اجتہاد اور دور جدید کے مسائل
تحریر مولانا محمد اکرم اعوان:
کچھ چیزیں اصول ہوتی ہیں۔قرآن نے سارے اصول بیان کیے۔نبی علیہ الصلوٰة ولسلام نے اس کی تشریح،فرع اور اس کی تفسیر بیان فرمائی۔پھر آپ ﷺ کی ساری عمر کا عمل قرآن کی تفسیر ہے۔صحابہ کرامؓ کا حضورﷺ کے سامنے عمل قرآن کی تفسیر ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آج کے اس بگڑے ہوئے معاشرے کو کن حدود میں لایا جائے،کن حدود و قیود کا پابند کیا جائے کہ وہ قرآن کے مطابق ڈھل جائے یہ جو اجتہاد ہے۔ ہم نے اجتہاد یہ نہیں کرنا کہ قرآن کو کہاں سے تبدیل کیا جائے،اجتہاد یہ کرنا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کو کسی طرح قرآن کے بنائے ہوئے اصولوں میں ڈھالا جائے۔ہمیں قرآن کے احکام میں قطع و برید نہیں کرنی،ہمیں قطع و برید اپنے کردار میں کرنی ہے۔اجتہاد کیا ہوتا ہے؟اجتہاد یہ ہوتا ہے کہ قرآن میں ایک چیز کا حکم موجود ہے تو اس پر کوئی اجتہاد نہیں ، بات ختم ہو گئی۔قرآن میں حکم موجود ہے اور سوائے ماننے کے کوئی چارہ نہیں، اس پہ کوئی اجتہاد نہیں ہوگا۔ ایک حکم حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے،نبی کریم ﷺ نے ایک حکم دے دیا تو بات ختم ہوگئی۔اب اس پہ کوئی اجتہاد نہیں،کسی اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔ تعمیل ارشاد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایک ایسی بات سامنے آجاتی ہے جس کا حل ہم کتاب مجید سے تلاش نہیں کر سکتے۔ پھر ہمیں حدیث شریف سے تلاش کرنا ہوگا۔ حدیث شریف میں بھی تلاش نہیںکرسکتے تو پھر متقدمین کے کردار میں تلاش کرنا ہوگا۔صحابہ کرام ؓ کے ، تابعین،تبع تابعین کے کردار میں ، ان کے فیصلوں میں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ وہاں بھی نہیں ملتا تو پھروہ شخص اجتہاد کا اہل ہے جو قرآن کریم ،اس کی تفسیر،اس کی شان نزول اور اس کے معانی و مفاہیم پر گہری نظر رکھتا ہے،جس کی نظر پوری حدیث پر ہے، جس کی نظر سلف صالحین کے سارے حالات پر ہے۔پھر اس چیز کو لے کر وہ شخص تطابق تلاش کرے گا۔مطابقت تلاش کرے گا کہ اس قسم کے واقعہ کی کوئی مثال قرآن میں، حدیث میں یا متقدمین میں ملتی ہو کہ اس کے مطابق حل کیاجائے۔اگر اس کے مطابق حل کرے گا تو یہ اجتہادکہلائے گا۔اب یہ کہہ دینا کہ قومی اسمبلی اجتہاد کرے ۔ قومی اسمبلی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو قرآن مجید پڑھ سکتے ہیں تو ترجمہ نہیں آتا۔ایسے بھی ہیں جنھیں حدیث شریف سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایسے بھی ہیں جنھوں نے فقہ کبھی پڑھی ہی نہیں۔اجتہاد کرنے کے لیے اسمبلی یا کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں ہے۔اجتہاد کرنا ہے تو اس کے لیے علماءکی ایک مجلس ہونی چاہیے۔اگر حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اجتہاد فرماتے تھے اور امت کے ایک بہت بڑے طبقے کے امام ہیں تو وہ بھی اپنی مرضی سے نہیں کرتے تھے۔انھوں نے بھی چالیس علماءکی ایک کونسل بنائی ہوئی تھی۔مسئلہ ان کے سامنے پیش ہوتا اور اس پر بحث ہوتی تھی۔ اس کی تفصیل کتابوں میں ملتی ہے۔پھر جو ایک متفقہ رائے ہوتی اس کو امام صاحب اپنے علم کے ترازو میں تولتے تھے کہ اس کا یہ فیصلہ کیا جائے۔
ہم اگر ایک گریجوایٹ اسمبلی بنادیتے ہیں توایک گریجوایٹ اسمبلی کے پاس دینی علم ہوتا ہے!اجتہاد کے لیے قرآن کریم،حدیث شریف،متقدمین کی سیرت و کردار اور فقہ پر پوری نظر ہوتو اس کے بعد وہ بندہ اس کا اہل ہے کہ قرآن اور حدیث کے احکام کی حدود کے اندر اس کا حل تلاش کرے۔اسے اجتہاد کہتے ہیں۔یہ اجتہاد نہیں ہے کہ جو ہم کرتے ہیں،اسے جائز بنانے کے لیے کہہ دیں کہ فلاں آیت کی یہ تاویل کرو،فلاں حدیث اس وقت تو کارگر تھی لیکن اب زمانہ بدل گیا۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔آج بھی وہی انسان ہیں، وہی ان کی غذا ہے، وہی ان کی دوائیں ہیں،وہی ان کی ضرورتیں ہیں۔ہاں وسائل بدل گئے ہیں۔ اس زمانے میں سواری کے وسائل اور تھے،لکھنے پڑھنے کے وسائل اور تھے،کھانے پینے کے، روزی کے وسائل اور تھے، آج وسائل بدلے ہیں لیکن انسان بدلا ہے نہ انسان کی ضرورتیں بدلی ہیں۔کسی بڑے اجتہاد کی ضرورت ہی نہیں کہ بندہ بھی وہی ہے، اس کی ضرورتیں بھی وہی ہیں لیکن ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے طریقے بدل گئے ہیں۔ اب اجہتاد یہی ہوگا کہ اس وقت ضرورت کے تحت اجازت تھی کہ گھوڑے پہ نماز ہو سکتی ہے،آج کا مجتہد یہ کہہ دے گا کہ ریل گاڑی پہ، بس پہ جارہے ہو یا جہاز پہ جارہے ہو، سواری پہ ہو اور نماز کا وقت ہوتا ہے تو کیا نماز ادا کی جاسکے گی۔ اس وقت کی سواری گھوڑا تھی آج کی سواری بدل گئی ہے۔
اس پہ بھی بڑا عرصہ بات ہوتی رہی لیکن علماءاس پہ متفق نہیں ہوتے تھے کہ جہاز میں نماز میں ادا ہوتی ہے کہ نہیں ۔دلیل یہ تھی کہ بحری جہاز پہ نماز ہوجاتی ہے کہ وہ پانی پہ ہے اور پانی کا تعلق زمین سے ہے،گھوڑے پہ اس لیے ہوجاتی کہ اس کے پاﺅں زمین پر ٹکے ہوئے ہیں اور بیت اللہ شریف زمین پر ہے لیکن جہاز تو فضا میں اڑتا ہے۔ آج سے چند سال پہلے علماءاس نتیجہ پر پہنچے کہ بیت اللہ شریف صرف زمین پر نہیں اور یہ جو چار پتھر لگے ہوئے ہیں یہ بیت اللہ نہیں ہے،یہ بیت اللہ کی نشان دہی کرتا ہے۔یہ جو بیت اللہ کی دیواریں ہیں یا چھت ہے یا جو پتھر لگے ہیں،یہ بذات خود بیت اللہ نہیں ہے۔اگر ہم ان پتھروں کو اکھیڑ کر کسی دوسری جگہ عمارت بنادیں تو نہ وہ بیت اللہ بن جائے گا،نہ ان پتھرون کو کوئی سجدہ کرتا ہے۔ یہ زمین کے ایک مرکز کی نشان دہی کر تے ہیں کہ یہ بیت اللہ ہے، مہبط تجلیات ہے۔ تحت الثریٰ سے لے کر عرش عُلیٰ تک بیت اللہ ہی بیت اللہ ہے۔حطیم سمیت بیت اللہ کا جو احاطہ ہے یہ عرش عظیم سے لے کر تحت الثریٰ تک یادوسری طرف عرش عظیم تک یہ سارا بیت اللہ ہے۔ جہاز اگر فضا میں بھی ہوتا ہے تو بیت اللہ کی کسی سمت میں ہوتا ہے اس لیے جہاز میں بھی ادا کرنی چاہیے۔یہ تو ہوا اجتہاد جس کی دلیل یہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جہاں بیت اللہ ہے،یہ اللہ کی تجلیات کا مہبط ہے۔ عرش عظیم سے لے کر دنیا کی طرف بھی عرش عظیم تک بیت اللہ ہی بیت اللہ ہے، اس کے انوارات و تجلیات موجود ہیں اور اس کی مرکزیت موجود ہے۔ علمائے حق نے یہ اجتہاد کیا کہ جب تجلیات باری ہی مقصود ہیں، وہی مرکز ہے اوریہ پتھر اس سمت کی نشان دہی کر رہے ہیں تو جہاز میں آپ اس طرف رخ کرکے نماز ادا کر لیجئے تو یہ اجتہاد ہوگیا۔
وسائل بدلے اور اس کے ساتھ کچھ نئے مسائل سامنے آئے لیکن ان پر اجتہاد وہ ہے جو قرآن،حدیث اور متقدمین کی آراءکے مطابق ہو۔ ان سب کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالنا اجتہاد نہیں، بغاوت ہے۔ دین کی تعبیر نہیں، تحریف ہے اور دین کو بدلنے والی بات ہے۔ یہ جو روز اجتہاد کا شور ہو رہا ہے تو میرے خیال میں یہ لوگ خود بھی نہیں سمجھتے کہ اجتہاد کسے کہتے ہیں۔ جیسے ایک صاحب اپنی تقریر میں فرما رہے تھے کہ جدید تقاضوں کے مطابق اجتہاد ہونا چاہیے ان کے جدید کیا ہیں؟ وہ ٹی وی ایک محفل میں فرما رہے تھے کہ قرآن میں یہ تو کہیں نہیں لکھا ہوا کہ شراب حرام ہے، بس صرف یہ فرما یا کہ اس سے بچو یہ بری چیز ہے۔ اب یہ اجتہاد تو نہیں ہے۔جب بچنے کا حکم نازل ہو اتو اس کی تعبیر جو محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمائی وہ یہ تھی کہ کوئی شخص اس کے بعد نہ شراب پیے گا،نہ شراب خریدے گا،نہ شراب گھر میں رکھے گا۔خود مدینہ منورہ میں جن لوگوں کے گھروں میں جو ذخیرہ تھا اور مٹکے بھرے ہوئے تھے، وہ لوگوں نے گلیوں میں بہادیے۔ تاریخ میں موجود ہے کہ مہینوں بعد بھی اگر بارش پڑتی تو زمین پہ جھاگ بن جاتی تھی۔جس آیت کی تفسیر حضور اکرم ﷺ نے کی، اس پر آپ ﷺ نے عمل کروایا۔ اب ان صاحب کے لیے تو اس میں گنجائش نہیں ہے کہ وہ اسے پنا معنی پہنائیں اور اسے اجتہاد کہیں۔یہ اجتہاد نہیں ہے ، بے دینی ہے اور بغاوت ہے۔ہمیں اجتہاد یہ کرنا ہے کہ ان وسائل کے ساتھ اور اس زمانے میں ہم کس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کا حق ادا کرسکتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی رہیں،اس کا کپڑا بھی پہنیں،آج کی غذا بھی کھائیں،آج کی گاڑیوں پہ سفر بھی کریں، آج کے جہازوں پہ سفر بھی کریں،آج کی مصروف شہری زندگی میں بھی رہیں لیکن حضور اکرم ﷺ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔ اللہ اور اللہ کے رسول کا اتباع ہوتا رہے۔ اگر یہ اجتہاد ہے تو درست ہے۔ یہ اجتہاد نہیں ہے کہ قرآن و حدیث کو آج کے تقاضوں کے مطابق بدلا جائے۔