اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کا علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کا معاملہ اس وجہ سے حل نہیں ہو پا رہا کیونکہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ہے اور وہ ضمانت کے باوجود وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جا سکتے۔اس میں شدت اس وقت آئی جب وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے سابق وزیراعظم سے مقدمات کی مالیت کے برابر گارنٹی جمع کروانے کا مطالبہ کر دیا جسے ن لیگ نے نہیں مانا۔
قانونی حلقوں میں اس وقت یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا ضمانت پر رہا نواز شریف سے ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لئے گارنٹی مانگنا ایک قانونی عمل ہے یا نہیں؟
اس حوالے سے قانونی ماہرین میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔
قانون کیا کہتا ہے؟ اورکیا عدالت کے علاوہ حکومت ضمانتی بانڈز طلب کر سکتی ہے؟
اس بات کا جواب دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ اکرم قریشی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کسی بھی سزا یافتہ قیدی کی سزا کو معطل کرنے کے لئے شرائط کا عائد کرنا یا نہ کرنا صوبائی حکومت کی صوابدید ہے۔
اس حوالے سے ضابطہ فوجداری کی شق 401 اور 402 ہر چیز واضح کرتی ہیں کہ حکومت کسی بھی شخص کی سزا میں تخفیف، معطلی یا مکمل ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور اس حوالے سے وہ اس کو مشروط یا غیر مشروط بھی رکھ سکتی ہے، یہ حکومت کی صوابدید ہے۔‘
لیکن سابق وزیر اعظم نواز شریف چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے پہلے ہی ضمانت پر ہیں تو کیا ان پر اس شق کا اطلاق ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں جسٹس ریٹائرڈ اکرم قریشی کا کہنا تھا کہ ’چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ضمانت دو ماہ تک کے لیے ہے اور حکم میں واضح لکھا ہے کہ اس کے بعد صوبائی حکومت سے رجوع کیا جائے جو اسی شق کے تحت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔
کیا عدالت کے علاوہ حکومت ضمانتی بانڈز طلب کر سکتی ہے؟
جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ محض ای سی ایل سے نام نکالنے کا نہیں بلکہ دو ماہ کے بعد سزا کی مزید معطلی کا بھی ہے۔ دونوں معاملات کو ملا کر دیکھا جائے تو بات واضح ہو گی۔‘
سپریم کورٹ کے سابق سیکرٹری آفتاب باجوہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے چونکہ 2016 کے اپنے ایک فیصلے میں ای سی ایل میں نام ڈالنے یا نکالنے کا اختیار وفاقی کابینہ کو تفویض کر دیا ہے اور کابینہ کی طرف سے عدالتی طرز پر زر ضمانت مانگنا اپنی نوعیت کا واحد معاملہ ہے اس سے پہلے ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
’میرے خیال میں ضمانتی بانڈز کا مانگنا ایک قانونی عمل نہیں بلکہ اختیاراتی یا ایگزیکٹو معاملہ ہے۔ اور یہ مسئلہ اس لیے بھی پیچیدہ ہے کیونکہ نواز شریف ایک ہی وقت میں سزا یافتہ قیدی اور ایک مقدمے میں انڈر ٹرائل ہیں۔ یوں یہ معاملہ حکومت اور نواز شریف کا نہیں بلکہ عدالت اور نواز شریف کا ہے۔‘
آفتاب باجوہ کہتے ہیں کہ ’بظاہر یوں لگتا ہے کہ ہر کوئی اس ذمہ داری سے کترا رہا ہے کیونکہ سابق صدر پرویز مشرف کی مثال سب کے سامنے ہے۔ جو بھی اجازت دے گا کل کو اسی سے پوچھا جائے گا۔‘
لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق سیکرٹری رانا اسد اس معاملے کو سیاسی سمجھتے ہیں انہوں نے کہا ’جب آپ قانون کی بات کرتے ہیں تو آپ اس کو حال میں درپیش صورت حال کی قانونی توجیح پر پرکھتے ہیں۔اس وقت نواز شریف عدالتی ضمانت پر ہیں اور عدالتوں کو پتا ہے کہ ضمانت میڈیکل گراونڈ پر دی گئی ہے کسی سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں میڈیکل بورڈ کی رپورٹس ضمانت کے فیصلوں میں گراونڈ کے طور پر رکھی گئیں ہیں۔انہوں نے کہا جب عدالت نے کوئی قدغن نہیں لگائی اور ان کی صحت کو قانونی حق تسلیم کیا ہے تو ایک قانونی عمل کے دوران اختیاراتی عمل کا اطلاق کرنا صریحا غیر قانونی عمل ہے اور عدالتی اختیارات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔‘
لاہور ہائی کورٹ بار کے ہی سابق نائب صدر میاں محمد اسلم جو فوجداری مقدمات کے ماہر وکیل ہیں ان کا کہنا ہے ’حکومتی ڈیمانڈ کا قانون سے کوئی تعلق نہیں ای سی ایل کے قانون میں عدالت کے مساوی صورت حال کا پیدا کرنا حکومت کی ذاتی اختراع ہے۔زر ضمانت مانگنا حکومت کا کام نہیں یہ عدالتوں کا کام ہے اس سے پہلے ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ کسی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لئے ضمانت مانگی گئی ہو۔‘وکلا کی اس بحث میں ایک چیز تو واضح ہے کہ نواز شریف کی سزا معطلی کے بعد بیرون ملک علاج کے لیے جانے کا معاملہ اپنی نوعیت کا ایک واحد واقع ہے کیونکہ اس پہلے مشرف دور میں جب وہ دوران سزا جلا وطن ہوئے تو صدارتی معافی کے ذریعے ان کی سزا کو پہلے ختم کیا گیا پھر وہ سعودی عرب گئے اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف انڈر ٹرائل ہی علاج کی غرض سے ملک سے باہر گئے۔‘