جشن آزادی یا دائمی غلامی؟
مولانا محمد اکرم اعوان:
اللہ کریم نے ہمیں آزاد رکھا تھا ہم نے اس خطے پر صدیوں حکومت کی اورمسلمان حکمرانوں کا کردار تاریخ میں مثال کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ بادشاہ اچھے بھی ہوں گے اور ایسے بھی ہوں گے جو اچھے نہیں ہوں گے اس ہزار سالہ عہد میں ایک دو حکمران ایسے بھی آئے ہیں جنہیں تاریخ اچھا نہیں سمجھتی اورباقی مثالی بادشاہ آئے ہیں جو مثالی حکمران، عابد اور زاہد، نیک،عالم اور پارسا بھی تھے یہ تو ہمارے آج کے میڈیا پر بھانڈ اور ڈوم جمع ہو گئے ہیں جو مسلمان بادشاہوں کی نکلیں اتارتے ہیں اور ان پر طنز کرتے ہیں لوگوں نے سکھوں کے لطیفے بنائے ہیں لیکن ہمارے ٹی وی نے کبھی سکھوں پر طنز نہیں کیا۔ہندو،راجپوت، فرمانوا،راجے، لٹیرے،ڈاکو،ظالم کبھی کسی پر کسی نے تنقید نہیں کی کیو نکہ یہی میڈیا ہماری ساری قوم کا ذریعہ علم بھی ہے ساری قوم اسی طرح سمجھتی ہے اگر حقائق کی طرف جائیں توانگریزوں نے مسلمانوں کی تاریخ بگاڑی بھی بہت ہے مرہٹے،پیشہ ور ڈاکو تھے انہیں بہادر لکھا جب کہ مسلمان حکمران عادل او ر صالح لوگ تھے، انہیں ڈاکو لکھا ہمار اآج کا دانشور تحقیق سے نابلد ہے پیچھے جا کر تحقیق نہیں کرتا جو تاریخ انگریزوں نے اپنی رائے سے بنوائی اسی کو پڑھ کراپنی دانش بکھیرتا رہتا ہے یہ کون سی دانش مندی ہے کہ آپ اغیار سے اپنے اسراف کو جانیں؟ ان لوگوں سے جانتے ہیں جو مسلمانوں کے دشمن تھے دنیا میں اور بھی قومیں تھیں اور لوگوں نے بھی تاریخ لکھی ہے کبھی انگریزوں کے سحر سے نکل کر کسی دوسری تاریخ کا بھی مطالعہ کر لیں باقی دنیا مسلمان حکمرانوں کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
مسلمانوں نے ہندوستان کو اتنا آباد کیاکہ برطانیہ،فرانس اور چین سے لوگ یہاں روزگار کی تلاش میں آتے تھے جب زمانہ بیت گیا خانہ جنگیاں آ گئیں چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بن گئیں حکومت سکھوں اورمرہٹوں نے چھین لیں اس کے بعد انگریز آکر ان ٹولیوں سے لڑے اس وقت انگریز کے سامنے صرف ایک ہی رکاوٹ تھی اور وہ تھاسلطان ٹیپوشہید، بنگا ل میں نواب سراج ا لدولہ شہید تھا، پورے ہندوستان میں ایک طرف سلطان ٹیپوشہید کے ماموں کو خرید کراسے رلایا گیا دوسری طرف نواب سرج الدولہ شہید کے ماموں کو خریدا گیا کہ حکومت تمھیں دے دیں گئے انھیں دھوکے سے شہید کرادیا گیا اسکے بعد سارے ہندوستان پر انگریز قابض ہو گیا درمیان میں وہ سار ا عہد خانہ جنگی کا گزرا، سکھوں،ہندوں، مرہٹوں کا زمانہ بھی،راجے، مہاراجوں کا زمانہ بھی گزرالیکن اس کے باوجود جو ہندوستان مسلمانوں نے بنایا تھاانگریز کے قبضے میں آنے کے بعد ہندوستان کا حال یہ تھا کہ ایک ا نگریز نے برطانوی اسمبلی میں رپورٹ پیش کی وہ کہتا ہے کہ میں نے ہندوستان میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک سفر کیا ہے۔
