جہاں ظلم ہوتا ہے وہاں مزاحمت بھی ہوتی ہے، چنانچہ 14اگست 1947ءسے کشمیری عوام کی مزاحمت جاری ہے۔ طویل اور صبرآزما …. کبھی سست اور مدھم پڑ جاتی ہے اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک چنگاری پورے خطے میں آگ لگا دے گی۔ ان کی طویل جدوجہد میں کئی نشیب وفراز آئے، کبھی ان کی عاقبت ناادیش قیاد ت نے بھارتی حکمرانوں کی منافقانہ سیکولرازم کے ساتھ سودے بازی کرلی تو کبھی پاکستانی حکمرانوں نے نیم دلانہ اور بُزدلانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے عین اس وقت دھوکہ دیا جب دوچار ہاتھ ”لب بام“ پہنچنے کو رہ گئے تھے۔ اسی دوران بھی کشمیری حریت پسندوں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا اور کبھی پوری وادی ان کی قربانیوں کے خون سے لالہ زار بن گئی اور کبھی ان کو قید و بند اور جلاوطنی سے دوچار ہونا پڑا۔ جہاں تک عالمی قوتوں کا تعلق ہے تو ان کی اوّلین ترجیح ہمیشہ بھارتی حکمران رہے۔ کشمیری عوام کبھی بھی کسی طاقت کے مفاد کے چوکھٹے میں فٹ نہیں بیٹھے۔ دیکھا جائے تو گزشتہ ایک ہزار سال سے جاری وساری ہندو مسلم تضاد پوری طرح اُبھر کر سامنے آیا اور یہ تضاد مسئلہ کشمیر کی صورت میں اب تک سامنے ہے۔
تنازعہ کشمیر کا تاریخی پس منظر تاریخ کا ایک ایسا طویل باب ہے جس کی ایک ایک سطر ظلم کی داستانوں کی عکاس ہے۔ یہ بات ہے 14اگست 1947ءکی، جب دُنیا کے اُفق پر پاکستان کے نام سے ایک آزاد ملک طلوع ہوتا ہے۔ برصغیر میں یوں تو بڑے بڑے تنازعات نے جنم لیا مگر ایک تنازع مسئلہ کشمیر جو سامراجی قوتوں کا شکار رہا، جب کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ قرار دیا گیا تو بھارت کو برطانوی حکمرانوں، لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے ساتھ پورے ہندﺅں کی حمایت حاصل تھی۔ سامراجی سیاست میں عملاً قانون اور اخلاق کی کوئی گنجائش تک نہیں ہوتی۔
27 اکتوبر کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اس کے پس منظر کی کہانی سازشوں سے بھری پڑی ہے جس کا یہاں مفصل بیان کرنا ممکن نہیں، مختصراً ”جب قبائلی لشکر کے کشمیر پر حملے کی اطلاع نئی دہلی پہنچی تو 25 اکتوبر کو ماﺅنٹ بیٹن نے ایک ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ کشمیر میں مہاراجہ کی حکومت کو امداد کے لیے بلا تاخیر بھارتی فوج بھیجی جائے گی لیکن ماﺅنٹ بیٹن کی تجویز کے مطابق اس فیصلہ پر یہ شرط عائد کی گئی کہ مہاراجہ پہلے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرے۔ جوزف کوربل کی رائے یہ ہے کہ ماﺅنٹ بیٹن کا رویہ کشمیر کے معاملے میں ہندوستان کی جانبداری پر مبنی تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ماﺅنٹ بیٹن نے یہ مشورہ کیوں دیا تھا کہ ہندوستان کی فوجی امداد پر الحاق کی شرط عائد کی جائے؟ وہ کیسے یہ دلیل پیش کر سکتا تھا کہ کشمیر جو اس وقت تک تکنیکی طور پر آزاد ملک تھا، الحاق کی درخواست کیے بغیر قانوناً فوجی امداد طلب نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے لازمی طور پر یہ فرض کر لیا ہو گا کہ حکومت پاکستان ایسے الحاق کی قانونی حیثیت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی جو کشمیری عوام کی رائے معلوم کیے بغیر بروئے کار لایا جائے گا اور اسے یہ بھی ضرور پتہ ہو گا کہ اگر اس مسئلہ پر دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی تو اس کی بنیاد الحاق کی قانونی حیثیت پر نہیں ہو گی بلکہ الحاق کی حقیقت پر ہو گی۔ جوزف کوربل کو اس سوال کا جواب بھی نہیں ملتا کہ اس موقع پر اقوام متحدہ یا حکومت پاکستان سے کیوں رابطہ قائم نہیں کیا گیا تھا۔
لارڈ برڈوڈ بھی حیران ہے کہ ”24 یا 25اکتوبر کو نئی دہلی میں کسی نے وزیراعظم پاکستان سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے اس بحران کو مشترکہ سیاست کاری کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی تھی؟ اگر نہرو کے لیے ازخود ایسا کرنا ممکن نہیں تھا تو کیا اس کے قریب کوئی بھی ایسا دوراندیش شخص نہیں تھا جو اسے ایسا کرنے کی ترغیب دیتا؟ برڈوڈ کے سوالوں کا جواب یہ ہے کہ برطانوی سامراج نے پہلے سے ہی ریاست جموں وکشمیر کو ہندوستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں مقیم اعلیٰ برطانوی سول وفوجی حکام نے کشمیر میں پاکستان کی فوجی مداخلت کی مخالفت کی تھی جبکہ ہندوستان میں سارے اعلیٰ برطانوی سول وفوجی حکام نے ریاست میں ہندوستان کی فوجی مداخلت کی بھرپور تائید وحمایت کی تھی۔ سامراجی ریاست میں عملاً قانون اور اخلاق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
حکومت ہندوستان کی دفاعی کونسل کے فیصلے کے مطابق محکمہ ریاستی امور کا سیکرٹری وی۔ پی۔ مینن اسی دن یعنی 25 اکتوبر کو ہی خاص فوجی ہوائی جہاز کے ذریعے سری نگر پہنچ گیا۔ ہندوستان کی ہوائی اور بری فوج کے دو تین اعلیٰ حکام بھی اس کے ہمراہ تھے۔ مینن نے فوراً ہی مہاراجہ سے ملاقات کر کے اس سے الحاق کی درخواست پر دستخط کروا لیے اور پھر اسے مشورہ دیا کہ یہاں سے جموں چلے جاﺅ کیونکہ قبائلی لشکر نے اسی دن سری نگر سے صرف 35 میل دور بارامولا پر قبضہ کر کے مہوڑہ کے اس پاور ہاﺅس کو نذرآتش کر دیا تھا جہاں سے ساری وادی کشمیر کو بجلی مہیا ہوتی تھی۔ اس کو خطرہ تھا کہ یہ لشکر کسی وقت بھی سری نگر پہنچ جائے گا۔
مینن نے الحاق کی جس درخواست پر دستخط کروائے تھے اس میں اس حقیقت کا خاص طور پر ذکر تھا کہ ”ریاست کشمیر کی سرحد سوویت یونین اور چین سے مشترکہ ہے۔ اگر میری حکومت کی فوری طور پر فوجی امداد نہ کی گئی تو یہ علاقہ آفریدی قبائلیوں کی کارروائیوں کے باعث تباہ وبرباد ہو جائے گا“۔ مینن یہ درخواست لے کر 26 اکتوبر کو دہلی واپس ہوا تو مہاراجہ اسی رات نہایت سراسیمگی کے حالت میں جموں روانہ ہو گیا۔ ڈوگرہ فوج نے مہاراجہ کے فرار میں مدد کرنے کے لیے پٹرول کے سارے ذخائر پر قبضہ کرلیا تھا اور صرف ان لوگوں کو پٹرول مہیا کیا جاتا تھا جو مہاراجہ کے ہمراہ سری نگر سے بھاگ رہے تھے۔ مہاراجہ نے اپنے تمام مال واسباب اور زروجواہر لاریوں میں لدوائے اور جو سامان لاریوں کی قلت کے باعث ان میں سما نہ سکا، اسے تانگوں پر لدوا لیا۔ اس نے پونچھ پہنچنے تک راستے میں کئی جگہ رُک کر اپنی پولیس اور فوج کو یہ ہدایات جاری کیں کہ ریاست کے ڈوگرہ راج کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے جو مسلمان باشندہ جہاں کہیں بھی نظر آئے اسے بلادریغ قتل کردیا جائے۔ اس نے 26اکتوبر کو جموں پہنچ کر اپنی خاص نگرانی میں برہمنوں اور راجپوت ہندوﺅں کو ہتھیار تقسیم کروائے۔
اسی دن نئی دہلی میں ماﺅنٹ بیٹن کی زیرصدارت حکومت ہندوستان کی دفاعی کمیٹی کا دوسرا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں مہاراجہ کی جانب سے ارسال کردہ الحاق کی درخواست کو قبول کرنے اور اس کی حکومت کی فوری فوجی امداد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ماﺅنٹ بیٹن نے اس ساری کارروائی کی بذات خود نگرانی کرنے کا بیڑہ اُٹھایا۔ اس دن ماﺅنٹ بیٹن کے جانبدارانہ رویے پر کوئی پردہ نہیں پڑا ہوا تھا۔ وہ کھلم کھلا پاکستان کے خلاف سرگرم عمل تھا۔ آئین سٹیفنز لکھتا ہے کہ ”مجھے لارڈ اور لیڈی ماﺅنٹ بیٹن نے 26اکتوبر کی رات کو کھانے پر بلایا ہوا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دونوں کا رویہ ہند۔ پاک امور کے بارے میں بالکل ہی یک طرفہ تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بالکل ہندو نواز ہو گئے ہیں۔ اس رات گورنمنٹ ہاﺅس کی فضا تقریباً جنگ کی سی تھی اورپاکستان، مسلم لیگ اور جناح دُشمن تھی…. پٹھانوں کے حملے کی وجہ سے مہاراجہ کے ہندوستان کے ساتھ رسمی الحاق کی کارروائی مکمل کی جارہی تھی۔ جس کے بعد یہ ریاست اور اس کی مسلم اکثریت اب قانونی طور پر جناح کے پاس نہیں رہے گی۔ شرط صرف استصواب کی تھی۔ ہندوستانی افواج کو فوراً کشمیر بھیجنے کا فیصلہ ہوچکا تھا اور اس سلسلے میں ضروری انتظامات کیے جارہے تھے۔
27اکتوبر کی صبح کو وی۔ پی۔ مینن رسمی الحاق نامے پر دستخط کروانے کے لیے جموں روانہ ہوا تو اس کے پاس مہاراجہ کے نام ماﺅنٹ بیٹن کا ایک ذاتی خط بھی تھا۔ اس تاریخی خط میں لکھا تھا کہ ”الحاق کی درخواست اس شرط پر منظور کی جاتی ہے کہ جب کشمیر میں امن وامان بحال ہو جائے گا اور حملہ آوروں کو وہاں سے نکال دیا جائے گا تو اس کے بعد ریاست کے مستقبل کے بارے میں عوام سے استفسار کیا جائے گا۔ دریں اثناءآپ کی امداد کے لیے آج ہی ہندوستانی فوجیں بھیجی جارہی ہیں۔ میری حکومت کو یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا ہے کہ آپ نے شیخ عبداللہ کو عارضی حکومت بنانے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا ہے“ اور جب وی۔ پی۔ مینن الحاق نامے پر دستخط کروانے کے لیے جموں پہنچا تو ہندوستانی فوج کی ایک سکھ بٹالین سری نگر کے ہوائی اڈے پر پہنچ چکی تھی۔ اس طرح پاکستان کشمیر کی بازی ہار چکا تھا۔
قبائلیوں کی اکثریت ابھی تک بارامولا میں لوٹ مار میں مصروف تھی اور ان کا جو ہراول دستہ سری نگر کی طرف پیش قدمی کررہا تھا، اسے سکھ بٹالین کی دو کمپنیوں نے شہر سے تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر روک کر پسپا کردیا۔ غیرتربیت یافتہ پنجابی رضاکاروں کا ایک جتھہ سری نگر ہوائی اڈے کے نزدیک پہنچا تو اسے سخت ہزیمت اُٹھانا پڑی کیونکہ ہندوستانی فوج نے اس وقت تک ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے دفاعی مورچے بنا لیے تھے۔ جو ایک ہزار رضاکار کٹھوعہ روڈ پر ناکہ بندی کے لیے بھیجے گئے تھے، وہ وہاں پہنچے ہی نہیں تھے۔ ان کی دیسی ساخت کی بندوقیں راستے میں ہی خراب ہو گئی تھیں۔
مینن اسی دن الحاق نامے پر مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے اس کے وزیراعظم مہرچند مہاجن کے علاوہ شیخ عبداللہ کے دستخط کروا کر واپس دہلی پہنچ گیا۔ اس کی جموں سے روانگی کے فوراً بعد شیخ عبداللہ کو ریاست کا چیف ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا اور شیخ نے 30اکتوبر کو ”مہاراجہ بہادر“ اور اس کی نسلوں کا وفادار رہنے کا حلف اُٹھانے کے بعد اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ اس کا یہ عہدہ محض نمائشی تھا۔ حقیقی اقتدار بدستور ”مہاراجہ بہادر“ اور اس کے وزیراعظم مہرچند مہاجن کے پاس تھا۔ شیخ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فوراً فائز نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک ہندوستان کو یقین نہیں تھا کہ اس کی فوج وادی کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ وادی پر ہندوستانی فوج کے مکمل قبضہ سے پہلے شیخ کو ریاست کا اقتدار دینا مناسب نہیں تھا۔ شیخ عبداللہ اپنی ”قوم پرستی“ اور نہرو سے ”ذاتی دوستی“ کے باوجود مسلمان تھا اور سردار پٹیل کسی ”قوم پرست“ مسلمان کی وفاداری پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔
ہندوستان کی اس فوجی کارروائی کی تیاریوں کی اطلاع 26اکتوبر کی شام کو ہی پاکستان آرمی کے لاہور ایریا ہیڈکوارٹر میں پہنچ گئی تھی۔ انڈین چھاتہ بردار بریگیڈ کو اس کارروائی کے لیے جو حکم دیا گیا تھا وہ پورے کا پورا لاہور میں سُن لیا گیا تھا۔ یہ پیغام ڈیسائفر (Decipher) کر کے راولپنڈی میں پاکستان آرمی ہیڈکوارٹرز کو روانہ کیا گیا لیکن قائم مقام برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی، یہاں تک کہ قائداعظمؒ کو بھی اطلاع نہ دی گئی حالانکہ وہ اس دن لاہور میں تھے۔ اس کے برعکس نئی دہلی میں اعلیٰ برطانوی فوجی افسر ساری رات سرگرم عمل رہے۔ ہوائی جہازوں کے ذریعے ہندوستانی فوجوں کی نقل وحرکت کی نگرانی خود برطانوی کمانڈر جنرل ڈڈلے رسل (Dudley Russell) نے کی اور اس سلسلے میں اس قسم کا کوئی خطرہ محسوس نہ کیا گیا کہ ہندوستانی فوج کے برطانوی افسرپاکستانی فوج کے برطانوی افسروں کے خلاف صف آراءہوں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک میسروی، جو ان دنوں لندن گیا ہوا تھا، کے بیان کے مطابق ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا منصوبہ بڑے غوروخوض کے بعد کئی ہفتے پہلے تیار کیا گیا تھا۔
چونکہ پاکستانی فوج کے اعلیٰ برطانوی افسروں کو اس منصوبے کا یقینا علم تھا اس لیے انہوں نے مجرمانہ غفلت اور غداری کا مظاہرہ کیا۔ 27اکتوبر کی شام کو جب کشمیر میں ہندوستان کے فوجی حملے کی اطلاع قائداعظمؒ کو دی گئی تو انہوں نے فوراً پنجاب کے گورنر سرفرانسس موڈی کی وساطت سے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈگلس گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ اس حکم کا خلاصہ یہ تھا کہ ”پہلے راولپنڈی، سری نگر روڈ کے درے پر قبضہ کرو اور پھر سری نگر، جموں روڈ پر درہ بانہال پر قبضہ کر کے ہندوستانی فوجوں کا سلسلہ مواصلات منقطع کردو“ لیکن گریسی نے اس حکم پر عمل کرنے کی بجائے نئی دہلی میں سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل آکن لیک سے ہدایات لینے کے لیے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ قائم کیا حالانکہ سپریم کمانڈر کا پاکستانی آرمی پر کوئی آپریشنل کنٹرول نہیں تھا اور ہندوستان کے برطانوی کمانڈر انچیف نے کشمیر میں ہندوستانی فوجی مداخلت کے بارے میں ا س سے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا۔یہ جنرل گریسی وہی سامراجی درندہ تھا جس نے ستمبر 1947ءمیں ہندچینی پر فرانسیسی سامراج کو دوبارہ مسلط کرنے کے لیے گورکھا اور جاپانی فوجیوں کے ذریعے ویت نامی عوام کا بے محابا خون بہایا تھا اور یہ وہی سامراجی سازشی تھا جس نے دسمبر 1949ءمیں پاکستانی فوج کے ایک جونیئر جنرل محمد ایوب خان کو پہلے ایڈجوٹنٹ جنرل بنایا اور پھر ستمبر 1950ءمیں وزیراعظم لیاقت علی خان سے سفارش کر کے اسے کمانڈر انچیف مقرر کروایا تھا اور یہ وہی شخص تھا جس کے بارے میں اس کا ایوب خان لکھتا ہے کہ ”گریسی بڑے نیک آدمی تھے، وہ دوسروں کے جذبات کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے بہت آزادی دے رکھی تھی“۔بظاہر ایوب خان کے نزدیک پاکستانی عوام کے جذبات کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی کیونکہ جب گریسی نے پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم کے حکم کی تعمیل نہیں کی تھی تو اسے یہ خیال نہیں آیا تھا کہ پاکستانی عوام میں اس کی اس حکم عدولی کا کیا ردعمل ہوگا۔
فیلڈ مارشل آکن لیک اگلے دن یعنی 28اکتوبر کو علی الصبح لاہور پہنچا اور اس نے قائداعظمؒ سے ملاقات کر کے انہیں جنرل گریسی کو دیئے گئے حکم کو واپس لینے پر آمادہ کرلیا۔ آکن لیک کی دلیل یہ تھی کہ مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی جو کارروائی کی ہے اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اگر نواب جوناگڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ صحیح تھا تو مہاراجہ کشمیر کے اسی قسم کے فیصلے کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ الحاق کی کارروائی کے بعد ہندوستان کو کشمیر میں اپنی فوجیں بھیجنے کا حق حاصل ہے۔ اگر پاکستان نے اب ہندوستان کے اس ملحقہ علاقے میں کوئی فوجی کارروائی کی تو اس کے نتائج بے انتہا خطرناک ہوں گے چونکہ برطانوی فوجی حکام اس جنگ میں حصہ نہیں لیں گے اس لیے پاکستانی فوج کی حالت بہت پتلی ہو گی۔ آکن لیک نے تجویز پیش کی کہ اس تنازع کے پُرامن تصفیہ کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے گورنر جنرلوں، وزرائے اعظم، مہاراجہ کشمیر اور اس کے وزیراعظم کی ایک راﺅنڈ ٹیبل کانفرنس ہونی چاہیے۔ جناح نے یہ تجویز منظور کرلی تو دونوں ممالک کے درمیان ہمہ گیر جنگ کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا۔
