خیر القرون
تحریر مولانا محمد اکرم اعوان:
انسان جب مومن ہوتا ہے تو ایک درجہ پاکیزگی حاصل کر لیتا ہے۔عالم ہوجاتا ہے، قرآن کریم سمجھتا ہے،حدیث سمجھتا ہے تو پاکیزگی مزید بڑھ جاتی ہے۔ولی اللہ ہوجاتا ہے تو کیفیات حاصل کرلیتا ہے اور یادرکھیں ہرولی اللہ عالم ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس ذاتی علم نہ ہوتو وہ کسی عالم کے پاس ہوتا ہے۔اس کا شَیخ تو بہت بڑا عالم ہوتا ہے۔علم کے بغیر تصوف نہیں رہتا۔ ہرصوفی عالم ہوتا ہے لیکن ہر عالم صوفی نہیں ہوتا۔ علم کے الگ درجات ہوتے ہیں لیکن اگر کسی صفائے قلب نصیب ہوجائے اور عالم بھی ہو تا تو وہ بہت آگے نکل گیا۔ اگر روئے زمین کے سارے علما اوراولیاء کی عظمت جمع کی جائے تو صحابی کی خاک پا کو نہیں پہنچتی۔نبی کریم ﷺ کیسے تزکیہ فرماتے تھے کہ ایک نگاہ میں بندہ صحابیت سے سرفراز ہو جاتا تھا۔صحابی کا لغوی مطلب تو ہے صحبت یافتہ لیکن یہاں اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ نوعِ انسانی میں جو سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہوجائے،نبی کے بعد جس کی عظمت مسلّم ہوجائے،جس کی امانت،دیانت،ورع تقویٰ شکوک و شبہات سے بالاتر ہوجائے۔شرفِ صحابیت اتنی بڑی عظمت ہے کہ جس کا احاطہ اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔اس کی عظمت کا اظہار میدانِ حشر میں، آخرت میں ہوگا۔انسانی عقل، انسانی علوم اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔صحابی ہونا بجائے خود ایک اتنی بڑی عظمت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اصحابی کا لنجوم میرے صحابہ ہدایت کے ستا رے ہیں۔ ستارے جس طرح چاند سے روشنی حاصل کرتے ہیں، اسی طرح صحابہ کرامؓ برکاتِ نبوتﷺ سے روشن ہیں اور رہنمائی فرتے ہیں۔ ان میں سے جس کا دامن تھام لو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ صحابہ میں سے جس کے پیچھے چل پڑو گے وہ ہمیں بارگاہِ الٰہی میں پہنچادے گا۔
صحابہ کرامؓ کی جماعت میں آپ کو عالم ملتے ہیں۔ان پڑھ بھی ملتے ہیں،عالم و زاہد بھی ملتے ہیں اور رایسے بھی ملتے ہیں جو معذور ہیں،جہاد پہ نہیں جاسکے لیکن صحابی ہونے میں کسی میں کمی اورشک نہیں۔مرد بھی ملتے ہیں،خواتین بھی ملتی ہیں۔جو بھی نگاہِ کرم کے سامنے آیا شرفِ صحابیت پاگیا۔وہ قوت صحابہ میں بھی ایسی رہی کہ جو بھی کسی صحابی کی صحبت میں آیا وہ تابعی قرار پایا اور تابعین کا طبقہ الگ ہے۔تابعین میں بھی وہ قوت اس درجہ تھی کہ تابعی کا صحبت یافتہ ہوتا تابعی تو نہ رہا لیکن تبع تابعین کا الگ طبقہ بن گیا۔ یہ خیرالقرون کے لوگ ہیں، بہتر زمانے کے لوگ ہیں،یہ ایسے لوگ ہین جن کی وجہ سے وہ زمانہ ہی بہتر قرار پایا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ تین زمانے بے مثال ہیں جو گزر گئے۔جو آنے والے زمانے ہیں ان میں تین کا ثانی کوئی نہیں۔ پہلا زمانہ، حضور اکرم ﷺ جس زمانے میں اس دار دنیا میں جلوہ افروز تھے اور اس کے بعد آنے والا زمانہ اور اس کے بعد آنے والا زمانہ۔
یہ جو امت میں پیری مریدی کا تصور آرہاہے اس کی اصل یہ ہے کہ تبع تابعین کے بعد تزکیہ حاصل کرنے کے لیے تھوڑی سی محنت کرنا پڑی کہ کوئی شخص ان کی صحبت میں بیٹھ کر ذکر الٰہی اپنے دل کو صاف کرتا،دل کو ان کی طرف متوجہ کرتا اورر وہ اپنے قلب سے انوارات اس کے دل میں القا فرماتے۔ اس طرح ایک طبقہ وجود میں آیا جسے اولیا اللہ کہتے ہیں۔ جب یہ بات عام مسلمان کی اپنی محنت اور ہمت پر آئی تو پھر گنتی کے لوگ رہ گئے۔ پہلے تو ایک سیلاب تھا کہ جو نگاہ پاک کے سامنے آیاصحابی ہوگیا، جو صحابہ کی صحبت میں پہنچا تابعی ہوگیا اور تابعی کی صحبت میں پہنچا تبع تابعی ہو گیا لیکن اس کے بعد یہ دولت صاحب ِ ہمت لو گوں کے حصے میں آئی جنھوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں، جنھوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں،جنھوں نے اپنے قلوب کو پالش کیا،چمکایا۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد:ہر چیز کے لیے پالش ہوتی ہے،صیقل ہوتی ہے جو اسے چمکاتی ہے اور دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے۔ جنھوں نے دل پالش کیے،صاف کیے پھر جن کے دلوں میں نورِ الٰہی جلوہ گر تھا اور فیضان نبوت جلوہ گر تھا انھوں نے اسے ان کے دل کے برتن میں اُنڈیلا،ان پر القا کیا اور انوارات ان کے دل میں جگہ پاگئے تو اس میں طبقے کو اولیاء اللہ کہا گیا۔تو پیری مریدی کا یہ سلسلہ شروع اس طرح سے بنا۔ پھر جب تبع تابعین کا دور گیا تو ولی اللہ رہ گئے۔ اب جن لوگوں کو یہ طلب ہوئی و ہ ان کی خدمت میں پہنچے، اپنے قلوب کو روشن کیا اور وہاں سے انوارات و برکات سے اپنا دل لبریز کر لیا۔یہ اس پیری مریدی کی اصل ہے۔
اسلام میں اولاد کے لیے،جائیداد کے لیے، کاروبار کے لیے،بیماری سے شفا کے لیے،کوئی پیری مریدی نہیں ہے۔ یہ سارے کام اللہ خود کرتا ہے۔دار دنیا میں جو لوگ اس کی عظمت کا انکار کیے بیٹھے ہیں،اس نے دنیوی اسباب و علل ان پر بند نہیں کیے۔وہ دنیوی محنت کرتے ہیں،دنیوی اجر پاتے ہیں۔ ان کی قسمت میں جو روزی لکھی ہے وہ بھی انھیں دیتا ہے،جو اولاد لکھی ہے وہ بھی انھیں دیتا ہے اور دنیوی حالات ان کے لیے مقرر فرمائے وہ سارے عطا کرتا ہے۔ اب اگر خفا ہو کر کسی کی روزی بند کردے،کسی سے ہوا روک دے، کسی سے روشنی روک دے تو لوگ میدانِ حشر میں کہہ سکیں گے کہ بارِ الٰہا!اگرہم نے تجھے نہیں مانا تو تُو نے ہم پر کون سا احسان کیا، تو بھی اپنی نعمتیں روک لیں اور ہمیں بے موت مار دیا۔ ایسا کوئی نہیں کہہ سکے گا،سب تک اس کی نعمتیں پہنچ رہی ہیں، انسان ہی جھوٹا پڑے گا۔قصور انسان کا ہی نکلے گا کہ میں نے تو اپنے کرم کے دروازے بند نہ کیے تھے۔
اگر کوئی ساری زندگی کفر و شرک میں گزار دیتا ہے اور ایک دفعہ خلوصِ دل سے کہتا ہے کہ اے اللہ میں واپس آتا ہوں تو فرماتا ہے کہ اس سارے کو چھوڑ دو اور آجاؤ۔اب اگر اس پر بھی کوئی توبہ نہیں کرتا تو میدانِ حشر میں اس کے پاس کیا جواب ہوگا،کیا اعتراض ہوگا! وہ چاہتا تو فرماتا کہ خود ہی دور نکل گئے ہو اب واپسی کا سفر شروع کرو۔اگر اتنی لمبی زندگی ملی کہ واپس پہنچ گئے تو ٹھیک ہے۔جتنے گناہ کیے ہیں اتنی عبادتیں کرو۔ یہ اس کا کرم ہے کہ وہ کہتا ہے،جب بھی خلوص نیت سے کہہ دو کہ میں نے غلط کیا، اسے چھوڑتا ہوں اور تیری اطاعت کا عہد کرتا ہوں تو میں تیری توبہ قبول کرتا ہوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:گناہ سے تو بہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ یہ ہم نے آج پیری مریدی بنالی ہے کہ وہاں دیگ پکائیں گے تو یہ ہوگااور وہاں سلام کرنے جائیں گے تو یہ کام ہوجائے گا۔ یہ سب جہالت کی رسمیں ہیں اور بر صغیر میں تو ہم نے بہت سی رسمیں ہندوؤں سے لے لی ہیں۔ جس طرح ہندو بتوں سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں اور مختلف امور کے لیے مختلف آستانوں پہ جاتے ہیں،اسی طرح ہم نے بھی بنا لیا ہے کہ اس بیماری کے لیے فلاں قبر پہ جانا چاہیے،اس بیماری کے لیے قبر پہ جانا چاہیے اور اولادکے لیے فلاں قبر پہ جانا چاہیے،ہم نے بھی یہ شعبے بانٹ دیے ہیں۔اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں،یہ رسومات ہیں۔اسلام میں پیری مریدی کا یہ تصور ہے کہ جس کے سینے میں انوارات و تجلیات اور برکات نبوتﷺ ہوں، اس کے پاس جا کر، وہاں بیٹھ کر اپنے دل میں کو صاف کیا جائے،اس کی توجہ حاصل کی جائے اور اپنے دل میں وہ انوارات و برکات داخل کیے جائیں۔نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ،آپ ﷺ کے ارشادات اور آپ ﷺ کے اعمال،آپ ﷺ کا کردار،یہ سارے کیا ہیں!حکمت ہے، قرآن کریم کی تفسیر ہے، اللہ کی باتوں کاعملی اظہار ہے۔
