حج کی فضیلت
مولانا محمد اکرم اعوان:
اسلام کے ا رکان میں سے ایک رکن حج ہے۔ اسلام کے بنیادی ستون یا ارکان پانچ ہیں۔ کلمہ طیبہ، اللہ کی ربوبیت،نبی رحمت ﷺ کی نبوت کا اقرار اور غیر اللہ کی ربوبیت کا انکار۔ اس کے بعد پانچ وقت کی فرض نماز کی پابندی،تیسرا ہر سال رمضان المبارک کے روزے، چوتھا رکن زکوٰۃ اور پانچواں رکن حج ہے یہ زکوٰۃ اورحج کو چوتھے اور پانچویں نمبر پر اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ ہر ایک پر فرض نہیں ہیں ان کے لیے ایک خاص مالی معیار مقرر ہے۔
حج اس آدمی پر فرض ہوتا ہے جو مالی اعتبار سے اس قابل ہو کہ آنے جانے اور وہاں کی رہائش کا خرچ اس کے پاس ہو جتنا عرصہ گھر سے باہر رہنا ہے اتنے عرصے کا خرچ اپنے زیرکفالت حضرات کو دے کر جائے۔ انسان کی صحت اس کو آنے جانے کی اجازت دیتی ہو، یہ ساری باتیں ہوں تو پھر اس پر حج فرض ہوتا ہے۔ان میں سے ایک بھی بات نہ پائی جائے تو حج اس پرفرض نہیں ہوتا۔اگر حیثیت ہو تو مسلمان بیت اللہ شریف میں جائے۔حج کے ارکان ہیں لیکن ان سب ارکان کا حاصل اور ایک نتیجہ بھی ہے اگر آپ مختصر ترین الفاظ میں بیان کر جائیں تو وہ یہ ہو گا کہ اللہ کریم کے سامنے ہتھیار پھینک دینے کا نام حج ہے یعنی اپنے اختیار اور ارادے سے کفن لپیٹ کر غسل کر کے دو نفل ادا کر کے بیت اللہ شریف میں حاضر ہو کر اللہ کے روبرو یہ اقرار کر ے کہ خدا یا! جو ہو چکا وہ ہو چکا تو گزشتہ معاف کر دے،آئندہ کے لیے وعدہ کرتا ہوں تیری نا فرمانی نہیں کروں گا۔ اللہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا نام حج ہے۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی بار بار تو شکست تسلیم نہیں کرے گا۔ شکست یا فتح کا فیصلہ تو ایک بار ہو جاتا ہے۔اس لیے حج زندگی میں ایک بار فرض ہے۔
جن کے پاس وسائل نہیں ہیں جو وہاں نہیں پہنچ سکتے،جن کے پاس ذرائع نہیں ہیں ان کیلئے ہر جمعہ حج کی فضیلت رکھتا ہے۔ہمیں کس نے بتا یا کہ مکہ مکرمہ جاؤ؟ حج ہوگا یہ بتایا ہے نبی رحمت ﷺ نے تو وہی اللہ کے رسولﷺ جب ارشاد فرمارہے ہیں کہ اگر تمھارے پاس وسائل نہیں ہیں تو تم ہر جمعہ کو حج کیا کرو۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں جو شخص فجر کی نماز پڑھ کر اپنی جائے نماز یا مسجد کو نہیں چھوڑتا کہ اشراق پڑھ کر جاؤ ں گا،تلاوت کر تا ہے، ذکر و اذکار کرتا ہے حتیٰ کہ سورج نکل آتا ہے وہ اشراق کے دو یا چار نفل پڑھ کے چلا جاتا ہے تو اسے حج نہیں حج کے ساتھ عمرے کا ثواب ملتا ہے یا جو شخص جمعے کی ادائیگی کے لیے غسل کرتا ہے کپڑے بدلتا ہے جامع مسجد جا کر جمعہ ادا کر تا ہے تو حضور ﷺ فرماتے ہیں غریب کا حج اس کی جامع مسجد ہی میں ہے تو جو وہاں نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے قریب اپنے جمعہ کی مساجد میں جائیں یہ بھی تو اللہ کی مسجد یں ہیں یہیں سے اللہ سے بات کر لو کہ خدایا وہاں تک جانے کے میرے پاس اسباب نہیں ہیں کہ وہاں سرنگوں کرتا۔ تو نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے تو میں یہاں ہی تیری بارگاہ میں اعتراف شکست کرتا ہوں اور تیری حکومت قبول کرتا ہوں۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنے کردار پر نظر کریں ہم اپنے آپ کے ذمے دار ہیں۔ اپنے آپ کو اللہ کے روبرو پیش کرکے اپنے اختیارات اسکے حوالے کرنا چاہیے اور اپنے لیے اللہ سے نجات مانگنی چاہیے۔
حج کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے گذشتہ اعمال کو لاکر وہاں رکھ دیں کہ خدایا میرا سرمایہ تو ہی ہے لیکن میں تیرا عاجز بندہ ہوں اور میں آج تیرے سامنے اپنے اختیار سے دستبردار ہوتا ہوں۔ میں اپنے لیے کچھ نہیں سوچوں گا میں اپنے لیے کچھ نہیں کروں گا میں اپنی مرضی سے کہیں جاؤ ں گا نہیں تو مجھے حکم دے گا تو میں کہیں جاؤں گا۔ تو اجازت دے گا تو میں سوؤں گا، تو جگائے گا تو میں جاگ اٹھوں گا، تو کہے گا تو میں سجدہ کروں گا، تو کہے گا بس کر میں بس کروں گا۔آج میری حکومت ختم اور تیری حکومت کو میں قبول کرتا ہوں۔اپنے آپ کو ان باتوں کے لیے جن سے اللہ کریم راضی ہوں، ذہنی طور پر اور ارادی طور پر تیار کر کے لے جاؤ اور وہاں جا کر واقعی اللہ کے سامنے ہتھیار پھینک دو اور اللہ کی حاکمیت کو دل سے قبول کر لو۔
ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم جہاں بھی ہیں وہاں رب جلیل سے یہ عہد کریں کہ خدایا تو ہماری توبہ قبول فرما اور ہمیں بھی اپنے گھر پہ حاضری کی سعادت نصیب فرما۔ روضہ اقدس کی زیارت نصیب فرما،طواف سعی نصیب فرما، عرفات میں جانے کی سعادت نصیب فرما، اللہ قادر ہے سب کو عطا فرما سکتا ہے لیکن اس حال میں کہ تو ہم سے راضی ہو اور ہم تیرے اطاعت گزار بندے بن چکے ہوں۔ ہمارے دل کی د ھڑکنیں ہوں اور تیرا نام ہو ہمارے اعضاء وجوارح ہوں اور تیری اطاعت ہو۔ہماری پیشا نیاں ہوں اور تیرا دروازہ ہو ہمارے ہاتھ اٹھیں توتیری بارگاہ میں، سر جھکیں تو تیرے حضور،اسی پہ زندہ رکھ، اسی پہ موت نصیب فرما اورایسے ہی لوگوں کے ساتھ یوم حشربھی اکٹھا فرما جس ہستی کی دعوت پر لبیک کا اثر یہ ہوا کہ آپ نے اتنا طویل سفر کیا اور اب آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ ہجرت کی حقیقت کیا ہے؟ جس ٹھکانے کو اللہ کیلئے چھوڑ دیں ایسے ٹھکانے پہ چلے جائیں جہاں اللہ کا حکم ہو۔آپ نے شہر یا ملک چھوڑ دیا لیکن اس سے بھی کڑی ہجرت یہ ہے کہ آپ بُری عادتیں چھوڑ دیں،اپنے مزاج کو بدلیں،سوچ کو بدلیں، کردار کو بدلیں۔ہجرت کی بنیاد بھی یہی ہے کہ جہاں جہاں ہم اللہ کے نافرمان ہیں وہاں سے نکل آئیں اور وہ طریقہ اپنائیں جو رب جلیل کو پسند ہے۔ اگر ایسا کر لیا تو پھرحرام کیسے کھا یا جا سکتا ہے؟ کس طرح سے بہو بیٹیوں کو بے آبرو کیا جاسکتاہے؟ کس طرح باقی زندگی میں اللہ کی اطاعت چھوڑ سکتے ہیں؟ اللہ نے ہمیں اپنے گھر کا طواف نصیب فرمایا اب اللہ سے محبت کرنے والے بلکہ اللہ سے عشق کرنے والے ہو جائیں۔ہمارے ہاتھ اٹھیں تو اطاعت رسولﷺ میں،ہمارے سینوں میں عشق رسول ﷺ موجزن ہے کہ ہمیں درِاقدس پہ حاضری نصیب ہوئی اب ہم عام آدمی نہیں ہیں لہٰذا اپنی ذمہ داریو ں کا احساس کرنا چاہیے اپنی اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اللہ کریم ہمیں توفیقِ عمل دے۔آمین