتیں تھیں اور وہاں پر ایک آفس بھی ہوتاتھا جہاں پر سگنلرکوبہت بڑی چیز سمجھتے تھے۔
60روپے تنخواہ والاسگنلر‘وہ لڑکا بھی پسند کرلیاتھا۔تو مجھے کہنے لگے تمہارے پاس ایک چھوٹی سی گاڑی ہے وہ سگنلر کااباجو ہے وہ آرہا ہے تحقیق وتفتیش کرنے کے لئے لڑکی کتنا کام کرتی ہے چارپائیوں کو اٹھادیوار کے ساتھ رکھتی ہے کہ نہیں شام کو بسترے بچھاتی ہے کہ نہیں گھڑا پانی کابھرکے لاتی ہے کہ نہیں تو وہ وہاں رہے گا کچھ دن وہ جوروٹی کھاتاہے وہ گندم اور مکئی کاآٹا ملا کے کھاتاہے اب نخرہ دیکھیں اس کا۔تو تمہاری ڈیوٹی یہ ہے کہ تم دس سیرپکامکئی کاآٹا اپنی موٹرمیں رکھ کر اماں جی کے پاس پہنچاؤ۔میں نے کہا مجھے کوئی اچھا سا کام دیں لکھنے کا یہ کیاہے۔ مجھے کہنے لگے‘ وہ اس لئے دیناہے کہ ہم نے اس بابے کی عزت افزائی کرنی ہے اورہماری بیٹی کی شادی ہے۔ تو میں نے کہا اچھا جی تو میں گیا بھی اس سے ملا بھی بابے سے انہوں نے کہا‘ خبردار اس کی بہت عزتی کرنی ہے اور اس کو سلام کرناہے۔میں نے کہا جی میں دومرتبہ کرنے کو تیار ہوں۔جب میں لوٹ کے آیا اگلے دن۔تو کہنے لگے وہ حقہ پیتا ہے تو میں نے کیکرکی چھال جو ہے ناجس کو کیکرکے سُکڑے کہتے ہیں تو اس کاکوئلہ بہت اچھاہوتاہے اور جو پرانے بابے حقہ تمباکو پینے والے ہیں۔ اس کی آگ دھرتے ہیں تو یہ سکڑے جو ہیں یہ تھے سیر ڈیڑھ یہ انہیں دے دو۔میں نے کہا‘جی دفع کریں چبا ساآدمی ہے۔ وہ کہنے لگے نہیں نہیں‘ یہ نہیں کہنا۔وہ اللہ کی مخلوق ہے اور وہ انبیا کا بیٹا ہے۔ میں نے کہا وہ بندہ۔کہنے لگے‘ہاں حضرت آدم کی اولاد جو ہے۔اچھا وہ ہرایک کو کہتے تھے کہ بنی کابیٹا ہے تو ہماری برکت ہوگی لوجی یہ نبی کی دھی ہمارے ڈیرے پر آگئی ہے۔خیر ہمارے لئے یہ بات سیکھنی بہت مشکل تھی‘تو جب انہوں نے یہ ڈیوٹی لگائی ہم بہت روئے پیٹے کہ رسالہ چلنے سے رہ گیا۔ (جاری ہے)