ہندوستانی مورخین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی جانب سے کشمیر میں اس فوجی کارروائی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ اگر پاکستان کشمیر پر قبضہ کر لیتا تو کشمیری قوم پرستوں کی سیاسی موت واقع ہو جاتی۔مسلم لیگ پاکستان میں کسی حزب اختلاف کے وجود کو برداشت نہیں کرتی تھی۔ قبل ازیں ہندوستان کی قوم پرست قیادت نے صوبہ سرحد میں استصواب کی تجویز کو منظور کرلیا تھا حالانکہ 1946ءکے اوائل کے عام انتخابات میں اس صوبے کے عوام نے کانگریس کے حق میں ووٹ دیئے تھے اور 1947ءمیں وہاں کانگریس کی حکومت قائم تھی لیکن برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان کو یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ سرحد میں خان عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب جیسے قائدین تحریک آزادی سے توہین آمیز سلوک کیا گیا۔ ان حالات میں حکومت ہندوستان کشمیر کے ”قوم پرستوں“ کی جبری بے دخلی کو برداشت نہیں کرسکتی تھی …. دوسری وجہ یہ تھی کہ ہندوستان ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کی رائے عامہ کی خواہش کے مطابق کرنا چاہتا تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد بھی ہندوستان میں چار کروڑ مسلمان مقیم تھے اور اس بنا پر ہندوستان اس خطرناک اصول کو تسلیم نہیں کرسکتا تھا کہ یہ سارے مسلمان محض مذہب کی وجہ سے اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کریں گے۔ صوبہ سرحد کے برخلاف ریاست جموں وکشمیر کا علاقہ جغرافیائی طور پر ہندوستان سے متصل تھا اور اس کے ہندوستان کے ساتھ بہت سے معاشی اور ثقافتی روابط تھے لہٰذا تشدد کے ذریعے اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ برصغیر میں کشمیر ایک ایسا علاقہ تھا جہاں ہندو، مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے ساتھ پُرامن طریقے سے زندگی بسر کررہے تھے۔ اگر قبائلیوں کو اس فرقہ وارانہ اتحاد واتفاق کو تباہ کرنے کی اجازت دی جاتی تو اس کا ہندوستان کے دوسرے علاقوں پر بہت بُرا اثر پڑتا۔ ہندو عصبیت بہت زور پکڑ جاتی اور اس بنا پر حکومت ہندوستان کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو جاتیں اور چوتھی وجہ یہ تھی کہ چونکہ حکومت ہندوستان قانونی طور پر حکومت برطانیہ کی وارث تھی اس طرح وہ ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے تک اس کے دفاع کی ذمہ دار تھی۔ کشمیر کا دفاع دراصل ہندوستان کا اپنا دفاع تھا۔ تقریباً 800 سال تک ہندوستان پر شمال کی جانب سے حملے ہوتے رہے تھے اور اس مرتبہ بھی قبائلی لیڈر کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کو تباہ کرنے کے بعد مشرقی پنجاب میں ریاست پٹیالہ کو برباد کرنا چاہتے تھے اور اس کے بعد وہ امرتسر پر قبضہ کر کے نئی دہلی پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