beggar no no theif I found مجھے پورے ہندوستان میں کوئی گدا گر نظر نہیں آیا کوئی چور نظر نہیں آیا یہ مسلمان حکمرانوں کی حکومت کا ثمر تھا کہ اغیار بھی سدھر گئے تھے کسی کو چوری کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی اور نہ ہی کسی کوگدا کی ضرورت رہی تھی اور یہ مسلمانوں کی حکومتیں گزرنے کے ایک صدی بعد کا واقعہ ہے اس نے پھر مشورہ دیاکہ اگر تمہیں مسلمانوں پر حکومت کرنی ہے،ہندوں کو چھوڑ دو ہندو تو ہر طاقت کے پجاری ہیں بڑا پہاڑ دیکھیں گے،بڑا جانور دیکھیں گے،بڑا سانپ دیکھیں گے سجدے میں گر جائیں گے بڑا دریا ہو گا پوجاشروع کر دیں گے طاقتور قوم آ جائے گی اس کی پوجا شروع کر دیں گے تم طاقتور ہو تمہارے آگے سجدے کرنے لگ جائیں گے اگرمسلمانوں پر حکومت کرنی ہے تودو کام کرنے پڑیں گے ایک ان کی تاریخ مسخ کردو اپنے بڑوں کے کارنامے انہیں بڑھا چڑھا کرسناؤ ان کے ہیرو اپنے یورپین کو بناؤ مسلمانوں کے قوی ہیروز کو چور ڈاکو کہہ کر مسترد کر دواور ان کا ذریعہ تعلیم،جو انہیں اسلام سکھاتا ہے، اسے بند کردومسلمانوں کا دین ان سے چھین لو، انہیں صرف جمع،تفریق،ضرب اور تقسیم سکھاؤ اللہ اوررسول ﷺکی بات ان کے کانوں تک نہ پڑنے دو ان کا نصاب تعلیم بدل دو ان کی ریڑھ کی ہڈی ان کا علم ہے جب ان سے قومی غیرت نکل جائے گی دینی علم بھی نکل جائے گاتو یہ لوگ ہماری غلامی کرتے رہیں گئے اور اسی پراس نے کام کیا۔
الحمد للہ اس وقت کے علماء کرام نے جہاد کیاجو لوگ اللہ تعالیٰ کے مقرب اور محبوب تھے وہ بوریے بسترے پر، روکھی سوکھی کھا کے گزارا کرتے رہے زکوٰ ۃ، صدقات وغیرہ مانگ کر دینی علوم کا سلسلہ جاری رکھا اور یوں ہم تک دین پہچانے کاذریعہ بنے اللہ ان پر کروڑوں، کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور دوسرا یعنی دنیاوی اور قومی شعبہ تاریخ وغیرہ کا، یہ سارے لوگ بھنگ پی کر انگریزوں کے ساتھ ہی مل گئے اس شعبے کی حفاظت کا کوئی سامان ہی نہ ہو سکا اب ہمارے بچوں کے سامنے جب کسی ہیرو کا نام لیں تو نپولین بونا پاٹ اور سکندر اعظم کو تو یہ جانتے ہیں محمد بن قاسم کو کوئی نہیں جانتا بلکہ ہمارا ایک سیاست دان جو کہ قومی اسمبلی کا رکن بھی تھا پچھلے دنوں وہ فوت ہو گیا، کہہ رہا تھا کہ محمد بن قاسم تو ایک در انداز تھا، invader انگریزی میں اس نے استعمال کیا دوسرے ملک میں جو حملہ آور ہو تا ہے،مداخلت کرنے والا،محمد بن قاسم ایک invader تھا ہمارا ہیرو تو راجہ داہر ہے یہ انگریز کی تعلیم کا نتیجہ ہے کاش ہم واقعی آزاد ہو گئے ہوتے جسے ہم آزادی سمجھتے ہیں دراصل ہم آزادی کی غلط فہمی میں ایک درجہ اور نیچے چلے گئے پہلے ہم انگریز کے غلام تھے اب انگریز کے غلاموں کے غلام ہو گئے یہ ہمیں ایک درجہ اور نیچے لے گئے یہ کون سی آزادی ہے؟کہ یورپ امریکہ کے بچے جو سرمنڈا کے حالت بنائیں ہمارے بچے بھی وہی حالت بنا لیں کیا یہ آزاد لوگ ہیں؟ ان سے تو وہ چرواہے، افغان جنگلی اور ان پڑھ آزاد ہیں جن کا اپنا ایک حلیہ ہے میں نے دو قوموں کو دیکھا ہے میں نے پٹھانوں کو کینڈا، امریکہ اورجاپان تک دیکھا ہے وہی شلوار، قمیض اورواسکٹ پہن کر تین نسلوں سے رہ رہے ہیں یا پھر میں نے سکھوں کو دیکھا ہے وہی کھیس اوروہی داڑھی رکھی ہوئی ہے باقی ہم تو یار جدھر جاتے ہیں ویسے ہی ہو جاتے ہیں مجھے حیرت ہوتی ہے لوگ یہاں (دارلعرفان منارہ چکوال) مجھے ملنے آتے ہیں بچے نے ایک تنگ سی پتلون پہن رکھی ہے ادھر ادھر سے کاٹ کر درمیان میں چھترا سا بنا ہوا ہے بعض نے پیلا رنگ لگا ہوا ہے بعض میں نیلا کیوں؟ کیونکہ انگریز،امریکن ایسا کرتے ہیں یار تم کس کی امت ہو؟ انگریزوں کی یا محمد الرسول ﷺ کی؟ قیامت کوتم کس قوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہو؟تمہارے ساتھ دنیا میں کیسا سلوک ہو؟ جیسا ان کے ساتھ ہورہا ہے بڑا خوشحال ہے امریکہ،پتہ ہے امریکہ میں قانون ہے کی بیٹی کسی کے ساتھ زنا کررہی ہو اور اوپر سے باپ آ جائے دیکھ لے تو اسے کہنا پڑتا ہے کہ
