حکومت کا نواز شریف کی صحت کی ذمہ داری لینے سے انکار 1

حکومت کا نواز شریف کی صحت کی ذمہ داری لینے سے انکار

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور چئیرمین نیب جاوید اقبال نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کی صورت میں ان کی صحت کی ذمہ داری کا بیان حلفی دیں جبکہ ڈیل کی باتیں کرکے منتخب وزیراعظم اور عسکری اداروں کو بدنام کیا جارہا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے نوازشریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست کی جلد سماعت کےلیے شہباز شریف کی درخواست کی سماعت کی۔

نواز شریف کو دل کا دورہ
درخواست گزار کے وکیل نے نواز شریف کی صحت سے متعلق نئی رپورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی پیش کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کو مائنر (ہلکا) ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر طبیعت انتہائی تشویشناک ہے تو بتائیں، کیا فریقین نے لاہور میں ضمانت کی مخالفت کی؟۔ وکیل نے بتایا کہ زیادہ مخالفت نہیں کی۔

صوبائی حکومت کو سزا معطلی کا اختیار

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو اختیار ہے وہ سزا معطل کر سکتی ہے، ڈویژن بنچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، فریقین اور پنجاب حکومت کو بلاکر پوچھ لیتے ہیں، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں بھی تحریر ہے کہ نواز شریف کی طبیعت تشویشناک ہے، ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنے چاہیے۔

عدالت نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور چئیرمین نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج ہی کوئی نمائندہ مقرر کر کے چار بجے عدالت بھجوائیں، متعلقہ حکام اپنے نمائندے منتخب کرکے رپورٹ پیش کریں۔

ڈیل

ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرارآفس نےبتایاٹی وی چینلزپرڈیل سےمتعلق خبریں نشرکی گئیں جس پر متعلقہ چینلزاوراینکرزکوتوہین عدالت کےنوٹس جاری کرکے آج شام چار بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

بعدازاں کچھ دیر بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست کی سماعت کی۔ رجسٹرار آفس نے بتایا کہ تمام فریقین بشمول چیف سیکرٹری پنجاب، اٹارنی جنرل آفس اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل اور 5 اینکرپرسنز کو فون کرکے عدالتی حکم سے آگاہ کردیا گیا ہے۔

نواز شریف کی خرابی صحت کے ذمہ دار

عدالت نے کہا کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور چئیرمین نیب کے نمائندگان عدالت کو بتائیں کہ وہ نواز شریف کی سزا معطلی کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟ مخالفت کی صورت میں حلفیہ بیان دیں کہ اگر نواز شریف کی صحت مزید خراب ہوئی تو بیان حلفی دینے والے ذمہ دار ہوں گے۔

سیاسی معاملات میں نہیں الجھناچاہتے

شام 4 بجے حکومتی نمائندے اور اینکرز حامد میر، سمیع ابراہیم، محمد مالک، عامر متین اور کاشف عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ نے اینکرز سے کہا کہ عدالت نےبڑے تحمل کا مظاہرہ کیا، بڑی معذرت کےساتھ آپ کوبلایا، ڈیل کی باتیں ہوتی ہیں توبات عدلیہ پرآتی ہے، مہذب معاشرےمیں ایسانہیں ہوتا، ہم ایک فیصلہ دیتےہیں تو ججزسےمتعلق میڈیاٹرائل اور سوشل میڈیا ٹرائل شروع ہوجاتاہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت سیاسی معاملات میں نہیں الجھناچاہتی، ایک اینکرنےوثوق سےکہاڈیل ہوگئی ہے، بتائیں کون ڈیل کررہاہے؟ کیاوزیراعظم اورعدلیہ ڈیل کاحصہ ہیں؟، کیس بعدمیں عدالت آتا ہے میڈیاٹرائل پہلےہوجاتاہے، ایسی باتیں ججز کو متنازع بناتی ہیں۔ عدالت نے ڈیل سےمتعلق خبروں پراینکرزسےتحریری جواب طلب کرلیا۔

وزیراعلی پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان، نیب کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیئر رضوی اور وفاقی حکومت کی جانب سے سیکرٹری داخلہ اعظم سلیمان عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈیل کی باتوں سے عسکری ادارے اور وزیراعظم بدنام

جسٹس اطہر من اللہ نے چئیرمین پیمرا کے نمائندے سے کہا کہ بتائیں ڈیل کون کر رہا ہے، آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں۔

Leave a Reply