اگر ہندوستانی مورخین کے اس مو¿قف کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہندوستان کے نئے ارباب اقتدار نے برصغیر کی تقسیم کے متفقہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست کشمیر پر قبضہ کرنے کا پہلے سے کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہوا تھا۔ اگر قبائلی حملہ نہ کرتے اور تشدد کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کی جاتی تو ہندوستان کشمیر سے بے تعلق رہتا اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ برطانوی سامراج نے ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے لیے کانگرسی لیڈروں سے کوئی سازباز نہیں کر رکھی تھی۔ ہوڈسن کے اس بیان کو بھی صحیح تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے ممدوح ماﺅنٹ بیٹن کی جانب سے کشمیر میں ہندوستانی فوجیں بھیجنے کے کام میں سرگرمی سے حصہ لینے کی ایک وجہ یہ تھی کہ ”سری نگر میں تقریباً 200 برطانوی باشندے رہتے تھے۔ اگر ہندوستان کی جانب سے فوراً فوجی مداخلت نہ کی جاتی تو ان سب کی جانیں خطرے میں پڑجاتیں۔ قبل ازیں قبائلی حملہ آور بارامولا میں بعض برطانوی باشندوں کو موت کے گھاٹ اُتار چکے تھے اور پھر اس سامراجی دلیل کی اس منطق کو بھی صحیح تصور کرنا پڑے گا کہ پاکستان کو تو کشمیر میں کسی بھی حالت میں کسی قسم کی مداخلت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا حالانکہ وہاں ہزاروں مسلمان مارے جاچکے تھے، ہزاروں مسلمانوں کو جبراً بے دخل کیا جاچکا تھا اور لاکھوں باشندوں کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی سیاسی دھاندلی اور فوجی غنڈہ گردی جائز اور ضروری تھی تاہم نامور برطانوی مورخ پروفیسر السٹیئر لیمب ان ساری وجوہ کو صحیح تسلیم نہیں کرتا۔ وہ لکھتا ہے کہ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ جواہر لال نہرو ریاست کشمیر کے مستقبل کو اپنی سیکولر عینک سے دیکھتا تھا اور وہ نظریہ پاکستان کو اپنے لادینی نظریہ سیاست کے لیے ایک چیلنج تصور کرتا تھا لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہندوستان میں ڈاکر شیاما پرشاد مکرجی کی قسم کے بہت سے ہندو لیڈر موجود تھے جو برصغیر کی تقسیم کو مذہبی جنگ کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے تھے اور وہ اسلامی قوتوں کے خلاف ہندو مہاراجہ کی امداد کرنا اپنا مذہبی فرض سمجھتے تھے۔ ان کے علاوہ ہندوستان میں ایسے لیڈروں کی بھی کمی نہیں تھی جو کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے بارے میں انڈین سول سروس کے دیرینہ نقطہ نگاہ سے متفق تھے۔ ہندوستان کا محکمہ خارجہ برصغیر میں برطانوی راج کے آخری سالوں کے دوران بھی روس، جس نے اب کمیونزم کا لبادہ پہن لیا تھا، کی جانب سے بدستور خطرہ محسوس کرتا تھا۔ سراولف کیرو جیسے لوگوں کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر برصغیر کے شمال مغربی علاقے میں بدامنی ہوئی تو روس کو مداخلت کا موقع مل جائے گا۔ وہ تاجکستان اور پامیر کی طرف سے یا سنکیانگ کی طرف سے دخل اندازی کرے گا۔ سنکیانگ میں اس صدی کے تیسرے عشرے کے دوران مقامی وار لارڈ شینگ زائی کی سرگرمیوں کی وجہ سے روسیوں کا اثرورسوخ خاص طور پر بہت بڑھ گیا تھا، یہی وجہ تھی کہ برطانیہ نے 1935ءمیں گلگت کا علاقہ پٹہ پر حاصل کرلیا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آزادی کے بعد بھی ہندوستان کے محکمہ خارجہ کو روسیوں کی جانب سے بدستور تشویش لاحق تھی۔ اس محکمہ نے اسی تشویش کی بنیاد پر اقتدار کی منتقلی کے تقریباً دوماہ بعد اور مہاراجہ کشمیر کے الحاق سے ایک دن پہلے یعنی 25اکتوبر کو برطانوی حکومت کو جو تار بھیجا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ پٹھان قبائلیوں کے خلاف مہاراجہ کشمیر کی امداد ان وجوہ کی بنا پر کرنی چاہیے کہ ” کشمیر کی شمالی سرحدیں افغانستان، سوویت یونین اور چین سے ملتی ہیں۔ کشمیر کا تحفظ جو لازمی طور پر ریاست کے اندرونی امن وامان اور مستحکم حکومت کے وجود پر منحصر ہے، ہندوستان کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں کہ کشمیر کی جنوبی سرحد کا ایک حصہ ہندوستان سے ملتا ہے لہٰذا ہندوستان کے قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ کشمیر کی امداد کی جائے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں تھی کہ چند ہفتے بعد جواہر لال نہرو نے خود بھی ان وجوہ کا اعا دہ کیا تھا۔