enjoy your life, have a nice timeقانوناً کہ موج کرو مزے کرو نہ کہے تو اس کے خلاف پرچہ ہوسکتا ہے اسے منع کرے تو پولیس پکڑ لیتی ہے یہ دنیا میں ان کے ساتھ ہورہا ہے انہیں تم آزاد سمجھتے ہو جن کا یہ حشر ہے؟کوئی کسی کی ماں نہیں، کوئی کسی کی بہن نہیں،کوئی کسی کی بیٹی نہیں، کوئی کسی کا خاندان نہیں، ہر کوئی اکیلا، اکیلا جی رہا ہے کوئی عزت نہیں، کوئی آبرو نہیں، کوئی حلال نہیں، کوئی حرام نہیں، جہاں بھر کی غلاظتیں کھا رہے ہیں کیا یہ خوشحالی ہے؟ ان جیسے بن کر ہم بھی گدھے اورکتے کھانے تک تو پہنچ گئے ہیں اور ہم جو اُن کی برآمدی چیزیں کھاتے ہیں چاکلیٹ اور اس طرح کی بے شمارنام ہیں وغیرہ وغیرہ کسی میں خنزیر کی چربی ہے اور کسی میں مردار شامل ہے اوریہاں پاکستان میں ہمارے مسلمان کہلانے والے بھائی جو تیل بنا رہے ہیں اور جو کچھ ہوٹلوں پر پک رہا ہے جو مٹھایا ں ہم کھاتے ہیں ٹی وی والے کئی دفعہ پکڑ کر دکھاتے بھی ہیں ہے میرا خیال ہے جہاں یہ بناتے ہیں وہاں تو کوئی کتا بھی نہ کھائے چمکا چمکو کے رکھ دیتے ہیں اور ساری دنیا کھا رہی ہے بنانے والے کو اگلے دن وہ کہہ رہے تھے کہ یار اس میں سے تھوڑی سی چٹکی تم بھی کھاؤ تو سہی تو وہ نہیں کھا رہا تھا،اس نے کہا یار لوگوں کوپیسے لے کر کھلا رہے ہو تمہاری مٹھائی پاکستان بھر مشہور ہے تو ایک چھوٹی سی برکی خود بھی کھاؤ۔ نہیں جی نہیں،یہ بہت گرم ہے،ٹی وی والے نے کہا کہ آدھا گھنٹہ ہوگیا ہے ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو ہاتھ کو گرم نہیں لگی کھانے میں گرم ہے وہ خود نہیں کھاتا،کیو نکہ اس میں تو سارا زہر، گند اور غلاظت ہے کبھی تجربہ تو کریں جس دکان سے مٹھائی لیتے ہیں اسے کہیں ایک پیڑا خودبھی کھاؤ وہ بالکل نہیں کھائے گا کوئی کارندہ ہویا بیچنے والا ہو توالگ بات ہے مالک سے کہیں وہ قریب بھی نہیں جائے گا آپ کو بڑی مہنگی دے گا ورق لگا کر بیچے گا یہ چیزیں ہم میں کہاں سے آرہی ہیں؟ وہیں سے جن جیسا بننے کی ہم کوشش کررہے ہیں اسلام تو ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا مدینے سے چیزیں نہیں آرہیں مکہ مکرمہ سے نہیں آ رہیں حرم پاک سے نہیں آ رہیں۔
اللہ ہمیں ہدایت دے اللہ کی بخشش بہت وسیع، بڑی عام ہے نبی کریمﷺ کی بشارتیں دل باغ باغ کردیتی ہیں ایک کلمہ طیبہ صدق دل سے پڑھ لوتمہارے اور جہنم کے درمیان بڑے فاصلے ہو گئے تم جنت پہنچ گئے ہم سے یہ بھی نہیں ہوتا اللہ کریم ہم پر رحم فرمائے اللہ کے قانون کے مطابق زندگی گزارنا اسلام ہے تنگی دے افلاس دے بھوک دے، بھوکے رہ کر اللہ کا شکر اداکرنا اسلام ہے اللہ دولت دے امارت دے،عزت دے اس میں رہ کر اللہ کی اطاعت کرنا اسلام ہے اور غریبی میں اطاعت آسان ہے امیری میں بڑی مشکل ہوجاتی ہے بہت سے گنا ہ ایسے ہیں جو بندہ غربت کی وجہ سے نہیں کر سکتا، بچ جاتا ہے امیری میں ہر گناہ آسا ن ہوجاتا ہے امراء کے لئے سنبھل کررہنا غریب کی نسبت مشکل ہوتا ہے اللہ کریم ہماری حفاظت فرمائے ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں ان بشارتوں کا مستحق بنائے۔