اوریا مقبول جان کالم ….. باز آجاؤ۔۔ ذِلتّ و رُسوائی سے بچو
دنیا کی پانچ ہزار سالہ معلوم تاریخ میں کسی ایسے معرکے کا سراغ نہیں ملتا کہ جہاں ایک خطے میں آباد کئی کروڑ افراد میں سے صرف چند ہزار سرفروش ایک عزم لے کر اٹھیں کہ ہم نے اس برباد اور خون آشام ملک میں امن قائم کرنا ہے اور پھر وہ چند ماہ میں صرف اللہ کے بھروسے اور نصرت سے امن قائم بھی کر دیں۔ یہ امن اس وقت قائم کیا گیا جب پوری دنیا افغانستان کو بدامن رکھنا چاہتی تھی۔ افغانستان میں طالبان کے پُر امن پانچ سال عالمی طاقتوں کے لیئے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ افغانستان۔۔وہ خطہ جسے رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں ’’خراسان‘‘ اور آج کی قومی ریاستوں کے دور میں ’’افغانستان‘‘ کہتے ہیں، وہاں 15فروری 1989ء کے دن ایک بہت بڑی نظریاتی عالمی طاقت ’’سوویت یونین روس‘‘ آٹھ سال بعد ذِلتّ و رُسوائی کی کالک منہ پر لپیٹے ،پسپا ہوئی تو اپنے پیچھے بدترین خانہ جنگی چھوڑ گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے بعد والی خانہ جنگی کے اصل محرک اور فتنہ گر، عالمی طاقتیں نہیں تھیں بلکہ وہ پڑوسی ملک تھے، جو اس بیچارے افغانستان کو ’’کمزور‘‘ ہمسایہ سمجھتے رہے تھے۔ ان میں سے ایک ایران تھا جو یہ آج بھی نسلاً گمان رکھتا ہے کہ یہ افغانستان وہی تو ہے جو صدیوں تک ایرانی سلطنت کا بے آباد، غیر ترقی یافتہ اور غیر اہم حصہ ہوا کرتا تھا۔ دوسرا پاکستان تھا جس کیکچھ طاقتوروں اور ان کی گود میں پلی سیاسی قیادت کو اچانک یہ زعم ہو گیاتھا کہ یہ افغان جنگ دراصل ہماری قومی بصیرت اور مہارت کی بنیاد پر ہی جیتی گئی تھی۔، اسی لیئے وہ افغانستان میں لڑنے والے تمام مجاہد گروہوں کو اپنی ذیلی تنظیمیں سمجھتے تھے۔ تیسرا پڑوسی نسبتاً دور واقع ہے، لیکن قیامِ پاکستان سے بھی پہلے اس کی سیاسی قیادت کے تعلقات کابل میں برسرِ اقتدار ٹولے کے ساتھ مضبوط تھے۔انہی تعلقات کی وجہ سے پشتونستان تحریک اور ڈیورنڈ لائن کے تنازعے نے جنم لیا تھا۔بھارت ہی تو ہے جس پر نہرو خاندان اور کانگریس پارٹی کی حکومت نے افغان بادشاہت سے تعلق کے بل بوتے اور عبدالغفار خان کی سرخپوش تحریک کے دم قدم سے پشتونوں کی تقسیم کے نام پر ڈیورنڈ لائن جیسے مسائل کو گذشتہ 60سالوں سے زندہ رکھا تاکہ پاکستان کی مغربی سرحد ہمیشہ متنازعہ رہے۔ جس دن روس نے افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کیا ،اسی دن سے یہ تینوں ممالک ایران، پاکستان اور بھارت اس جنگ زدہ افغانستان پر اپنے غلبے کا خواب دیکھنے لگے ۔ جس کا جتنا بس چلتا تھا، اس نے افغانستان کی تباہی و بربادی میں اپنا حصہ ڈالا۔ روس 1989ء میںچلا گیا تھا، مگر وہ نجیب اللہ کی حکومت کو مالی اور عسکری امداد دیتا رہا، جو تین سال تک چلتی رہی، لیکن جیسے ہی 1992ء میں خود سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے تو امداد ختم ہوگئی۔ نجیب چار ماہ تک تنہا لڑتا رہا اور آخر کار اقوامِ متحدہ کے عبوری حکومت کے پلان کے مطابق 14اپریل 1992ء کو استعفیٰ دے کر رخصت ہوگیا۔ اس کی رخصتی کے بعد کے اگلے تین سال افغانستان میں بدترین خانہ جنگی کے سال ہیں۔ اس خانہ جنگی کی آگ میں نوازشریف کے اس فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا،جو اس نے پشاور میں افغان مجاہدین کے ساتھ مستقبل کی حکومت سازی کیلئے ہونے والی وسیع البنیاد میٹنگ کے دوران اچانک امریکی نمائندے بینن سیون (Benon Sevan)کی ایک فون کال پر کیا تھا۔ امریکہ چونکہ خانہ جنگی چاہتا تھا اس لیئے وہ تمام گروہوں کو ایک ساتھ حکومت میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ فون پر حکم آیا کہ ناروے میں بیٹھے ہوئے ایک چھوٹے سے جہادی گروہ ’’جبہ نجات ملی‘‘ کے سربراہ صبغت اللہ مجددی کو افغان حکومت کا سربراہ بنادیاجائے اور یوں 20اپریل1992ء کو مجددی تحتِ کابل پر جلوہ افروز ہوگیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ افغان مجاہدین جنہوں نے 12سال اپنے خون سے آزادی کی جنگ لڑی تھی، انتہائی مایوسی کے عالم میں جب واپس افغانستان لوٹے تو بھارت اور ایران اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے اس جلتی سلگتی ہوئی سرزمین میں ان کو گھیرنے کیلئے کود پڑے۔ نسلی اور مسلکی اختلافات کی تاریخ قتل و غارت کے کیلئے کافی تھی۔ ایک جانب پشتون اکثریت اور دوسری جانب ازبک، تاجک اور ہزارہ اقلیتیں۔ایک تاریخ اور بھی خون آلود کہانیوں سے بھری ہوئی تھی اور وہ تھی شیعہ ہزاروں اور سنی پشتونوں کی آپس کی خوفناک لڑائیاں۔ مجددی تو صرف دو ماہ افغانستان کا صدر رہا، لیکن جاتے جاتے اس پورے خطے کو بدامنی اور قتل و غارت کی آندھیوں کے سپرد کر گیا۔ کابل شہر کے پہاڑوں پر ایک طرف گلبدین حکمت یار کی توپیں نصب تھیں اور دوسری طرف احمد شاہ مسعود کا توپ خانہ ،اور ان دونوں کے درمیان کابل شہر ایک اجڑے ہوئے بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتا تھا۔ پورا افغانستان چھوٹے چھوٹے جبہ کمندان کی دسترس میں تھا۔ ایک سو کلومیٹر بھی سفر کرنا مقصود ہوتا تو کئی جگہ قائم چیک پوسٹوں پر بھتہ ادا کرنا پڑتا۔ اَخلاق باختہ، بھتہ خور، قاتل اور ڈکیت صفت لوگ اپنی قوت کے بل پر افغانستان کے چپے چپے پر نہ صرف دندناتے پھرتے تھے بلکہ ظالمانہ راج کرتے تھے۔یہ تھا وہ افغانستان جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بہت اچھا لگتا تھا اور اس ملک کے تینوں پڑوسی بھی افغانستان کی اس حالت پرخوش تھے۔یہی وجہ ہے کوئی ملک اس دوران کسی بھی سطح پر نیک نیتی کے ساتھ امن قائم کرنے کیلئے آگے نہیں بڑھا ۔نجیب اللہ کے استعفیٰ کے بعد جو خانہ جنگی شروع ہوئی تواس نے صرف دو سال کے عرصے میں افغان عوام کی زندگی اس قدر اجیرن کر دی کہ ہر طرف الامان الحفیظ کی صدائیںبلند ہونے لگیں۔گالیاں جہادی تنظیموں کو دی جاتیں اور ظاہر شاہ کے ماضی کو یاد کیا جاتا۔ افغان عوام کی نیم شب کی دعائیں اور مظلوموں کی آہ و بکا رنگ لائی اور 15محرم 1415ہجری، 24جون1994ء کو جمعۃ المبارک کے متبرک دن ’’عمر ثالث‘‘، ملا محمد عمرؒ کی سربراہی میں قائم ہونے والے گروہ ’’طالبان‘‘ نے امن قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ صرف انچاس (49)لوگوں کا یہ مختصر سا جتھہ، اللہ پر توکل کرتے ہوئے اسی دن مشرقی سرحد کی بھتہ خوری میں سب سے بدنام اور سمگلنگ، منشیات کے کاروبار میں ملوث ضلع ڈنڈ اور پنجوائی کی درمیانی سڑک پر قائم ’’داروخان‘‘ کمندان کی پوسٹ پر صرف بارہ طالبان حملہ آور ہوئے ۔