لیمب لکھتا ہے کہ ” کشمیر کے علاقے کی فوجی اہمیت کی بنیاد پر ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے حق میں جو دلائل پیش کیے جارہے تھے وہ اس بنا پر اور بھی زیادہ معقول نظر آتے تھے کہ برصغیر کی تقسیم کے موقع پر بہت سے مبصرین پاکستان کے تصور کو قابل عمل نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ نوزائیدہ اسلامی ریاست لازمی طور پر منہدم ہو جائے گی اور اس کے نتیجہ میں جو انتشار پیدا ہو گا اگر اسے کشمیر اور فوجی اہمیت کے پہاڑی سرحدی علاقوں تک پھیلنے دیا گیا تو سوویت یونین کو دخل اندازی کی ایسی ترغیب ملے گی کہ وہ اپنے آپ کو اس پر عمل درآمد سے باز نہیں رکھ سکے گا۔پاکستان کے انہدام کا امکان اس لیے بھی زیادہ ہو گیا تھا کہ بہت سے ہندوستانی سیاستدان نہ صرف اس کی اُمید کرتے تھے بلکہ وہ اس مقصد کے لیے عملی اقدامات پر بھی آمادہ تھے“۔
فیلڈمارشل سرکلاڈ آکن لیک کا مشاہدہ یہی تھا لہٰذا اس نے 28ستمبر کو حکومت برطانیہ کو جو خفیہ رپورٹ بھیجی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ ہندوستانی کابینہ پاکستان کے مستحکم بنیادوں پر قیام کے سدباب کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ لیمب کی رائے یہ ہے کہ ”ہندوستانی زعما انہی وجوہ کی بنا پر شروع ہی سے ریاست کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے لیے کوشاں تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے کچھ دیر پہلے کانگریس کا صدر اچاریہ کرپلانی کشمیر گیا تھا۔ پھر مشرقی پنجاب میں پٹیالہ اور کپورتھلہ کی ریاستوں کے حکمران سری نگر گئے تھے اور ان کی واپسی کے بعد ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا۔ آخر میں مہاتما گاندھی سری نگر پہنچا تھا اور اس کے دو روزہ دورے کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ کشمیر کے وزیراعظم پنڈت کاک کو برطرف کردیا گیا تھا کیونکہ اس کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے سمجھوتے کے حق میں ہے۔ تقسیم کے چند ہفتے بعد ستمبر میں شیخ عبداللہ کو رہا کردیا گیا تھا کیونکہ ریاست میں وہی ایک سیاسی لیڈر تھا جس کی سرکردگی میں ہندوستان نواز حکومت بن سکتی تھی اور اس موقع پر پاکستان میں اس حقیقت کا نوٹس لیا گیا تھا کہ شیخ عبداللہ کے ساتھ کشمیر مسلم کانفرنس کے لیڈر چوہدری غلام عباس کو رہا نہیں کیا گیا اور یہ کہ شیخ عبداللہ نے اپنی رہائی کے فوراً بعد نئی دہلی کا دورہ کیا تھا …. بہت سے پاکستانیوں کو یقین تھا کہ برطانیہ نے ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے لیے کانگرسی لیڈروں سے سازباز کررکھی ہے اور اسی سازش کے تحت ضلع گورداسپور کا علاقہ ہندوستان کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ کوئی اتنا بڑا نہیں تھا لیکن اس سے ہندوستان کو ارضی راستے کے ذریعے کشمیر تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اگر پورا ضلع گورداسپور پاکستان کو مل جاتا تو ہندوستان کو پٹھانکوٹ نہ ملتا اور وہ مشرقی پنجاب اور جموں کی واحدرابطہ سڑک سے بھی محروم رہتا تاہم پروفیسر لیمب نے برصغیر کے بارے میں برطانوی سامراج کے عزائم پر سے پوری طرح پردہ نہیں اُٹھایا۔ اس نے یہ تو لکھا ہے کہ ہندوستان کا محکمہ خارجہ روس کے خطرے کے بارے میں انڈین سول سروس کے برطانوی سامراج کی رائے سے متاثر تھا لیکن یہ نہیں لکھا کہ برطانوی افسروں کی اس رائے کی بنیاد برطانوی سامراج کی خارجہ پالیسی پر تھی۔ ان دنوں اینگلو امریکی سامراج کی طرف سے سوویت یونین کے خلاف عالمی سردجنگ کا اعلان ہو چکا تھا اور سوویت یونین میں امریکی سفیر جارج کینن (George Cannon) نے سوویت یونین کا گھیراﺅ کرنے کی جو اعلانیہ تجویز پیش کی تھی۔ اس پر بھی عملدرآمد شروع ہوچکا تھا لہٰذا کشمیر جیسے انتہائی فوجی اہمیت کے علاقے کو ایک ایسی نوزائیدہ پاکستانی ریاست کے سپرد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا جس کا مستقبل بالکل غیریقینی تھا اور جسے ہندوستانی ارباب اقتدار نے ابتدا ہی میں تباہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ پروفیسر لیمب نے اس سلسلے میں برطانوی سامراج کی سازش پر پردہ ڈالنے کے لیے مزید لکھا ہے کہ ریڈکلف ایوارڈ کا کشمیر کے ایشو سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد بعض نہروں کے پانی کی تقسیم پر تھی۔ پروفیسر نے یہ بات لکھ کر نہ صرف ماﺅنٹ بیٹن اور برطانوی حکومت کو کشمیر کے معاملے میں کانگرس کے ساتھ سازش کرنے کے الزام سے بری کرنے کی ناکام کوشش کی ہے بلکہ اس نے اپنے قارئین کے علم ودانش اور فہم وفراست کی بھی توہین کی ہے۔ ماﺅنٹ بیٹن نے 3جون 1947ءکو ضلع گورداسپور کو ہندوستان کے حوالے کر دینے کا جو اشارتاً ذکر کیا تھا۔ اس میں نہروں کے پانی کی تقسیم کا کوئی حوالہ نہیں تھا اور اس کے بعد چار ماہ تک اچاریہ کرپلانی، ماﺅنٹ بیٹن، گاندھی، پٹیل اور نہرو نے ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے لیے جو موثر اقدامات کیے تھے ان کا نہروں کے پانی کی تقسیم سے کیا تعلق ہوسکتا تھا؟ مزیدبراں ہوڈسن، جوزف کوربل، لارڈ برڈوڈ اور حتیٰ کہ مہرچند مہاجن جیسے متعصب مورخین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اگر مسلمان اکثریت والا ضلع گورداسپور ہندوستان کو نہ ملتا تو کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ”ان دنوں ریاست کشمیر کے صوبہ لداخ میں ”روس نواز“ سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں اور اس بنا پر بعد میں سنکیانگ کے ”چند ایجنٹوں“ کو گرفتار کیا گیا تھا‘۔ نئی دہلی میں مقیم اس اخبار کے نامہ نگار رابرٹ ٹرمبل کی ارسال کردہ یہ رپورٹ ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے صرف دو دن بعد یعنی 29اکتوبر کو شائع ہوئی تھی“۔
ہم نے دیکھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و استبداد کب سے اور کس طرح سے جاری ہے، اسی ظلم کو اہل عالم کی نظروں میں لانے کے لئے دنیا بھر میں پوری کشمیری قوم 27 اکتوبر کا دن یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ بھارت کا یہ غاضبانہ قبضہ72 برس گزر جانے کے بعد بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر اپنے اس ناجائز تسلط کو قائم رکھنے کے لئے بھارت اپنی افواج کے ذریعے مسلسل ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اب تک لاکھوں معصوم کشمیریوں کو تہہ تیغ کیا جاچکا ہے۔ مگر اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام اپنی لازوال جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اچھی بات ہے کہ مختلف کشمیری تنظیمیں اور پاکستانی قوم 27 اکتوبر اور دیگر کشمیر کے ایام کو جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔اس کے باوجود وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیری متحد ہو کر تحریک آزادی کے لئے مزید جوش وجذبے کے ساتھ کام کریں، اور اس ضمن میں پاکستان جو پہلے ہی ہر محاذ پر اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کیلئے کھڑا ہے، اور اس نے حال میں بھی اقوام متحدہ میں بھی کشمیر کیس بڑے مو¿ثر انداز میں پیش کیا ہے، اگر یہ کاوشیں اسی طرح جاری رہیں تو وہ دن دور نہیں جب کشمیری بھارتی تسلط سے نجات پا کر اپنی سرزمین پر اپنی مرضی سے زندگی گزار رہے ہوں گے۔