اللہ!رحمن اور رحیم
اسلام کی بنیاد اس بات پر ہے کہ جو کچھ ہے صر ف اللہ ہے باقی کوئی کچھ بھی نہیں۔ سب خوبیاں‘ سب کمالات اس رب کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ پروردگار وہ ہوتا ہے جو تخلیق سے تکمیل تک ہر مرحلے میں پرورش کر تا ہے اور جب‘ جہاں‘ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ عطا فرماتا ہے۔ کوئی خوبصورت ہے تو حسن اُس کی عطا ہے‘ کوئی طاقتور ہے تو طاقت اُس کی عطا ہے‘ کوئی امیر ہے تو دولت اُس کی عطا ہے‘ کوئی صحت مند ہے توصحت اُس کی عطا ہے‘ کوئی عالم ہے تو علم اُس کی عطا ہے۔ غرض جہاں جو خوبی تصویر میں ہے‘ وہ خوبی تصویر کی نہیں مصور کی ہے‘ کمال مصور کا ہے۔ کائنات میں جس جس کے پاس جتنی خوبیاں ہیں‘ وہ سب خوبیاں اللہ کی ہیں‘ باقی کوئی کچھ بھی نہیں۔ سارے کمالات اسی کی خوبیوں کے مظہر ہیں‘اس کی عظمت کا اظہار ہیں۔
وہ رحمن ہے‘ رحیم ہے۔ رحمن اور رحیم کا مادہ تو ایک ہے اور قرآن حکیم میں اختصار ہے‘ پھر ایک ہی لفظ دوبار کیوں لایا گیا؟ اس لئے کہ رحمن کا مفہوم جدا ہے‘ رحیم کا مفہوم جدا‘ لفظ ایک ہے۔ عربی میں فعل سے الفاظ کو تولا جاتا ہے۔ فعلان کے وزن پر ہے۔ فعلان کے وزن پر جتنے لفظ آتے ہیں وہ لمحاتی اور وقتی ہوتے ہیں‘ ان میں دوام نہیں ہوتا جیسے فعلان کے وزن پر غضبان‘ غصے میں آیا ہوا بندہ۔ اب غصہ ہمیشہ تو نہیں رہتا‘ غصے میں آیا‘ غصہ فرو ہو گیا۔ اسی طرح اس وزن پہ عطشان آتا ہے‘ پیاسا۔ پیاس ہمیشہ تو نہیں رہتی‘ پانی پیا‘ پیاس ختم ہو گئی۔ حیران‘ یہ سارے فعلان کے وزن پہ ہیں۔ پریشان‘ اب پریشان ہمیشہ کوئی نہیں رہتا‘ وقتی پریشانی ہوتی ہے‘ ختم ہو گئی۔ الرحمن صفت باری تعالیٰ ہے۔ لیکن اس کا اظہار وقتی ہے۔ اس لئے فرمایا گیا: الرحمٰن للدنیا۔ جب تک دنیا قائم ہے اللہ کے رحمن ہونے کا اظہار ہوتا رہے گا۔ کافر کو بھی وجود بخشتا ہے‘ نعمتیں بخشتا ہے‘ حواس بخشتا ہے‘ طاقت‘ دولت‘ اولاد‘ کیا کیا نعمتیں دیتا ہے! یہ رحمانیت ہے۔ جب تک دنیا ہے اس صفت کا اظہار ہوتا رہے گا۔ دنیا ختم ہو گی تو اس صفت کا اظہار بھی ختم ہو جائے گا۔
دار العرفان کے نزدیک ایک بہت بڑی چٹان بارودسے اڑائی گئی تو اس میں سے ایک چھوٹا سا پتھر کا گیند نکلا۔ اس گیند کو توڑا گیا تو اس میں اڑنے والی ایک مخلوق تھی‘نیلے رنگ کی اور اتنا چھوٹا سا دائرہ اس کے لئے درمیان میں خالی تھا‘ زندہ بھی تھی‘ چل پھر بھی رہی تھی‘ کھا پی بھی رہی تھی۔ نوے فٹ ایک چٹان کے اندر اسے پیدا بھی کیا‘ اسے روزی بھی دے رہا ہے۔ یہ میرا مشاہدہ ہے لیکن مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ وہ پتھر کہیں کھو گیا‘وہ تو رکھنے کے لائق تھا اور اس کے درمیان میں اس طرح دو ٹکڑے ہوئے کہ تھوڑی سی جگہ خالی تھی۔ اس طرح اس کی روزی کوئی نہیں روک سکا‘ تیری یہاں بیٹھ کے کون روک سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پہچان ہی نہیں سکے۔ اگر وہ بھوکا رکھ کر خوش ہے تو بھوکا رکھے۔ ہم کمزور ہیں‘ ہم دعا کریں گے یا اللہ! مجھ میں بھوکا رہنے کی ہمت نہیں‘ مجھے روزی دے۔ توہمارا حق ہے‘ وہ اس پر خوش ہوتا ہے۔ ہم بیٹھ جائیں کہ اللہ نے تو دی تھی لیکن کسی نے راستے میں روک دی۔ یہ ایمان مسلمان کا نہیں‘ ہندوؤں کا عقیدہ ہے۔
