سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ مولانا محمد اکرم اعوان

ربیع الاوّل کا ماہ ِ مبارک

ربیع الاوّل کا ماہ ِ مبارک

_تحریر : مولانا محمد اکرم اعوان:

ربیع الاول کاوہ ماہ مبارک پھر سے آیا جس میں آقائے نامدار ﷺکی بعثت عالی ہوئی آپ ﷺکی ولادت مبارک اسی مبارک ماہ میں ہے آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس برس پوری ہوئی تو بعثت اسی مہینے میں ہے آپ ﷺکا وصال اسی مہینے میں ہے اللہ کی نعمتیں دنیا کی بے پناہ ہیں ہر طرح کی مخلوق اس سے مستفید ہو رہی ہے آج آپ ولادت کی بات کرتے ہیں ولادت باسعادت بے پناہ رحمتوں کا سبب بے پناہ برکات کا سبب لیکن قرآن کریم ولادت کی بات نہیں کرتاکیوں نہیں کرتا؟
قرآن کریم جب بھی بات ارشادفرماتا ہے جب بھی حضور ﷺ کا تذکرہ آتا ہے جب آپ ﷺ کی بات شروع ہوتی ہے تو بعثت سے شروع کرتا ہے قرآن پاک بعثت کی بات کرتا ہے اللہ پاک فرماتے ہیں زمینوں آسمانوں ساری مخلوق پر میرے بے پناہ ا حسانات ہیں سب کوپیدا کیا سب پر میرا احسان ہے سب کو وجود دیازندگی،روزی سب کو محبتیں دیں لیکن میرا احسان تم پر ہے کہ میں نے محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرما دیااب یہ احسان ایسا ہے کہ تخلیق کائنات اس کے سامنے معدوم ہو گئی فروغ سینا جن انوارات کی ایک جھلک برداشت نہ کر سکا تجلیات باری سے بڑی بڑی سنگلاخ چٹانیں چٹخ چٹخ کر جل کر سرمہ بن گئیں بعثت رسالت ﷺ نے انسانی دلوں کو تجلیات باری کی آماجگاہ بنا دیا ان تجلیات کو ایمان لانے والے بندوں کے قلوب میں یوں سمو دیا کہ وہ ان کی غذا، دوا اور حیات بن گئی تیرہ برس تک حضور ﷺ کی غلامی کے لئے دنیا کی ہر اذیت برداشت کی، ان کے وجود گرم سلاخوں سے داغے گے، گرم ریت پر لٹا کر سینے پر پتھر رکھے گئے، کوڑے مارے گئے،زخمی کئے گئے،بھوکا پیاسا رکھا گیا،،شہید کئے گئے،کون سا ظلم ہے جو مجبور مسلمانوں پرمکہ مکرمہ کے رہنے والے مشرکین نے روا نہ رکھا ہولیکن انہوں نے غلامی محمد رسول اللہ ﷺ کو ہاتھ سے نہ جانے دیاہر دکھ برداشت کیاحتٰی کہ گھر،شہر، جائیدادیں چھوڑیں،سب کچھ قربان کر دیااور خالی ہاتھ ہجرت کر کے حضور ﷺ کی خدمت میں چلے گئے پھر مدینہ منورہ پر حملہ،بدر و احد،خندق میں کفار مشرکین نے بڑا زور لگایا،انہوں نے قربانیاں دیں،زخمی ہوئے لیکن حق غلامی ادا کرتے رہے۔
بعثت رحمت عالم ﷺ وہ نقطہ ہے جس نے ہمیں ایمان عطا کیا اور ایمان وہ سانچا ہے جو فرد کو جو کچھ وہ پہلے تھا اس سے مٹا کر ایک نیا انسا ن بنا دیتا ہے بعثت عالی کے ساتھ جہاں معجزات و برکات ہیں وہاں ارشادات رسول ﷺ بھی ہیں جن کی پاسداری کرنا پڑتی ہے، آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کے اندر آنے کے لئے اپنی تراش خراش کرنا پڑتی ہے، پاکیزگی اپنانے کے لئے صفائی کرنا پڑتی ہے، ہمت و محنت سے کام لینا پڑتا ہے، رسومات ورواجات چھوڑ کر سنت رسول ﷺ اپنانا پڑتی ہیں،اپنی خواہشات کو رضائے الٰہی کے حصول کے لئے چھوڑنا پڑتا ہے اور اپنی رائے و پسند سے دستبردار ہو کر اسے حضور ﷺ کی پسند میں فنا کرنا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ کرنا حضور ﷺ کی برکات آسان کردیتی ہیں لیکن تب جب کوئی بعثت رحمت عالم ﷺ سے حصہ پائے ساری قوم میلاد مناتی ہے بعثت کوئی نہیں مناتاکیوں کہ جب بعثت کا تذکرہ ہو گا تو حضور اکرم ﷺ کی اطاعت اور غلامی کرنا پڑے گی، خواہشوں،جھوٹی انا،تکبر و غرور،لالچ و حوس کے سارے بت دل سے نکالنے ہوں گے اور ان سب کی جگہ ایک اللہ کی حکومت قائم کرنا ہو گی مومن کاتو قرآن کا تصور یہ ہے کہ جب اللہ کا نبی ﷺحکم دے دے تو ان کے پاس سوائے تسلیم کے اور کوئی راستہ ہی نہیں اور صرف ظاہری تسلیم نہیں دل میں بھی کوئی کدورت کوئی کھٹ کھٹ محسوس نہ کرے کہ ایسا کیوں ہے؟صدق دل سے اس کی اطاعت کر لے۔
