آسٹریلیا:
ایک نئے مطالعے سے طبی سائنس میں پہلی مرتبہ یہ ثبوت سامنے آئے ہیں کہ پھیپھڑوں میں بھی چربی جمع ہوسکتی ہے۔ اس سے بعض موٹے افراد میں سانس اور دمے کا مرض بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ موٹاپے اور دمے کے درمیان تعلق کا کوئی ثبوت سامنے آیا ہے۔ ماہرین نے اس کی کئی وضاحتیں پیش کی ہیں لیکن ان میں سے کسی پر بھی حتمی طور پر بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
آسٹریلیا میں چارلس گیرڈنر ہسپتال کے پروفیسر جان ایلیئٹ نے بتایا کہ انہوں نے پھیپھڑوں کے ہوائی راستوں یا ایئرویز میں چکنائی کی بافتیں(ٹشوز) پہلی بار دیکھے ہیں۔ اس طرح پھیپھڑوں میں غیرمعمولی چربی جمع ہونے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔
اس تجربے کےلیے ڈاکٹروں کی ٹیم نے بعد از مرگ ایسے 52 پھیپھڑوں کا مطالعہ کیا ہے جنہیں لوگوں نے تحقیق کے لیے عطیہ کیا تھا۔ ان میں سے 15 کو دمے کی کوئی شکایت نہیں تھی۔ 21 افراد دمے کے مریض تو تھے لیکن موت کسی اور وجہ سے ہوئی تھی جبکہ 16 افراد دمے سے وابستہ مرض کے تحت فوت ہوئے تھے۔
ماہرین نے خاص رنگ کی طبی ڈائی استعمال کرتے ہوئے سانس کی 1373 نالیوں کا مشاہدہ کیا اور ان میں کسی قسم کی چربی کی موجودگی کو نوٹ کیا۔ ساتھ ہی مریض کے بارے میں اسپتال سے حاصل ہونے والے موٹاپے یا بی ایم آئی کے پہلوؤں پر بھی غور کیا گیا۔
معلوم ہوا کہ مرنے والا جتنا فربہ تھا، اسی تناسب سے اس کی سانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں تک میں چربی جمع تھی۔ اس طرح تصدیق ہوئی کہ جسمانی چربی پھیپھڑوں تک میں سرایت کرسکتی ہے اور دیگر کئی امراض کی وجہ بنتی ہے۔
سائنسداں متفق ہیں کہ یہ چربی سانس کی نالیوں کو تنگ کرکے جلن اور سانس کے امراض کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس طرح موٹاپے اور سانس کے امراض کے درمیان ایک تعلق بھی سامنے آیا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ شاید وزن کم کرکے اس کیفیت کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن اس کےلیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