رحمانیت دنیا کے لئے بہت وسیع ہے۔ اللہ کی ربوبیت بہت وسیع ہے‘ جس کا آدمی اندازہ نہیں کر سکتا۔ ہرتنکا‘ جو اگتا ہے‘ ہر پھول جو کھلتا ہے‘ ہر پھل جو پکتا ہے اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ وہ چیونٹی سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق کو پیدا کرتا ہے‘ پالتا ہے‘ روزی دیتا ہے۔ یہ سورج جو طلوع ہوتا ہے‘ اس کا کرم ہے‘ اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ہمیں تپش دے رہا ہے‘ چیونٹی سمجھتی ہے میرے انڈے سینک رہا ہے‘ پھل سمجھتا ہے مجھے پکا رہا ہے‘ فصل سمجھتی ہے مجھے اگا رہا ہے۔ جتنے بے شمار کام ایک سورج کے آنے اور جانے سے وابستہ ہیں‘ہم گن نہیں سکتے‘ یہ اُس کی ربوبیت ہے۔ چونکہ وہ رب ہے اس لئے اس نے تخلیق بھی کرنی ہے‘ ان کی پرورش بھی کرنی ہے اور انہیں ان کے کمال اور انجام تک پہنچانا بھی ہے۔
آپ دیکھتے ہیں ایک مکھی کتنا سفر کرتی ہے‘ کہاں کہاں جاتی ہے۔ کس کس پھول سے رس لیتی ہے اور کیسے شہد بناتی ہے! اس مکھی کو سکھانے والا کون ہے؟ مکھیاں پالنے والے کہتے ہیں کہ مکھی کی اوسط عمر دو مہینے ہوتی ہے اور وہ یہ سب کام کرتی ہے۔ کسی کو سیکھنا پڑے تو دو سالوں میں بھی سکھایا نہیں جاسکتا کہ کس پھول سے رس کس طرح لینا ہے؟ اس میں کون سا مادہ ملانا ہے اور کس طرح ڈھالنا ہے‘ پھر شہد بنے گا۔ اس کا مطلب ہے شہد کی مکھی پیدا ہوتی ہے تو اسے وہ سکھا دیتا ہے کہ شہد ایسے بنانا ہے اور وہ کام میں لگ جاتی ہے۔ جانور کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے پتہ ہے میری روزی ماں کے تھنوں میں ہے‘ وہ دودھ کی تلاش کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ مچھلی کا بچہ سمندر میں پیدا ہوتا ہے اور تیرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسے تیرنا کون سکھاتا ہے؟ کون بتاتا ہے مچھلی کے اس چھوٹے سے بچے کو؟
میں نے ایک ڈاکو مینٹری میں دیکھا کہ شتر مرغ کے انڈے سے بچہ نکلا‘ وہ ابھی دو چار قدم ہی چلا تھا کہ کچھ فاصلے پر ایک جنگلی جانور گزرا۔وہ بچہ زمین پہ بیٹھ کے چھپ گیا‘ سر کا بھی نہیں اورسمٹ کر بیٹھ گیا۔ ڈاکومینٹری پیش کرنے والا اس پہ تبصرہ کر رہا تھا کہ اس بچے کی عمر دو منٹ ہے لیکن اسے کس نے بتا دیا کہ تیرے لئے یہ خطرہ ہے اور اس سے تجھے اس طرح بچنا ہے؟ یہ سارا کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے مظہر ہیں۔ اس نے مخلوق کو پیدا کرنا ہے‘ پالنا ہے‘ اس کی ہر ضرورت پوری کرنی ہے۔ جس علم کی ضرورت ہے‘ عطا کر رہا ہے۔ شیر کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو تین مہینے تک آنکھیں ہی نہیں کھولتا۔ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے‘ جنگل میں بے فکر پڑا ہے۔ ہرنی کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو دوسرے لمحے ماں کے ساتھ بھاگ رہا ہوتا ہے۔ اس کے لئے خطرہ ہے‘ اس لئے اسے بھاگنا ہے۔ ہر ایک کی نہ صرف ضرورتیں پوری کیں بلکہ احساس ضرورت بھی عطا کر دیا کہ تجھے اس چیز کی ضرورت ہے۔ پھر اسے تکمیل کا ذریعہ سمجھا دیا کہ اس طرح تیری یہ ضرورت پوری ہو گی۔ اتنی وسیع ربوبیت بھی اس کی رحمانیت کا ایک شعبہ ہے۔
مولانا محمد اکرم اعوان … سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ
“اللہ!رحمن اور رحیم” ایک تبصرہ