جب حضور کی ولادت ہوئی توبے پناہ فائدے مخلوق کو پہنچے ہر طرح کا رزق،ا س میں برکت، سب سے بڑی بات کہ آپ ﷺ کے دنیا میں قدم رنجہ فرمانے سے ساری زمین مسجد بن گئی جو اجتماعی عذاب آتے تھے حضور ﷺ کی بعثت کے بعد ختم ہو گئے کیا آپ ﷺ نے نہیں فرمایا کہ میرے زمین پر قدم رکھنے سے اجتماعی عذاب نازل ہونابند ہو گئے لوگوں کی صورتیں مسخ ہونا بند ہو گئیں پانی میں پاک کرنے کی طاقت تھی آپ کے قدم مبارک سے اللہ نے مٹی کو یہ تاثیر د ے دی کہ پانی سے وضو کرو تو جسم پاک ہوتا ہے اگر ضرورت تیمم کی ہو تو حضورﷺ فرماتے ہیں ہڈیاں اور اُن کا گودا تک پاک ہو جاتا ہے لاغر سانڈھنی پہ آپ ﷺ بیٹھے تو وہ جوانوں سے تیز ہو گئی دودھ خشک ہو چلا تھا نہریں جاری ہو گئیں جہاں جہاں حضور ﷺ قدم رکھتے وہ جگہ گلزار ہو جاتی جس گھر میں قدم رکھتے وہ بابرکت ہو جاتاجس جانور پر سوار ہوتے وہ تیز رفتار ہو جاتا یثرب جس کا ترجمہ دارالبلاء درست ہے ایک خاص قسم کا مرض جو وہاں جاتا اس کا شکار ہو جاتایثرب کو مدینہ کس نے بنا دیا؟
ربیع الاول کو نبی کریم ﷺکا وصال ہوا اور مدینہ منورہ میں صحابہ کرام ؓ پر مشکل ترین گھڑی تھی دن کو یوں معلوم ہوتا تھاجیسے رات ہو گئی ہوصحابہ کرام ؓ میں کچھ لوگ بیٹھے تھے وصال کی خبر سنی اوروہیں منجمد ہو گئے پھر ساری زندگی اٹھ نہ سکے سید نا فاروق اعظم ؓ جیسی ہستی پر بھی جذب آ گیا اُم ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کی بہت پیاری خادمہ تھیں جب عمر رسیدہ ہو گئیں تونبی کریم ﷺ ان کے گھر خیریت پوچھنے خود تشریف لے جاتے حضور ﷺ کے وصال کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُم ایمن کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لئے گئے جب ان کی مزاج پرسی کی تو انہوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا انہوں نے فرمایاکہ بی بی آپ اتنا کیوں رو رہی ہیں؟حضور ﷺ ہم سے دور تو نہیں ہیں ام ایمن ؓنے فرمایایہ بات میں جانتی ہوں میں رو اس لئے رہی ہوں کہ اب قیامت تک زمین پرجبرائیل امین ؑ وحی لے کر نہیں آئیں گے ہم تو اس بات کے عادی تھے کہ کوئی مسئلہ ہوتافوراً بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوتے مسئلہ بیان کرتے جواب اللہ کی طرف سے آتا،وحی نازل ہوتی قرآن نازل ہوتا،اللہ کے ذاتی کلام میں جواب آ جاتااب وہ نعمت ختم ہو گئی رسالت ﷺ، نبوت اورکتاب موجود ہے قیامت تک رہے گی اس با ت پہ رونا نہیں ہے رواس لئے رہی ہوں کہ حضورﷺ کا وصال وحی کو ختم کر گیاحضور ﷺ اللہ کا پیغام پہچانے اس دنیا میں تشریف لائے ورنہ یہ دنیا اس قابل ہی نہ تھی حضور ﷺ میدان عرفات میں تھے آیت کریمہ نازل ہوئی آج کے دن میں نے اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں جتنے انعامات کوئی مخلوق اپنے خالق سے لے سکتی تھی وہ آپ پر آج مکمل کر دیے تمہارا دین مکمل ہو گیا اور دین اسلام کو تمہارے لئے پسند فرما لیا او ر اس پر وہ راضی ہو گیا،اب اس میں کوئی کمی بیشی قیامت تک نہیں ہو گی تو صحابہ کرام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ روزانہ انتظار رہتا تھا دیکھیں نیا حکم کون سا ہو گا؟ الحمدللہ دین مکمل ہو گیاہماری زندگی میں مکمل ہو گیاہمیں پورے دین پر عمل توفیق ارزاں ہو گی سب کے علم میں تھا کہ راز گان نبوت ابوبکر صدیق ؓ ہیں تو سب نے تلاش کیا انہیں تلاش کروانہیں مبارک دیں دین مکمل ہو گیا۔آپ کو تلاش کیا تو اپنے خیمے میں بیٹھے زاروقطار رو رہے تھے انہوں نے کہا آپؓ رو رہے ہیں خوشی کا موقع ہے دین مکمل ہو گیاانہوں نے کہا میں رو اس لئے رہا ہوں اس دین کی تکمیل کے لئے حضور ﷺ تشریف لائے تھے ورنہ یہ دنیا اس قابل نہ تھی اور اگر دین مکمل ہو گیا تو اس کا مطلب ہے حضور ﷺ اس دنیا سے پردہ فرما جائیں گے انہوں نے سب کو رُلا دیاجو خوشیاں لے کر آئے تھے سب کو رُلا دیا کہ حضور ﷺ کا یہاں تشریف لانااس دین کی ترویج کے لئے تھاجب دین مکمل ہو گیا اور حضور نے پہنچا دیاتو پھر یہ دنیا اس قابل نہیں ہے کہ حضور ﷺ کو یہاں رکھے اور وہی ہوااس کے اسّی بیاسی دن کے بعد حضورﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے تو حضورﷺ کی یہاں تشریف آوری کا مقصد اللہ کا دین روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کو پہچانا تھا جب یہ فریضہ مکمل ہواحضور ﷺاس دنیا سے پردہ فرما گئے۔میں نے زندگی میں بڑے حوادث،بڑے دکھ اور تکلیف دہ مناظر دیکھے مجھے کبھی رونا نہیں آیا۔ہم 1974 ؁ میں حضرت (مولانا اللہ یار خان) رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ حرمین گئے جدے سے مکہ مکرمہ حاضری ہوئی عمرہ کیاکچھ دن رہے پھر مدینہ منورہ حاضری ہوئی آٹھ دن مدینہ منورہ میں رہے روزہ اطہر ﷺ پہ سلام کے لئے روز حاضری ہوتی۔ ایک دن روزہ اطہر ﷺسے پہلے ہی اس دیوار کے ساتھ بیٹھ گیامیں اس سوچ میں ڈوب گیا کہ حضور ﷺ کا وصال ہوا ہو گاکس دل،کس جرأت،کس صبر آزما گھڑی سے گزر کر صحابہ کرام ؓ نے محمد الرسول اللہ ﷺ کو دفن کیا ہو گا۔وہ کچھ ایسا منظر میرے دل میں بناکہ میں جو زندگی بھر کبھی نہیں رویا تھاتب سے اب تک آنکھیں نم رہتی ہیں بات بات پہ رونا آتا ہے بلکہ ایک دن کسی نے سوال بھی کیا تھا آپ کو تواب تک روتے نہیں دیکھا اب کیوں روتے ہو؟میں نے کہا تھاکہ جس دل پہ ناز تھا مجھے،وہ دل نہیں رہا۔
یہ ساری باتیں سامنے ہوں تو کیا جشن اور جلوس کو جی چاہتا ہے؟کیا یہ پٹاخے اورآتش بازی چلانے کو جی چاہتا ہے؟ چندے جمع کر کے ڈھول پیٹ کر کس بات کی خوشی منائی جا رہی ہے؟ایک بات اور عرض کر دوں 12 ربیع الاول کو منافقین، مشرکین عرب،یہود اور عیسائیوں نے خوشی منائی تھی کہ حضور ﷺ کے وصال سے شاید اسلام ختم ہو جائے گاجتنے مولوی جشن میں ہوتے ہیں کبھی کسی کے منہ سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ جتنے لوگ جلوس میں ہیں انہیں یہ بھی بتا دیں کہ یہ تو حضورﷺ کے وصال کا دن ہے یہ تو وہ دن ہے جس کے بعد کوئی صحابی ؓ نہیں بن سکانہ قیامت تک بن سکے گایہ تو وہ دن ہے کہ جس دن وہ نعمت ختم ہو گئی کہ بندہ مسجد نبویﷺ میں حاضر ہوتانگاہ دو چار ہوتی حضور ﷺ کی نگاہ اس پر پڑتی یا اس کی نگاہ وجود عالی ﷺ پہ پڑتی توایک آن میں ایک عام آدمی سے شرف صحابیت پر فائزہو جاتااب اللہ کسی کو وہ ہمت، وسائل اورتوفیق دے گاتو محنت کرے گابرزخ میں اس کی رسائی ہو گی حضور ﷺ کی زیارت سے فیض یاب ہو گالیکن صحابی نہیں بن سکے گا۔
