تازہ ترین تحقیقات کے مطابق برطانیہ مسلمانوں کی مدد کے بغیر پہلی اور دوسری جنگ عظیم جیت ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ان کے لئے کڑوا سچ تھا، ان کے پاس فوج کی کمی تھی کیونکہ ہٹلر اور میسولینی نے بیک وقت کئی محاذ کھول دیئے تھے۔ برطانیہ پر کئے جانے والے حملے بھی شدید تھے۔گزشتہ دنوں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مسلمانوں کی جنگی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انگریزوں کو یہ یادد لایا گیا ہے کہ انہیں جنگیں جتوانے والے مسلمان فوجیوں اور ان کی بیوگان کے ساتھ انہوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ جنگ میں جانیں قربان کرنے اور بہترین خدمات کی ادائیگی کے باوجود مسلمان فوجیوں کی بیوگان نے کسمپرسی کی زندگی گزاری۔ مضمون نگار ہیڈلے سٹن (Hedley Sutton) نے ’’برطانویوں کا انڈین فوجیوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک‘‘ میں لکھا ہے کہ ان فوجیوںکی بیوگان کو پنشن سے محروم رکھنے کے لئے دانستہ طور پر ایسا معیار مقرر کیا گیا جس پر کوئی فوجی پورا ہی نہ اتر سکے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ صرف اس لئے کہ مسلمان فوجیوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا، اور برطانیہ انہیں اس کی سزا دلوانا چاہتا تھا۔ حالانکہ ان فوجیوں کی بھرتی جنگ آزادی کے بعد کی گئی تھی، اگر یہ فوجی اتنے ہی برے تھے تو ان کی خدمات کیوں حاصل کی گئی تھیں؟ متعدد ظالمانہ شرائط رکھ کر جنگ آزادی میں حصہ لینے والے کسی مسلمان فوجی کو بھی پنشن نہیں دی گئی۔ اگر یہ فوجی اتنے ہی برے تھے تو ان کی بھرتی 1857ء کے بعد کیوں کی گئی تھی؟ اگر انہیں بھرتی نہ کیا جاتا تو اٹلی اور برطانیہ پر آج ہٹلر یا میسولینی کا قبضہ ہوتا۔ پہلی جنگ عظیم میں کم ازکم 25 لاکھ مسلمانوں نے حصہ لیا تھا۔ یہ فوجی میدان جنگ میں بھی عین حملے کے وقت اللہ کو نہیں بھولتے تھے، سر مقتل بھی انہوںنے نماز ادا کی۔ ان میں معروف سپاہی خداداد خان بھی شامل تھے۔ جان کی بازی لگانے والوں کی بیوگان کے قصے جارج مائیکل گیلز نے اپنی ذاتی لائبریری میں بھی محفوظ کئے، جبکہ انڈیا آفس، ملٹری آرکائیو میں ان دستاویزات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مارچ 1913ء میں گولہ باری شروع ہونے کے بعد وائسرائے وارن ہیسٹنگس نے بھارت میں پنشن قوانین کی تیاری کے لئے 26 فروری 1915ء کو سیکرٹری آفس سٹیٹ برائے انڈیا لارڈ کریو (Lord Crewe) کوایک خط لکھا۔ اس وقت تک انگریزوں نے مسلمان فوجیوں کے لئے سرے سے کوئی پنشن قوانین تیار ہی نہیں کئے تھے۔ انگریزوں نے لکھا کہ ’’بیوہ کو پنشن کا اہل ثابت کرنے کے لئے شوہر کی جنگ میں موت کے بارے میں کسی شک و شبہے سے بالاتر دلیل دینا ہو گی۔ مرنے والے سپاہی کا اچھا کردارشرط اول ہو گا۔ دیگر شرائط بھی زیر غور لائی جا سکتی ہیں۔جیسا کہ (الف) ایک خاص مرتبے سے اوپر کے سپاہی پنشن کے اہل نہ ہوں گے۔ (ب)کردار پر لازمی بحث ہو گی۔ (ج )سروس کی میعاد (د)شادی کی تاریخ کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہو گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی جانے والی شادی کو بھی پنشن نہ دینے کا جواز بنایا جا سکتا ہے۔ اس فہرست میں شامل 55 بیوگان میں سے 26کے آگے لکھا تھا ’’مجبور عورت ‘‘۔ باقی ماندہ وہ بیوگان تھیں جن کے شوہروں نے اپنے ملک کیلئے خون دیا تھا مگر انہیں پنشن نہ مل سکی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لینا جرم بن گیا تھا ۔ ہوا یوں کہ برطانیہ میں سامراجی بیوروکریسی کے کارندے بیوگان کو پنشن سے محروم کرنے کے کیوں حیلے بہانے تلاش کر رہے تھے؟ اس کا جواب بھی ہمیںکافی غور کے بعد ملا۔ دراصل برطانیہ کو مسلمانوں کو پنشن سے محروم کرنے والے ضابطوں کی ضرورت تھی اس کا مقصد پیسے بچانا نہیں تھا بلکہ سوچ یہ تھی کہ کسی ایک مسلمان کا نام بھی برطانیہ کی سرکاری فائلوں میں نہ لکھا جا سکے۔ کسی کو یہ بھی معلوم نہ ہو سکے کہ مسلمانوں نے برطانیہ اور امریکہ کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کیں۔ مسلمانوں کی قربانیوں کو چھپانے کی خاطر ڈرامائی قوانین کا سہارا لیا گیا۔ یورپ اور امریکہ کو تحفظ مہیا کرنے والوں کی بیوگان نے کیسی تلخ زندگی گزاری، اس کی حقیر سی جھلک آرکائیو میں رکھے ہوئے کاغذوں میں پڑھی جا سکتی ہے۔ ان فائلوں کا مطالعہ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے، انتہائی شرمناک منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں ۔ امرائو بی بی کی ہی کہانی پڑھ لیتے ہیں۔ عمر 80 برس ہو گی۔ ان کے شوہر 1857ء کی جنگ آزادی کے ہیرو بھی تھے، جنگ ناکام ہوئی مگرانہوں نے تو ہر ممکن کوشش کی تھی۔ بعد ازاں جنگ عظیم میں انہیںہٹلر سے لڑنے کے لئے بھرتی کر لیا گیا۔ پھر ان کی بیوہ کی پنشن یہ کہہ کر روک لی گئی کہ ’’یہ تو 1857ء کی جنگ میں بھی شریک ہوئے تھے‘‘۔ اگر یہ جرم تھا تو بھرتی کیوں کیا گیا؟ ایک اور مجاہد کا ذکر کرتے ہیں۔ سوار شیخ امام دین نام تھا اس مجاہد کا۔ان کی بیوہ نے جون 1914ء میں حکومت کو دی گئی درخواست میں لکھا کہ انگریزوں نے ان کے مرحوم شوہر کو ایک میڈل بھی دیا تھا۔ ان کی خدمات ناقابل فراموش تھیں۔ 1908ء میں آنے والے بدترین سیلاب میں ان کامکان بھی پانی پانی ہوگیا، ان کے گھرانے کو محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔ ایک تو تاج برطانیہ انہیں سیلاب سے بچا نہ سکا اور دوسرے سیلاب کی تباہ کاریوں سے ان کے دکھوں میں اضافہ ہو گیا، اس میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب انگریز حکام نے میڈل کی گمشدگی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے یہ کہہ کر پنشن نہ دی کہ انہوں نے 1857ء کی جنگ میں شرکت کی تھی۔ 95برس کی امیر بائی(Amir Bai) سوار عظمت خان کی بیوہ کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ انہوں نے سوچا کہ زندگی آرام سے گزر جائے گی، روز روزکی بھوک اور کام کے جھنجھٹ سے نجات مل جائے گی۔ ان سے یہی غلطی ہوئی۔ بھوک کی شدت سے بچنے کے لئے انگریزوں سے پنشن کی درخواست کر بیٹھیں۔ 9 جون 1916ء کی فہرست کے مطابق ان کی درخواست ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی۔ قمرو بائی بھی انہیں میں سے ایک تھیں۔ بڑا مان تھا انہیں اپنے میاں کی ہمت اور قربانی پر۔ وہ سمجھتی تھیں کہ انہیں تو صلہ مل ہی جائے گا۔ بس یہی سوچ کر انہوں نے برٹش سرکار کو پنشن کی درخواست دے ڈالی۔80 برس بیت چکے تھے، وہ اس عمر میں کر بھی کیا سکتی تھیں، برٹش سرکار کی جانب سے نہ ہو گئی۔ حشرت بی بی، پنشن کی درخواست دیتے وقت ان کی عمر 88 برس ہو گی۔برٹش سرکارسے نہ ہونے کے بعد انہوں نے بڑھاپے میںسلائی مشین سنبھال لی۔ بوڑھی ڈبڈبائی کو آنکھوں سے دن رات سلائی مشین چلانے کے بعد مہینے بھر میں چار آنے مل جاتے۔ سلائی کرتے کرتے ان کی بینائی جواب دے گئی۔ آج کی طرح فیشن کا جنون تو تھا نہیں، تھیلے جیسے کپڑے بھی مل جاتے تو لوگ پہن لیتے تھے۔ اسی صبر و شکر نے حشرت بی بی کا روزگار بھی لگا رکھا تھا۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments