تعلیمات وبرکاتِ نبویﷺ
: مولانا محمدا کرم اعوان:
نبی کریمﷺ سے ہمیں جو نعمتیں پہنچتی ہیں‘ایک کو ہم تعلیماتِ نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام کہتے ہیں تو دوسرے کو برکاتِ نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام کہتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات سے اللہ کا کلام ہم تک پہنچا۔ آپﷺ کے ارشاد اور آپ ﷺ کی حدیث سے کلام کی تفسیر اور مفاہیم اور معانی ہم تک پہنچے۔ آپﷺ کے عمل سے کتاب پر عمل کرنے کا طریقہ ہم تک پہنچا۔ یہ سب تعلیماتِ محمد رسول اللہﷺ ہیں۔ دوسری نعمت کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے: سورۃ آل عمران 164:اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے اللہ کا رسولﷺ۔ پھر ان کا تزکیہ کرتا ہے‘ انھیں پاک کرتا ہے۔ اب یہ پاک ہونا باطن، قلب،ضمیر اور دل کی ایک کیفیت ہے جو نام بھی آپ اسے دیں۔ ان کا درو۔نِ دل پاک ہو جاتا ہے اور حضورِ اکرمﷺ تزکیہ کس طرح فرمایا کرتے تھے جو بھی ایمان لے آیا، جس مومن کی نگاہ حضورﷺ کے وجودِ عالی پہ پڑ گئی تو اس کا تزکیہ ہو گیا۔ قلبِ اطہر ﷺ سے قلبِ مومن میں ایسی برکات پہنچیں کہ اسے پاک کر دیا یا نبی کریم ﷺ کی نگاہِ ناز اٹھی اور مومن پر پڑ گئی تواس کا تزکیہ ہو گیا وہ ”صحابی“بن گیا۔صحابی کا لفظی ترجمہ ہے صحبت یافتہ جس نے نبی کریمﷺ کی صحبت پائی ہو، ملاقات نصیب ہوئی ہو،حضوری نصیب ہوئی ہولیکن مفہوم اس کا یہ ہے کہ انسانوں میں سے اکمل ترین، ایمان،اخلاص،عمل،دیانت، امانت اورعلم میں روئے زمین کے ہر شعبے میں انسانوں سے افضل ترین اور انتہائی بلند مقام پر پہنچا ہوا کہ صحابہ کے بعد تب سے اب تک اور اب سے قیامت تک آنے والی ساری مخلوق اگر کامل ولایت حاصل کر لے اور سب کی ولایت جمع کی جائے تو بھی صحابی کی گردِپا کو نہیں پہنچتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کا کوئی ولی کامل گزرتا ہے تو جس زمین میں دفن ہوتا ہے صدیوں وہ زمین بھی کلامِ الٰہی سے گونجتی رہتی ہے اور لوگ وہاں تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ اس کی نسلوں کی لوگ زیارت کرتے رہتے ہیں لیکن اگر سارے بنی آدم ایسے ہی ولی ہو جائیں اور سب کی ولایت جمع کی جائے تو صحابی کی گردِ پا کو نہیں پہنچتی ان کے تزکیے یا خشوع کا یہ عالم تھا۔
جب یہ طہارت نصیب ہوتی ہے تو دل میں قربِ الٰہی کی ایک کیفیت بنتی ہے جسے خشوع کہا جاتا ہے۔ تو فرمایا جسے خشوع نصیب ہو جائے اس کے لئے نہ صبر مشکل رہتا ہے اور نہ اللہ کی اطاعت مشکل رہتی ہے لیکن یہ خشوع بھی کہیں اورسے نہیں آئے گا۔ جہاں سے اللہ کی بات ہم تک پہنچی ہے وہیں سے خشوعِ قلبی بھی ہم تک پہنچے گا اور یہ صرف ایک ہستی ہے محمد رسول اللہﷺ۔ اب صحابہ کرامؓ کی یہ عظمت کہ جو بندہ مومن بھی کسی صحابی کی خدمت میں پہنچا تو تابعی ہو گیا۔یہ ایک الگ طبقہ بن گیا تابعین کا کہ کوئی غیر تابعی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تابعین کی خدمت میں جو پہنچا وہ تبع تابعی ہو گیا۔ تبع تابعین کا بھی ایک الگ طبقہ بن گیا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم۔ یہ تین سب سے افضل ترین زمانے ہیں۔ جو زمانے گزر چکے ان سے بھی اور جو آنے والے ہیں ان سے بھی یہ تین زمانے افضل ترین ہیں۔ فرمایا ایک میرا زمانہ، پھر اس کے بعد کا زمانہ،پھر اس کے بعد آنے والا زمانہ۔ میرے زمانے سے قریب کازمانہ،پھر اس سے قریب۔ صحابہ کا زمانہ حضورﷺ کا زمانہ تھا۔ صحابہ کے بعد تابعین کا زمانہ تھا اور اس کے بعد تبع تابعین کا ان تین زمانوں کو خیر القرون کہتے ہیں۔ تین بہترین زمانے! نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دنیا سے پردہ فرمایا تو پھر کوئی صحابی نہ بن سکا۔اب جو صحابہ کے درِ عالی پہ پہنچے وہ تابعی بنے۔ جب صحابہؓ دنیا سے رخصت ہوئے توان کے بعدکوئی تابعی نہ بن سکا۔ جو تابعین کی بارگاہ میں پہنچے وہ تبع تابعی بنے۔ جب تبع تابعین کا عہد ختم ہوا تو کوئی ایسا پیدا نہ ہو سکا جوہر آنے والے کو چند لمحوں میں کیفیات سے سرشار کر دیتا۔اس کے بعد اکابر اولیاء اللہ نے تبع تابعین کی خدمت میں رہ کر مجاہدے کیے اور ذکر اذکار کے ذریعے وہی کیفیات اپنے قلوب میں انڈیلیں اور دلوں کو منور کیا۔ اب وہ لوگ دوسروں کی رہنمائی کا سبب بنے اور نیکی پھیلانے کا سبب بنے۔ پھر جس طرح برکاتِ محمد رسول اللہﷺ صحابہ کو نصیب ہوئیں‘اسی طرح صحابہؓ سے تابعین کو،تابعین سے تبع تابعین کو اور اس سے آگے اللہ کے نیک بندوں کو، اہل اللہ کو اور اولیاء اللہ کو ملیں۔ جس
طرح حدیث کی روایت ہوتی ہے ا سی طرح سلاسل اولیاء اللہ کے شجرے ہیں کہ کس نے کس سے برکات حاصل کیں، اس نے کس سے حاصل کیں اس نے کس سے وصول کیں اور بالآخر تمام آقائے نامدارﷺ کی ذات گرامی تک پہنچتے ہیں۔
پہلی ساری کتابوں میں بھی حضور نبی کریمﷺ کا ذکر تھااور نہ صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر تھا بلکہ آپﷺ کے خُدام کا، آپﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالےٰ علیہم اجمعین کا ذکر تھا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالےٰ عنہٗ کے زمانے میں جب بیت المقدس کا محاصرہ کیا گیا تو وہ عیسائی بھی اسرائیل ہی کے علماء تھے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ مسلمان اپنے امیر کو یہاں بلائیں، ہم دیکھیں گے تو ہمیں سمجھ آجائے گی۔ جب سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تشریف لے گئے تو انہوں نے صرف دور سے دیکھ کر یہ کہہ دیا کہ پہلی کتابوں میں ان کا ذکر موجود ہے اور یہ نبی کریم ﷺ کے وہ صحابی،خادم اور وہ خلیفہ ہیں جن کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوگا۔ یہ پہلی کتابوں میں موجود ہے لہٰذا ہم بغیر لڑائی کے بیت المقدس ان کے سپرد کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اتنی باریکی تک ان کے علماء بھی جانتے تھے۔ اگر وہ اپنی کتابوں پر ایمان لاتے تو جو کچھ ان کتابوں میں درج ہے اس پر ایمان تو آگیا‘ اللہ سے وعدہ تو ہوگیا۔ پہلے انبیاء علیہم السلام نے خبر دی کہ آخر میں محمدرسول اللہ ﷺ مبعوث ہو ں گے،آخری نبی ہو ں گے، ان پر نہ صرف ایمان لانا بلکہ ان کی پوری پوری نصرت اور خدمت کرنی ہے اور جان و مال سے پورا تعاون کرناہے‘ تو اس کو یہ مانتے تھے بلکہ بعثت نبویﷺ سے پہلے جب یہود کی کفار کے ساتھ ٹکر آتی تو حضور نبی کریمﷺ کا وسیلہ دے کر دعائیں مانگتے کہ اللہ ہمیں فتح دے۔