ارشادات نبوی ﷺ کا مظہر تعامل صحابہ ؓ ہے، صحابہؓ نے جو عمل کیاوہ دلیل ہے کہ یہ حضور ﷺ کا حکم ہے اور تمام صحابہ ؓ کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں جس طرح ستاروں سے لوگ راہ تلاش کرتے ہیں یہ تمہاری راہنمائی کے لئے وہ ستارے ہیں تم جس کا دامن تھام لو گے ہدایت پا جاؤ گے یعنی صحابہ ؓ سارے کے سارے عادل بھی ہیں ہادی بھی ہیں جس کا دامن تھام لو گے ہدایت پا جاؤ گے ذرا صحابہ ؓسے کوئی جلوس کوئی جشن ثابت کرودنیا میں کسی نے اگر واقعی کسی سے محبت کی ہے تو وہ صحابہ ؓ محمد الرسول اللہ ﷺ ہیں دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی ان کی مثال نہیں اسی لئے آدم علیہ السلام سے لے کرقیامت تک تمام لوگوں سے انبیاؑء کے بعد افضل ترین لوگ ہیں کافر جسے ایمان ہی نصیب نہیں ہوا اس کی تو بات چھوڑیں وہ تو ہے ہی کافروہ تو اپنی خواہشات سے دین گھڑے گالیکن جوایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کے پاس کیا اختیار رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے دین گھڑ لے؟
پتہ نہیں کس بات پہ جشن منائے جاتے ہیں؟اس کے جواز میں کیا ثبوت ہے؟دین کے امین تو صحابہ ؓ ہیں ہمارے پاس سارا دین صحابہؓ سے آیا اور صحابہ ؓ پر تویہ دن قیامت بن کر گزر گیالیکن یہ حجرووصال کی باتیں وہ جانیں جسے کوئی ذرہ محبت کا نصیب ہوا ہوکسی نے اسے حصول زر کا زریعہ بنا دیاکسی نے اپنی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیااور اودھم مچا کر، شہروں میں شور شرابا کر کے بازار بند کر کے مریض مر رہا ہے سڑک پر راستہ نہیں ہے مزدوروں کی چھٹی ہو گئی جو دہاڑی روز کما کر کھاتے تھے ان کا کام بند ہو گیادکانیں بند ہو گیئں کسی کو نہ دوا مل رہی ہے نہ سودا مل رہا ہے کون سا دین ہے؟ کون مناتا ہے؟کس نے کہا ہے؟کون سا جشن ہے یار آج کے دن؟کس بات کی خوشی ہے؟آج کا دن توہے کہ اطاعت کا عہد تازہ کروجو کمی رہ گئی ہے اس کی معافی مانگوکہ بندہ مساجد میں جائے نوافل ادا کرے قرآن کریم پڑھے سارا دن بیٹھ کر درود شریف پڑھتا رہے آج باوضو رہنے کا دن ہے کثرت عبادت اورکثرت سے صلوٰۃ و سلام پڑھنے کا دن ہے صلوٰۃ و سلام اور درود کابھی ایک خاص ادب ایک خاص طریقہ ہے۔
یہ زمین اللہ کے نام سے خالی نہیں ہو گی بلکہ پاکستان کا نقشہ بدلے گا وہ نقشہ یہ ہے کہ سارا برصغیرپاکستان ہو گاان شاء اللہ لیکن یاد رکھیں ہو گا کربلا سے گزر کرآپ دیکھ رہے ہیں دنیائے کفر کی طاغوتی طاقتیں ایک جگہ مجتمع ہو رہی ہیں آج بر صغیر کا ایک حصہ طاغوتی طاقتوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے اور اس کا ایک حصہ نعرہ تکبیر سے گونج رہا ہے یہ ٹکرائیں گے فتح اللہ کے نام کی ہو گی اور سارا بر صغیر ریاست اسلامی بن کر روئے زمین پر احیائے اسلام کا سبب بنے گااگر ہم آج اس طرف پلٹ آئیں تو اللہ ہمیں توفیق دے دے گا ورنہ جو پلٹے گاوہ اس سعاد ت سے بہرہ ور ہو گا اللہ کریم ہماری خطا ؤں کو معاف فرمائے ہمیں نیکی کی توفیق دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں