اپنی اور پرائی میں فرق کیوں ؟
اسلام میں بیٹی کی پیدائش کورحمت سے منسوب کیاگیاہے۔ یوں بھی ہمارے ہا ں بیٹیوں کے دم سے ہی گھر میں رونق شمار کی جاتی ہے۔ والدین کی نظروں میں تو ان کے سبھی بچے ایک ہی جتنی اہمیت اور حیثیت کے حامل ہوتے ہیں تاہم بیٹوں کی نسبت چونکہ بیٹیاں عموماً گھر ہی میں اپنازیادہ وقت گزارتی ہیں اس لئے عموماً بیٹی کی موجودگی کو گھر میں چہل پہل اوررونق کاایک حوالہ بھی سمجھا جاتاہے۔ اگرچہ اس حقیقت کوبھی نظرانداز کرناممکن نہیں کہ آج بھی برصغیر کے خطے میں نہ صرف بیٹے کوبیٹی پر فوقیت دی جاتی ہے بلکہ خاندان بھر میں بیٹی کی نسبت بیٹے کی پیدائش پرزیادہ خوشی کااظہار کیاجاتاہے۔
یہی نہیں بلکہ موجودہ دور میں ترقی کے اتنے زینے پاورکرلینے کے باوجود مشرقی معاشرے میں صنفی بنیادوں پرتفریق کی یہ کہانی کہنہ صدیوں سے یوہی دھراتے چلے آنے کا سلسلہ جوں کاتوں جاری ہے۔ اس بحث سے قطع نظر ایشیائی خطے میں واقع ممالک بالخصوص پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ کی تہذیب وثقافت میں مشرق اقدار کا رنگ غالب دکھائی دیتاہے۔ خواندگی کی شرح میں اضافے کے باوجود تاحال ان ممالک میں خواتین کی حالتِ زار ناگفتہ بہ ہی ہے۔ہمسایہ ملک کی طرح وطن عزیز میں بیٹیوں کی پرورش میں روایتی سوچ اور رہن سہن کی گہری چھاپ کاعکس نمایاں ہے۔ عموماً مائیں یہاں بیٹیوں کویہی تلقین کرتی ملتی ہیں کہ اپنی عادات واطوار میں سدھارلاؤ نہیں تو نئے گھرجاکر طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں گی۔
یہی مائیں جب اپنے گھر کی جانب دیکھتی ہیں تو ان کی سوچ یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے۔ان کی وہ تمام تر نصیحتیں بالکل الٹ ہوجاتی ہیں جب معاملہ بہو کاہوتاہے۔ ہمارے ہاں رائج اس سوچ کوہرگز نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ ماں اپنی بیٹی کوتو سسرال میں حاکم دیکھنا چاہتی ہے جبکہ بہو کوباندی کے سواکوئی درجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ نکاح اور شادی جیسے معاشرتی معاہدے میں بندھ کرآنے والی لڑکی سے بعض اوقات تو نئے گھرمیں توقعات کے انبار وابستہ کرلیے جاتے ہیں اوراگر خدانخواستہ وہ سسرال والوں کی توقعات پرپورا نہ اترپائے تو ساس‘نندوں اورگھر کے دیگر افراد کی جانب سے طعنہ وتشنیع کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔
مشاہدے میں یہ بات اکثر آتی ہے کہ جب کوئی نوبیاہتا کسی نئے گھر میں پہنچتی ہے تو یہاں پہلے سے موجود خواتین اس کے لئے جگہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں۔ خاص طورپرنندیں یہ کبھی نہیں چاہتیں کہ ان کے بھائی کی توجہ تقسیم ہو۔ وہ اس سے وہی پہلے سی اہمیت کی متقاضی ہوتی ہیں جو بھابھی کے آنے سے قبل ن کو ملتی تھی۔ وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتی کہ نئی آنے والی ان کی ہم جنس ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے کے لئے آئی ہے اور ان کی یہ زندگی کہیں اورگزرنا ہے۔ اسی طرح ساس بھی یہ تصور باندھ لیتی ہے کہ آنے والی بہو ان کے سمیت گھر میں موجود اس کی ہم عمروں بندوں وغیرہ کی خدمت پربلا چوں چراں مامور ہوجائے گی۔ جب نند اوربھاؤج میں برابری کاسلوک نہیں ہوتاتو ردعمل جہاں بھی سامنے آتاہے۔ یہ ردعمل بہو کی زندگی اجیرن بنا دیتاہے تووہیں کبھی اس میں نند کے لئے جینا بھی مشکل ہوجاتاہے۔
اس سلسلے میں جب ہم نے ماہرنفسیات محب زارا سے گفتگو کی تو ان کا کہنا تھاکہ بہو کے ساتھ عموماً جس ناروا سلوک کامعاملہ اٹھایاجاتاہے اس کے پیچھے سب سے بڑا عدم تحفظ کا احساس محرک کے طورپر موجود ہوتا ہے۔ بیٹے کی ماں چونکہ کئی دہائیوں سے گھر میں موجود ہوتی ہے اور وہ نظام کو چلاتی بھی ہے سو بہو کے آجانے کے بعد اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس سے حکم چلانے کی قوت چھن جائے گی۔ وہ یہ بھی محسوس کرتی ہے کہ بہو کے آجانے کے بعد بیٹے کی توجہ اپنی بیوی پرمرکوز ہو جاتی ہے۔ جب ساس بہوکوزیر کرنے کی کوشش کرتی ہے تو داصل وہ اپنی اس اناکی تسکین کررہی ہوتی ہے جس میں وہ خود کو مستقل حکمران سمجھتی ہے۔ بہو کے ساتھ نارواسلوک اگرچہ مختلف سطح پر مختلف محرکات کی بناپرہوتاہے لیکن بیشتر یہی دیکھنے میں آتاہے کہ جب بہو دوسروں کی توجہ حاصل کرتی ہے توساس کارویہ تبدیل ہو جاتاہے۔
محب زارا کا مزید کہناہے کہ ہرفرد کے حوالے سے اگرچہ رائے مختلف ہوسکتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بیشتر خواتین کے حالات ونفسیات ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ جب کسی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے تو سسرال میں جاتے ہی ایک ایسی نفسیاتی جنگ کا آغاز ہو جاتاہے جس میں دو عورتیں ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کرتی ہیں جس میں ان کی عزت نفس کو تسکین میسر آئے۔ ہمارے ہاں یہی وہ رویے ہیں جن کی بناپر اکثرساس اور بہو کے جھگڑے معمولات کاحصہ بن جاتے ہیں۔ بہو کو جائز مقام دیاجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ گھر میں حالات بہتر اورپرسکون نہ رہیں۔ اسی طرح بہو کافرض بھی ہے کہ وہ ساس کو وہ اہمیت اروعزت دے جواس سے پہلے اپنی ماں کو دیتی رہی ہے۔ اگر دونوں اس سمجھوتے کے تحت زندگی گزاریں گی تو خوشگوار حوالے موجود رہیں گے ورنہ روایتی جھگڑے سکون غارت کرتے رہیں گے۔
ساس بہو کے حوالے سے اگرچہ اس گھر میں اختلاف رائے موجود رہتاہے جہاں مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات کو اس ترتیب پرلاناہوگا جہاں تمام افراد کی ذمہ داریاں یکساں ہونے کے ساتھ ساتھ ان کااحترام بھی واجب ہو۔ کسی ایک شخصیت کو زیادہ اہمیت دینے سے ایک طرف دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہے تو دوسری جانب رد عمل کارویہ بھی پنپتا ہے۔ ہمارے مشرقی معاشرے میں خاص طورپر دیکھا گیاہے کہ کم وسائل میں زیادہ بڑے خاندان کوپالنے کی روایت ہے۔ جب معاشی ناآسودگی ہوگی تو بحث وتمحیص کے پہلو بھی نکلیں گے۔ یوں ساس اوربہوکے جھگڑے بھی معمولات کاحصہ ہوجائیں گے۔ اس لئے ایک طرف ان نفسیاتی رویوں کاتعلق معاشی مسائل سے ہے تو دوسری جانب صدیوں سے موجود ان روایات سے بھی ہے جنہیں مستقبل قریب میں تبدیل ہوتا نہیں دیکھا جاسکتا۔ساس اوربہو کے اختلافات اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک ہمارے معاشرے میں معاشی مسائل اور حالات کا درست ادراک نہ کرنے کی روش موجود رہے گی۔ ٭
(تحریر ماریا سہیل:)