دارو خان کے بیس لوگ مارے گئے اور باقیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ اسی دن بظاہر نرم و نازک نظر آنے والے ملا عبد السلام ضعیف کی سربراہی میں ایک اور پوسٹ پر حملہ کیا گیا۔ یہ افغانستان کی مضبوط ترین پوسٹ سمجھی جاتی تھی ،جو قندھار شہر کے مضافات میں تھی ۔ اسکا انچارج صالح محمد جیسا ظالم اور جنسی درندگی میں مشہور شخص تھا۔اس مضبوط قلعے کوچند گھنٹوں کی جنگ کے بعد ہی فتح کر لیا گیا۔ پورا قندھار شہر اس فتح کو دیکھنے کے لیئے امڈ پڑا۔اس پوسٹ کے عقب میں ایک میدان تھا جہاں لاتعداد ایسی عورتوں کی لاشیں ملیں، جنہیں جنسی ہوس کی پیاس بجھا کر پھینک دیا گیا تھا تاکہ وہ گدھوں اور آوارہ کتوں کی خوراک بن جائیں۔اس یادگار دن کے دو سال بعد 27ستمبر 1996ء کو کابل پر طالبان کے امن کا پرچم لہرا رہا تھا۔ لیکن کابل کی فتح سے ڈیڑھ سال پہلے ہی نوے فیصد افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور افغانوں کا کئی دہائیوں سے دیکھا ہوا امن کا خواب اپنی تعبیر کی صورت نظر آرہا تھا۔ کابل پر اتنی دیر بعد قبضے کی اصل وجہ بھی طالبان کے مخالف پڑوسی ممالک کی خفیہ مدد تھی۔عالمی قوتوں اور پڑوسی ممالک کی خواہش تھی اور آج بھی ہے کہ اس ’’خراسان‘‘ میں کبھی امن قائم نہ ہو۔(جاری )
افغانستان جو’’ خراسانِ قدیمی ‘‘ہے وہاں امن دنیا بھر کی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ نہ صرف افغانستان بلکہ اس خطے کے تین ممالک کے بارے میں ایک کسنجر ڈاکٹرائن (kissinger Doctrine)ہے ،جو سی آئی اے سے لے کر دیگر عالمی سطح کی خفیہ ایجنسیوں میں مرکزی نکتے کے طور پر سمجھی جاتی ہے کہ اگر آپ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا پر اپنا قبضہ مسلط کرنا اور مفاد کا تحفظ چاہتے ہیں تو پھر پاکستان، افغانستان اور ایران میں کبھی مستحکم اور عوام میں مقبول حکومتیں نہ بننے دینا، وہاں اندرونی خفلشار، خانہ جنگی اور تشدد کو پنپنے میں مدد دینا اور انہیں ہر وقت کسی نہ کسی ایسے تنازعے میں الجھائے رکھنا جس کی وجہ سے عالمی برادری میں ان کے بارے میں مسلسل تشویش پائی جاتی رہے۔ امریکی آرکائیوز کے دفتر مورخ (Office of the Historian)کے قدیمی ریکارڈ میں اس ڈاکٹرائن کی گونج بار بار سنائی دیتی ہے۔اسی بنیاد پر ان تینوں ملکوں میں نفرتوں کے بیج بوئے گئے، علاقائی تنازعات کو ابھارا گیا، علیحدگی پسندوں کو منظم کیا گیا، حکمرانوں ، لیڈروں اور اسٹبلشمنٹ کے اعلیٰ کارندوں کو خریدا گیا۔ ایران میں آیت اللہ خمینی کی سربراہی میں امریکہ مخالف انقلاب آیا تو اس پرعراق کے ذریعے جنگ مسلط کر وائی گئی ، جو آٹھ سال جاری رہی اور اس دوران وہ ایرانی انقلاب جو اپنی اٹھان سے مسلکی اختلاف سے بالاتر تھا، بدترین ’’عرب و عجم‘‘ قوم پرستی میں الجھ کر رہ گیا۔ عرب، ایران اختلافات ایسے ابھر کر سامنے آئے کہ آج تک صرف ایران ہی نہیں بلکہ پورا مشرق وسطیٰ اس کی قیمت چکا رہاہے۔اس عرصے میں پاکستان کی حالت بھی مختلف نہ رہی۔ عدم استحکام، تشدد، خونریزی اور معاشی بدحالی ہماری پہچان بن گئی۔ اپنے محلِ وقوع، افرادی قوت اور تاریخ کے اعتبار سے افغانستان کی عالمی طاقتوں کیلئے بربادی و تباہی زیادہ اہم تھی۔ افغانستان ایسا لوہے کا چنا ہے جس پر کسی عالمی طاقت کا زور نہیں چلتا، جو اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے دانت تڑوا بیٹھتی ہے اور پھر وہ ایسے سانپ کی طرح جس کے دانت نیولہ کھٹے کر دیتا ہے،وہ صرف اپنی پھنکار کے بل بوتے پر اپنارعب قائم رکھنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 27 ستمبر1996ء کو کابل میں طالبان کا پُرامن پرچم لہرایا تو اسی دن سے افغانستان کو خانہ جنگی میںالجھانے کا منصوبہ تیز کر دیا گیا۔ اسی دن کمانڈر احمد شاہ مسعود تاجکستان کی سرحد عبور کرکے دوشنبے میں بھارتی سفیر راج متھو کمار کے ساتھ موجود تھااور ساتھ ہی 24سالہ امراللہ صالح بھی تھا ،جو آجکل اشرف غنی کا وزیرداخلہ ہے اورجس کا شمار پاکستان کے بدترین دشمنوں میںہوتا ہے۔طالبان کے خلاف بھارت نے شمالی اتحاد کی مالی اور عسکری امداد شروع کر دی۔انہیں لڑنے کیلئے دس ہیلی کاپٹر دیئے گئے جو تاجکستان کی سرحد کے پاس فارفور میں چوکس موجود رہتے۔یہ ہیلی کاپٹر ایک ایسے ہسپتال کے ہیلی پیڈ کے پاس ہوتے جو 7.5ارب ڈالر کی لاگت سے بنایا گیا تھا ۔ شمالی اتحاد کے زخمی یہاں لائے جاتے، علاج کرواتے اور واپس جنگ کا ایندھن بننے کیلئے بھیج دیئے جاتے۔ طالبان کے خلاف برسرِ پیکار شمالی اتحاد کی عسکری ٹریننگ اور امداد کا ذریعہ ایران بھی تھا، جس نے طالبان مخالف اتحاد کے مرکز مزار شریف میں اپنا قونصلیٹ بھی قائم کر رکھا تھا اور ساتھ ہی پاسداران کا ٹریننگ کیمپ موجود تھا ۔ عبدالرشید دوستم کا ایک کمانڈر عبدالملک پہلوان اس سے علیحدہ ہوا تو اس نے مزارشریف پر قبضہ کر لیا اور طالبان کو دھوکے سے وہاں آکر حکومت بنانے کی دعوت دے دی۔ یوں فریب سے بلا کر تین ہزار طالبان کو سفاکی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔درندگی کا عالم یہ تھا کہ دوہزار طالبان کو کنٹینروں میں ڈال کر کنٹینر صحراکی دھوپ میں چھوڑ دیئے گئے اور وہ اندر ہی تڑپ تڑپ کر مرگئے۔عبدالملک پہلوان، قیدی طالبان میں سے اگر کسی کی گرد کاٹتا تو اس پرپیٹرول چھڑک کر آگ لگاتا جس سے لاش تڑپنے لگتی تو وہ کہتا کہ یہ حزب و حدت کے سربراہ عبدالعلی مزاری کے قتل کا بدلہ ہے۔اس ظلم کے بعد طالبان نے جب منظم ہوکر مزارشریف پر پھر حملہ کیا تو کوئی ان کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ اسی حملے میں گیارہ ایرانی پاسداران بھی مارے گئے، جنہیں تہران نے سفارتی اہلکار قرار دے دیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد ایران نے افغانستان کی سرحد پر ستر ہزار افواج کھڑی کر دیں۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ملا محمد عمرؒ نے اپنا تاریخی فقرہ کہا تھا، ’’افغانستان ایک گوند کا تالاب ہے، اس میں گھسنا آسان ہے نکلنا مشکل‘‘۔لیکن فروری 1999ء میں صلح ہوگئی اور طالبان حکومت اور ایران کے درمیان براہ راست گفتگو کا آغاز بھی ہوگیا،مگرحالات بہتر نہ ہو سکے اوراکتوبر 2001ء میں اسی شمالی اتحاد کی افواج اپنے پشت پناہوں، امریکہ، بھارت، ایران، عالمی برادری اور پاکستان کی مدد سے کابل میں داخل ہوگئیں۔ پاکستان کے نام نہاد دانشور جن کے دماغ میں یہ بات سماہی نہیں سکتی تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق نہتے اور چھوٹے سے گروہ کو بڑے گروہ پر فتح دے سکتا ہے، وہ اپنی منطقیں بھگارتے رہتے ہیں۔ مثلاً 1995ء میں یہ گفتگو عام کر دی گئی کہ طالبان کو تو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے بنایا ہے اور ہماری خفیہ ایجنسیوں والے بھی خاموشی سے اسکا کریڈٹ لینے لگے۔ حالانکہ کئی برسوں تک تو یہ ’’خفیہ والے دانشور‘‘ یہاں تک کہتے پھرتے تھے کہ ملا عمر نام کی کوئی شخصیت ہی نہیں ہے، سب ہماری آئی ایس آئی کا کھیل ہے۔جبکہ اسوقت پاکستان کی افغانستان میںحالت یہ تھی کہ جب گیارہ نومبر 1994ء کو طالبان نے سرحدی شہر سپن بولدک پر قبضے کے بعد قندھار کی جانب پیش قدمی شروع کی تو تختہ پل پرپاکستان کی این ایل سی کے ٹرکوں کا بڑا قافلہ یرغمال بنایا ہوا تھا اور اس پورے علاقے پر گلبدین حکمت یارکی حزبِ اسلامی کی حکومت تھی۔ طالبان نے آگے بڑھنے سے پہلے اس قافلے کو آزاد کروا کر واپس پاکستان روانہ کیا۔ قافلے کی چمن واپسی پرپاکستان کی اعلیٰ سطح کی قیادت حیران تھی اور پوچھتی پھررہی تھی کہ یہ کیسے ہوا۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد ملا عمرؒ نے ایک پالیسی بیان دیا تھا کہ ’’پاکستان ہمارا دوست ہے اور دوست رہے گا کیونکہ اس کی اور ہماری سلامتی کے تقاضے مشترک ہیں، ہم الگ ہو کر کسی قابل بھی نہیں رہیں گے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کے ساتھ مل کر جو کچھ کیا، اس سب کے باوجود طالبان کے نزدیک ملا محمد عمرؒ کا یہ پالیسی بیان آج بھی ایک وصیت کا درجہ رکھتاہے اور وہ پاکستان سے بگاڑنا نہیں چاہتے۔ امریکہ جارہا ہے۔ اس کے جانے سے پہلے گذشتہ ماہ تاجکستان کے اسی فارفور کے اڈے کو طالبان کے خلاف منظم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاکہ وہاں سے سی آئی اے ، بھارت اور شمالی اتحاد مل کر افغانستان میں بدامنی پیدا کریں اور اسطرح طالبان کو پاکستان ہجرت پر مجبور کیا جائے۔ لیکن مومن کی بصیرت رکھنے والے طالبان نے سب سے پہلے تاجکستان کی ہی پوری سرحد پر قبضہ کیا اور 22جون2021ء کوبندرشیر خان سمیت ساری تاجک سرحد طالبان کے قبضے میں آچکی تھی۔ علاقے میں سوائے قندوز کے مرکزی شہر کے سارا علاقہ آج طالبان کے زیر تسلط ہے۔ تاجکستان میں موجود استاذ عطا، فیروز الدین عمیق، احمد شاہ مسعود کا بیٹا اور بھائی اپنے پلان کی ناکامی پراب بے بسی سے اس پاکستان کی سمت دیکھ رہے ہیں، جسے کل تک وہ گالیاں دیتے تھے ۔مگر 27جون کو طالبان نے پاکستان اور افغانستان کی پوری سرحد پر قبضہ مکمل کر لیا ہے اور اب وہاں افغان فوجی نہیں بلکہ طالبان کھڑے ہیں۔وہ لوگ جو مدتوں بھارتی دستر خوان کی روٹیاں توڑتے رہے جن میں استاذربانی کا بیٹا صلاح الدین، عبد اللہ عبد اللہ ، احمد شاہ کا بیٹا احمد مسعود، بھائی احمد ضیاء مسعود اور دیگر، ان سب کو اب پاکستان یاد آرہا ہے۔ ’’وسیع البنیاد‘‘ حکومت یاد آرہی ہے۔ عمران خان کو بھی جمہوریت کا خمار چڑھ چکا ہے۔ لیکن !یاد رکھو طالبان نے بیس سال شریعت کے نفاذ کے لیئے شہادتیں دی ہیںاور پاکستان نے عالمی اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دے کر ستر ہزار جانیں قربان کی ہیں۔ انہیں عالمی اسٹبلشمنٹ کے ایجنڈے پر راضی کرنے کی کوشش کبھی نہ کرنا۔ دنیا میں بھی رسوائی ہوگی ،کہ ایٹمی قوت کا خمار امریکہ اور روس کو بھی تھا دونوں ذلیل ہوئے۔ لیکن اصل رسوائی تو حشر کے میدان میں ہوگی۔(ختم شد)
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں اتوار 27 جون 2021ء کو شایع کیا گیا