اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا سلیقہ
اللہ کریم کی رضا کو پانے کے لیے، اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے،اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے تو اسے انفاق کہتے ہیں لیکن انفاق صرف مال و دولت خرچ کرنے تک محدود نہیں بلکہ عملی زندگی کے ہرکام اور عمل پر محیط ہے،لہٰذا تعلیم و تعلم ہو یا تحریرو تقریر،ہنر ہو یا صلاحیت ان سب چیزوں کو اللہ کے لیے استعمال کرنا انفاق ہی ہے لیکن یہ تب تک مقبول ِبارگاہ نہیں ہوتا جب تک ہم اسے اپنی طرف سے خوب اچھی طرح بنا سنوار کر اللہ کریم کو پیش نہیں کرتے۔ سادہ سا اصول دیا کہ کوئی ایسی چیز جو تم خود پسند نہیں کرتے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو قبول نہیں ہوسکتی۔ خرچ کرنا تب ہی مقبول ہوگا جب انسان اپنی محبوب چیز کی قربانی کرے۔ اپنی ضرورت یا خواہش کو قربان کر کے اللہ کو راضی کرنے کے لیے پسندیدہ اور محبوب چیز دے۔اس لیے کہ وما تنفقوا من شئی فان اللہ بہ علیم ہ بندہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی دیتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا، نہ ہی اسے کسی رسید کی ضرورت ہے،نہ اس کا حساب رکھنے کی کہ اللہ کریم اس کے عمل کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور بندے کی یہ قربانی اللہ کے ذاتی علم میں ہوتی ہے۔
2021 مین کیا ہو سکتا ہے؟ صاحبان نظرکیا کہتے ہیں ؟ اوریا مقبول جان
بندے کو سب سے محبوب اپنی خواہشات ہوتی ہیں۔ ان خواہشات کی تکمیل میں اگر وہ مرضیات باری اور سنت رسول اللہ ﷺ کو اہمیت دیتا ہے، اپنی خواہشات سے صرفِ نظر کرکے اطاعت الٰہی کرتا ہے، اتباع نبوی ﷺ میں کوشاں رہتا ہے تو یہ اللہ کے نزدیک بہت پسندیدہ بات ہے اور غریب بھی اس انفاق سے محروم نہیں رہ سکتا۔آپ ﷺ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا گیا کہ سرمایہ رکھنے والے انفاق فی سبیل اللہ میں بازی لے جاتے ہیں اور غرباء کا انفاق جس قدر بھی ہو اس کی امراء کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔تو آپ ﷺ نے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے ہاں زیادہ یاکم کی کوئی شرط نہیں بلکہ صرف اس خلوص کی اہمیت ہے جس خلوص کے ساتھ عمل کیا جائے،خواہ وہ تھوڑاہو یا زیادہ۔اگر کروڑ پتی شخص لاکھوں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اورایک مزدور جس کی یومیہ مزدوری چند سو روپے ہے وہ اس میں سے چند روپے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس مزدور کا انفاق زیادہ پسندیدہ ہے کہ اس کی قربانی اور خلوص کروڑ پتی سے بڑھا ہوا ہے۔
اللہ!رحمن اور رحیم … یہ بھی پڑھیں
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا سلیقہ یہ ہے کہ عمل خلوص سے کیا جائے۔ایسی چیزیں دی جائیں جو بندے کو خود بھی پسند ہوں۔ ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ جو چیز ناقابل استعمال سمجھی جائے وہ اللہ کی راہ میں دی جاتی ہے۔ضائع کرنے سے تو بہتر ہے کہ کسی کے کام آجائے،لیکن سلیقہ یہ ہے کہ بہتر چیز اللہ کی راہ میں دی جائے۔آدمی جب دینے پر آتا ہے تو مال و دولت دے دیتا ہے لیکن اس کے لیے سب سے مشکل کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس کو قربان کر کے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت پر کاربند ہو۔ اسی طرح ہر ایک کو جان بڑی پیاری ہوتی ہے اور جان بچانے کے لیے بڑے حیلے بہانے کیے جاتے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں جان دینے کا وقت آئے تو جوخلوص سے رضائے باری تعالیٰ کے لیے جان دے اللہ اس کے اس عمل کو بہت پسند فرماتا ہے۔سو نیکی اور بھلائی یہ ہے
اور عنداللہ یہی سلیقہ عمل کے مقبول ہونے کی علامت ہے جس میں بندہ اپنی خواہشات اور اپنی تمناؤں کو قربان کرکے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ نیکی کر کے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کہ نیکی کی تو اس کا حاصل کیا ہوا؟یہ ایک عجیب رویہ ہے کہ ہم نیکی کر کے یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے دین پر بڑا احسان کیا اور جب ہم پر کوئی مصیبت آجائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے دین کا فلاں کام کیا تھا اس کے لیے جو قربانی دی تھی اس کے نتیجے میں ہم پر یہ مصیبت آئی،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم پر جو مصیبت یا تکلیفیں آتی ہیں وہ ہماری اپنی کوتاہیوں کا ثمر ہوتی ہیں۔ ہمارے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ہم دین کا کوئی بھی کام کرتے ہیں،اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یا اللہ کی عبادت کرتے ہیں تویہ ہمارا اللہ پر اس کے نبی ﷺ پر اور دین اسلام پر احسان نہیں بلکہ یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ کسی ان کاموں کی توفیق بخش دے۔ بعض احباب کو یہ خیال ہوتاہے کہ صلوٰۃ کی ادائیگی،ذکر اور نیکی پریشانیوں کا حل ہے۔اگرذکر کرنے کے بعد بھی صلوٰۃ پنجگانہ ادا کرنے کے بعد بھی،حلال کھانے کے بھی یہ تکلیف آرہی ہے تو دیکھنا ہو گا کہ بندے کے کردار میں کہاں کوئی کوتاہی ہورہی ہے جس کی وجہ سے تکلیف آرہی ہے اور یہ کہ اتنی غلطیوں، کوتاہیوں کے بعد بھی ذکر کی توفیق نصیب ہے تو یہ بندے کا احسان نہیں، اللہ کا احسان ہے یہ کچھ بدوی لوگ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عرض گزار ہوئے کہ انھوں نے کلمہ پڑھا اور حضور ﷺ کا ساتھ دیا اللہ کریم نے ان لوگوں کو قرآن حکیم میں یہ جواب دیا کہ اپنے اسلام کا حضور ﷺ پر احسان نہ دھریں فرمایا بلکہ انھیں فرما دیجیے کہ یہ تو ان پر اللہ کا احسان ہے کہ انھیں اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی۔
جنت کا میوہ انار: بے پناہ فوائد کا حامل پھل … یہ بھی پڑھیں
ہم بھی اگر عبادت کرتے ہیں، تبلیغ و ذکر کرتے ہیں،اس میں محنت و مجاہدہ کرتے ہیں تو یہ بھی اللہ کریم کی عطا ہے،اس کی توفیق سے ہے۔دنیوی امور میں تو ہم دوسرارویہ رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ہمیں ملازمت دیتا ہے تو ہم اس کا احسان مانتے ہیں جکہ اس نے ہمیں ملازمت دے دی ورنہ وہ کسی اور کو بھی دے سکتا تھا۔تب تو ہم نہیں سمجھتے کہ ہم اس کی خدمت کررہے ہیں ہمارا اس پر احسان ہے لیکن جب ہم اللہ کی بارگاہ میں جاتے ہیں تو وہاں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عبادت کررہے تبلیغ کررہے ہیں،روزے رکھ رہے ہیں،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ توفیق دے رہا ہے۔یہ اس کا احسان ہے کہ وہ توفیق عمل عطا کررہا ہے۔کسی شاعر نے کہا تھا ؎
منت ِ منے کہ خدمت سلطان می کنی
منت ِ زا او بداں کہ بخدمت گزاشتیم
یہ احسان نہ دھر و کہ تم بادشاہ کی خدمت کر رہے ہو یہ احسان بادشاہ کا ہے کہ وہ تمہیں اپنی خدمت پر رکھے ہوئے ہے۔ لہٰذا نیکی کے اجرو ثواب کے لیے پریشان ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پرجانتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بندہ جو نیکی بھی کرتا ہے اپنی حیثیت کے مطابق ہی کرتا ہے اور اللہ کریم جب اجر سے نوازتے ہیں تو اپنی شان کے مطابق عطا کرتے ہیں۔
(مولانا محمد اکرم اعوان – سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ )